کاراباخ کے متنازع نام پر آذربائیجان اور روس میں نئی کشیدگی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
آذربائیجان نے روسی ریاستی خبر رساں ایجنسی TASS کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے نگورنو کاراباخ کے دارالحکومت کے لیے آرمینیائی نام ’اسٹیپاناکیٹ‘ کا استعمال بند نہ کیا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:ایران پر حملے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دینگے، آذربائیجان
آذربائیجانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان آیخان حاجی زادہ نے ایک بیان میں کہا کہ TASS کا ’خنکندی‘ کے بجائے ’اسٹیپاناکیٹ‘ کہنا آذربائیجان کی توہین اور عدم احترام کے مترادف ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ یہ طرز عمل ملک کی خودمختاری کے منافی ہے۔
ترجمان کے مطابق یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب TASS نے ایک رپورٹ میں آرمینیائی نژاد روسی مصور ایوان آیوازووسکی کے مجسمے کی تنصیب کو ’روسی امن فورسز کا اقدام‘ قرار دیا۔
حاجی زادہ نے کہا کہ یہ مجسمہ غیر قانونی طور پر نصب کیا گیا تھا، جو آذربائیجان کے لیے ’واضح توہین‘ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ترکیہ، پاکستان اور آذربائیجان 3 ریاستیں مگر ایک قوم ہیں: رجب طیب اردوان
انہوں نے کہا ہم TASS سے معذرت اور رپورٹ کی درستگی کی توقع رکھتے ہیں۔ بصورت دیگر، ملکی قانون کے تحت اس کی آذربائیجان میں سرگرمیوں پر اقدامات کیے جائیں گے۔
جمعے کی دوپہر تک TASS نے اپنی رپورٹ میں ’اسٹیپاناکیٹ‘ کا ذکر حذف کر کے اسے ’نگورنو کاراباخ‘ سے بدل دیا، مگر اس تبدیلی کا کوئی نوٹس شائع نہیں کیا۔
یہ تناؤ ایسے وقت میں بڑھ رہا ہے جب جون کے آخر میں روسی شہر یکاتیرنبرگ میں 2 آذربائیجانی شہریوں کی دورانِ حراست ہلاکت کے بعد آذربائیجان نے روسی پولیس پر تشدد اور قتل کے الزامات عائد کیے تھے۔
اس واقعے کے بعد باکو نے روس سے منسلک ثقافتی تقریبات منسوخ کر دیں، کریملن کے حمایت یافتہ ’سپوتنک‘ نیٹ ورک کے مقامی دفاتر پر چھاپے مارے اور روسی شہریوں کو منظم جرائم کے الزام میں گرفتار کیا۔
روسی حکام نے تاحال آذربائیجان کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
TASS آذربائیجان اسٹیپاناکیٹ روس روسی میڈیا کاراباخ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: روسی میڈیا کاراباخ کے لیے
پڑھیں:
بھارت سے اختلاف صرف روسی تیل خریدنے پر نہیں ہے، امریکہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 اگست 2025ء) امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعرات کے روز کہا کہ بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خرید و فروخت سے یوکرین کے خلاف جنگ کی کوششوں میں ماسکو کو مدد مل رہی ہے اور یہ واشنگٹن کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات میں "یقیناً اختلاف کا ایک نقطہ" ہے، تاہم بات صرف اسی مسئلے تک محدود نہیں ہے۔
فوکس ریڈیو کے ساتھ روبیو کے انٹرویو کو بھارتی میڈیا نے بھی تفصیل سے شائع کیا ہے، جس میں امریکی وزیر نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ اس حقیقت سے مایوس ہیں کہ بھارت روس سے تیل خریدنا جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ اسے بہت سے دیگر دوسرے تیل فروخت کرنے والے دستیاب بھی ہیں۔
بھارت کے تیل خریدنے سے روس کو جنگ میں مددانہوں نے کہا بھارت روسی تیل خرید کر یوکرین کے خلاف ماسکو کی جنگی کوششوں کو فنڈ دینے میں مدد کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، "بھارت کو توانائی کی بہت زیادہ ضروریات ہیں اور اس میں تیل اور کوئلہ اور گیس خریدنے کی صلاحیت اور وہ چیزیں شامل ہیں جن کی اسے ہر ملک کی طرح اپنی معیشت کو طاقت دینے کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ اسے روس سے خریدتا ہے، کیونکہ روسی تیل پر پابندیاں عائد ہیں اور اسی وجہ سے وہ سستا بھی ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "بدقسمتی سے اس سے روس کی جنگی کوششوں کو برقرار رکھنے میں مدد مل رہی ہے۔
لہٰذا یہ یقینی طور پر بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات میں چڑچڑاپن کا ایک نقطہ ہے، تاہم اختلافات کا یہ واحد نقطہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ان کے ساتھ اختلافات کے بہت سے دیگر نکات بھی ہیں۔" تجارتی معاہدے میں اہم رکاوٹ کیا ہیں؟مارکو روبیو نے کہا کہ تضاد کے سب سے بڑے نکات میں سے ایک وہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت اور امریکہ تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے سے ناکام رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ بھارت اپنی زراعت اور ڈیری کے شعبوں کو کھولنے کے لیے مضبوط مزاحمت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ بھارت کی زرعی منڈی، خاص طور پر جی ایم (جنییاتی طور پر تبدیل شدہ) فصلوں، ڈیری، اور مکئی، سویابین، سیب، بادام اور ایتھنول جیسی مصنوعات کے لیے زیادہ سے زیادہ رسائی دینے کے لیے بھارت پر زور دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی کمپنیاں ان حساس شعبوں میں ٹیرفس کم کرنے کے لیے بھی بھارت سے اصرار کر رہی ہیں۔
لیکن نئی دہلی کا استدلال ہے کہ ملک میں سستی، سبسڈی والے ایسے امریکی سامان کی اجازت دینے سے لاکھوں چھوٹے کسانوں کی آمدن کو نقصان پہنچے گا۔
بھارت نے امریکہ سے کہا ہے کہ ڈیری، چاول، گندم اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ (جی ایم) فصلوں جیسے مکئی اور سویابین پر محصولات کو کم کرنا ابھی ممکن نہیں ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق اس طرح کے اقدام سے تقریبا 70 کروڑ بھارت کے دیہی لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جن میں تقریباً 80 ملین چھوٹے ڈیری فارمرز بھی شامل ہیں۔
امریکہ زرعی اور ڈیری مصنوعات کے علاوہ دیگر مصنوعات کی وسیع رینج میں بھارتی مارکیٹ تک بہتر رسائی کے لیے بھی زور دے رہا ہے۔
اس میں ایتھنول، سیب، بادام، آٹوز، طبی آلات، دواسازی کے ساتھ ساتھ الکحل مشروبات بھی شامل ہیں۔امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بھارت اپنی نان ٹیرفس رکاوٹوں کو کم کرے، کسٹم کے قوانین کو آسان بنائے، اور ڈیٹا اسٹوریج، پیٹنٹ اور ڈیجیٹل تجارت کے قوانین میں بھی نرمی کرے۔
ادارت: جاوید اختر