اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) وجائنل اسپیکیولم ایک ایسا طبی آلہ ہے، جو دنیا بھر میں خواتین کے حیاتیاتی اور تولیدی طبی معائنے کے لیے روزانہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ عموماً سرد، سخت اور دھاتی ہوتا ہے اور اس کے استعمال کے دوران خواتین کو درد اور بے چینی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ طبی آلہ، جسے اکثر ماضی کے ایذا رسانی کے لیے استعمال ہونے والے آلات سے تشبیہ دی جاتی ہے، آج بھی دنیا بھر میں خواتین کی بہت بڑی اکثریت کے لیے شدید خوف اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔

تاہم اب نیدرلینڈز کی ڈیلفٹ یونیورسٹی کی دو ماہر خواتین نے وجائنل اسپیکیولم سے متعلق اس دیرینہ اور خوفناک تصور کو بدلنے کی اپنی کوشش تیز تر کر دی ہیں۔ تمارا ہوولنگ اور آریادنہ ازکارا گوال دونوں صنعتی ڈیزائن کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں اور انہوں نے ہی وجائنل اسپیکیولم کے اس قدیم ڈیزائن پر نظر ثانی کی ہے، جو تقریباً ڈیڑھ سو سال پرانا ہے۔

(جاری ہے)

تمارا ہوولنگ نے اپنے ذاتی تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس آلے کے اپنے جسم میں استعمال کے دوران شدید تکلیف اور خوف کا سامنا رہا اور وہ مسلسل یہی سوچتی رہیں کہ آخر یہ آلہ ایسا کیوں ہے؟

انہوں نے مزید بتایا، ''اس وجائنل اسپیکیولم کا ایک ورژن 180 سال پہلے امریکی ڈاکٹر جیمز ماریون سمز نے تیار کیا تھا، جسے انہوں نے اجازت کے بغیر غلام خواتین پر آزمایا تھا۔

یہی تاریخی ظلم و زیادتی مجھے اس پروجیکٹ کے حوالے سے مزید متاثر کرنے والی وجوہات بنے۔‘‘ 'لیلیم‘ ایک گیم چینجر

صنعتی ڈیزائن میں ماسٹرز ڈگری کی طالبہ تمارا نے آریادنہ کے ساتھ مل کر وجائنل اسپیکیولم کا ایک نیا پروٹوٹائپ تیار کیا، جسے انہوں نے 'لیلیم‘ (Lilium) کا نام دیا ہے، جو کہ للی نامی پھول سے ماخوذ ہے۔ یہ نیا ڈیزائن روایتی دھات کے بجائے نرم پلاسٹک سے بنایا گیا ہے اور اسے استعمال کرنے کے لیے ایک ایپلیکیٹر بھی مہیا کیا گیا ہے، جس کی مدد سے اسے نسوانی جسم میں داخل کرنا مقابلتاﹰ آسان اور کم تکلیف دہ ہوتا ہے۔

یہ نیا آلہ نہ صرف خواتین مریضوں کی طبی اور جسمانی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے، بلکہ یوں ڈاکٹروں کو مریضوں کے معائنے کا زیادہ بہتر اور مؤثر موقع بھی مل سکے گا۔ لیلیم کا منفرد ڈیزائن سہ رخی ہے، جو وجائنہ کی اطراف یا 'دیواروں‘ کو سہارا دیتا ہے اور دوران معائنہ طبی معالجین کے لیے کسی بھی مریضہ کے تولیدی نظام کے بہتر اندرونی مشاہدے کو یقینی بناتا ہے۔

یعنی اس نئے آلے کے ساتھ کسی بھی گائناکالوجسٹ کے لیے کسی بھی مریضہ کے طبی معائنے کی عملی ضروریات زیادہ بہتر طور پر پوری کر دی گئی ہیں۔

روایتی اسپیکیولم کے برعکس، جس کے استعمال سے اکثر عضلات سخت ہو جاتے ہیں اور درد میں اضافہ ہوتا ہے، اس نئے آلے کا نرم ڈیزائن عضلات کو زیادہ آرام دہ رکھتا ہے، جس سے معائنے کے دوران تکلیف کم ہوتی ہے۔

تمارا ہوولنگ نے بتایا، ''جب کوئی مریضہ خوفزدہ ہو جاتی ہے، تو اس کے جسم کے متعلقہ حصے کے عضلات تناؤ میں آ جاتے ہیں، جس سے اسپیکیولم کے جسم میں داخلے اور اسے کھولنے کے دوران ہونے والی تکلیف زیادہ ہو جاتی ہے۔‘‘ اسی لیے انہوں نے اس آلے کے ایسے ڈیزائن پر کام کیا، جو قدرتی اشیاء کی ہیئت اور شکلوں سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہو، جیسے کہ کوئی کھلنے والا پھول، تاکہ یہ آلہ مریضہ کے لیے کم سے کم جارحانہ نوعیت والا محسوس ہو۔

مریضہ اور معالج دونوں کے لیے سہولت

یہ نیا آلہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے کلینکس میں متعارف کرانے سے پہلے ابھی مزید تحقیق، تجربات اور حفاظتی منظوری کی ضرورت ہے۔ تاہم اس پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ حاصل کرنے کی خاطر شروع کی گئی کراؤڈ فنڈنگ مہم نے صرف دو دنوں میں ایک لاکھ یورو سے زائد کی رقم جمع کر کے واضح کر دیا کہ خواتین اور طبی ماہرین دونوں ہی اس تبدیلی کے منتظر ہیں۔

تمارا ہوولنگ نے کہا کہ انہیں خواتین کی طرف سے بے شمار ای میلز موصول ہوئیں، جنہوں نے بتایا کہ وہ اس آلے کی وجہ سے کسی بھی گائناکالوجسٹ کے پاس جانے سے کتراتی ہیں کیونکہ انہیں اس وجہ سے شدید خوف یا تکلیف کا سامنا رہا ہے۔

رحم مادر کے سرطان کی تشخیص میں مددگار

عالمی ادارہ صحت کے مطابق سروائیکل کینسر یا رحم مادر کا سرطان خواتین میں چوتھا سب سے عام سرطان ہے، اور اس کی بروقت تشخیص کے لیے عام طور پر اسپیکیولم کا استعمال ضروری ہوتا ہے تاکہ 'سمیئر ٹیسٹ‘ یا ایچ پی وی اسکریننگ کی جا سکے۔

لیلیم جیسے جدید اور آرام دہ آلے کی موجودگی طبی تشخیص کے اس عمل کو آسان اور خواتین کے لیے ایک 'کم خوفناک تجربہ‘ بنا سکتی ہے، جس سے نہ صرف کامیاب طبی معائنوں اور تشخیص کی شرح بڑھے گی بلکہ خواتین مریضوں کی جان بچانے میں بھی مدد ملے گی۔

توقع کی جا رہی ہے کہ یہ نئی ایجاد خواتین کی صحت کے تحفظ کے عمل میں ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتی ہے اور اگلے پانچ سال کے اندر اندر عام کلینکس میں متعارف کرائے جانے کے بعد یہ نیا وجائنل اسپیکیولم ہزاروں خواتین کی زندگیاں بچانے کا موقع فراہم کرے گا۔

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین کی کے دوران انہوں نے ہوتا ہے کسی بھی ہے اور اور اس یہ نیا کے لیے

پڑھیں:

خواتین کو مردوں کے مساوی اجرت دینے کا عمل تیز کرنے کا مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) یکساں اجرت کے عالمی دن پر 'یو این ویمن' نے حکومتوں، آجروں اور محنت کشوں کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دینے کے مسئلے کو حل کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں۔

ادارے نے مساوی قدر کے کام کے لیے مساوی اجرت کو بنیادی انسانی حق اور پائیدار ترقی کا اہم ستون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 30 سال پہلے، حکومتوں نے بیجنگ اعلامیہ اور 'پلیٹ فارم فار ایکشن' کے تحت مساوی اجرت کے لیے قانون سازی اور اس پر مؤثر عمل درآمد کا وعدہ کیا تھا جس کی توثیق پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے میں بھی کی گئی ہے۔

Tweet URL

تاہم، آج بھی دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں خواتین اوسطاً 20 فیصد کم اجرت حاصل کرتی ہیں جب کہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی، جسمانی معذور اور تارک وطن خواتین کے لیے یہ فرق اور بھی زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

ادارے کا کہنا ہے کہ غیر مساوی اجرت کا تسلسل خواتین کی آمدنی کے تحفظ کو کمزور کرتا ہے، امتیازی سلوک ان کی آوازوں کو دباتا اور جامع و پائیدار معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ 2030 کے ایجنڈے کی تکمیل میں پانچ سال سے بھی کم وقت باقی ہے اسی لیے یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے تیزرفتار اجتماعی اقدامات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔

مساوی اجرت کا فروغ

عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور ادارہ معاشی تعاون و ترقی (او ای سی ڈی) کے تعاون سے بین الاقوامی مساوی اجرت اتحاد (ایپک) کی شریک قیادت کے طور پر یو این ویمن حکومتوں، آجروں، تجارتی انجمنوں اور محققین کی شراکت میں مساوی اجرت کو فروغ دینے کے لیے نمایاں کام کر رہا ہے۔

ادارے نے حکومتوں پر واضح کیا ہے کہ وہ قانون اور پالیسی سے متعلق مضبوط طریقہ کار متعارف کرائیں، آجر شفاف اجرتی نظام نافذ کریں، مساوات پر مبنی آڈٹ کرایا جائے اور کام کی جگہوں پر صنفی مساوات کے لیے حساس ماحول تشکیل دیا جائے۔

محنت کشوں کی انجمنیں سماجی مکالمے اور اجتماعی سودے بازی کو فروغ دیں جبکہ بین الاقوامی و تعلیمی ادارے اور نجی شعبہ اس فرق کو ختم کرنے کے لیے درکار احتساب اور رفتار فراہم کر سکتے ہیں۔

جراتمندانہ اقدامات کی ضرورت

آئندہ ایام میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس سے قبل یو این ویمن نے عالمی رہنماؤں کو یاد دلایا ہے کہ مساوی قدر کے کام کے لیے مساوی اجرت 'آئی ایل او' کے کنونشن 100 میں بنیادی انسانی حق کے طور پر شامل ہے۔

یو این ویمن نے کہا کہ اجرت میں مساوات کی مخالفت، انصاف اور تعاون کے ان اصولوں پر حملے کے مترادف ہے جن کی اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی توثیق کی گئی ہے۔

مساوی اجرت کے عالمی دن پر یو این ویمن نے تمام متعلقہ فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہوئے 'ایپک' میں شمولیت اختیار کریں اور صنفی بنیاد پر اجرتوں کے فرق کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے جرات مندانہ اقدامات اٹھائیں۔

متعلقہ مضامین

  • انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کا تین روز فلم فیسٹیول اختتام پذیر
  • بی جے پی حکومت میں خواتین کا تحفظ مذاق بن چکا ہے، کانگریس
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • مجھ پر انڈوں سے حملہ کرنے کا واقعہ اسکرپٹڈ تھا: علیمہ خان
  • شادی میں تاخیر پاکستانی خواتین کو موٹاپے سے بچانے میں مددگار ثابت
  •  نوجوانوں میں مالیاتی امید بلند مگر مجموعی عوامی اعتماد میں کمی ہوئی، اپسوس کا تازہ سروے
  • خواتین کو مردوں کے مساوی اجرت دینے کا عمل تیز کرنے کا مطالبہ
  • قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر سخت پابندی عائد
  • سندھ میں ایچ پی وی ویکسینیشن مہم، پاکستان ویکسین فراہم کرنیوالا 149واں ملک بن گیا
  • سروائیکل کینسر ویکسین تولیدی صحت کے لیے کتنی محفوظ ہے؟