نوابشاہ: خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عوام کے اعتماد کو بڑھانے کے لیے سندھ حکومت کی طرز پر عوامی فلاحی منصوبوں کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری نے نواب شاہ کی یونین کونسل عبداللہ لونڈ کے گاؤں خادم حسین شر کا دورہ کیا ہے۔اس  موقع پر وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو بھی اُن کے ہمراہ تھیں۔

آصفہ بھٹو نے سیلاب متاثرین کیلیے سندھ پیپلز ہاؤسنگ کے تحت بننے والے گھروں کا دورہ کیا اور ان کا جائزہ بھی لیا۔

رکن قومی اسمبلی بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے گھروں کی مالکانہ اسناد کو متاثرہ خاندانوں کی خواتین ارکان میں تقسیم کیا اور کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 21 لاکھ گھروں کی تعمیر کا خواب دیکھا اور اسے تعبیر بھی دیدی۔

انہوں نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے عوامی خدمت کی جو مشعل جلائی تھی، اسی تسلسل سے پاکستان کے عام آدمی کے گھروں روشن ہیں۔

آصفہ بھٹو نے کہا کہ پاکستان بھر میں سندھ حکومت کے عوامی فلاحی منصوبوں کی طرز پر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ عام آدمی کا حکومت پر اعتماد مزید مضبوط ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بھٹو زرداری نے ا صفہ بھٹو

پڑھیں:

حسینہ کی معزولی کے ایک سال بعد بھی بنگلہ دیش منقسم کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) بنگلہ دیش میں سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جلاوطنی کے بعد عبوری حکومت، انتخابی غیر یقینی، انسانی حقوق اور اسلام پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے سے متعلق تحفظات کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔

اگست 2024 میں بنگلہ دیش کی طویل عرصے سے برسر اقتدار وزیرِاعظم شیخ حسینہ نے حکومت مخالف پر تشدد احتجاج کے بعد استعفیٰ دیا اور بھارت چلی گئیں۔

ان مظاہروں کی ابتدا سرکاری ملازمتوں میں متنازع کوٹہ نظام کے خلاف ہوئی تھی، مگر یہ وسیع تر عوامی تحریک میں بدل گئے۔ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے رہنما یا تو گرفتار ہوئے یا روپوش ہوگئے، جبکہ اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکی ہے۔

(جاری ہے)

بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا اور دیگر رہنما، جو حسینہ دور میں بدعنوانی اور تشدد جیسے الزامات میں قید تھے، اب آزاد ہیں۔

پارٹی رہنما عبدالسلام نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سیاسی آزادی بحال ہوئی ہے مگر عام عوام کے لیے حالات اب بھی غیر یقینی ہیں۔

دارالحکومت ڈھاکہ میں گارمنٹ ورکر امبیہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ طلبہ کی تحریک نے امید پیدا کی، مگر بدامنی اور سیاسی جماعتوں کی موقع پرستی اب بھی جاری ہے۔

عبوری حکومت کی قیادت نوبل انعام یافتہ محمد یونس کر رہے ہیں، جنہوں نے ابتدائی طور پر اپریل 2026 میں انتخابات کا وعدہ کیا، لیکن بی این پی اور اتحادی جماعتیں فروری میں انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

انسانی حقوق کے محاذ پر بہتری کی امیدیں پوری نہیں ہو سکیں۔ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ اگرچہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے جرائم میں کمی آئی ہے مگر اب بھی سیاسی مخالفین کو بلاجواز گرفتار کیا جا رہا ہے اور عدالتی و صحافتی اصلاحات سست روی کا شکار ہیں۔

ایک نئی پیش رفت میں محمد یونس کی حکومت نے سب سے بڑی اسلام پسند جماعت پر سے پابندی ہٹا لی ہے، جس کے بعد ''حفاظتِ اسلام‘‘ جیسی تنظیموں کی عوامی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔

ان گروہوں نے خواتین کے مساوی وراثتی حقوق، تعدد ازدواج پر پابندی اور جنسی کارکنوں کی قانونی حیثیت جیسے مجوزہ اصلاحات کے خلاف ہزاروں افراد پر مشتمل مظاہرے کیے۔

سرکاری ترجمان فویز احمد نے ایچ آر ڈبلیو کی تنقید کو جزوی طور پر تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مکمل ختم نہیں ہوئیں لیکن ان کے بقول حسینہ دور کے مقابلے میں ان خلاف ورزیوں میں اب نمایاں کمی آئی ہے۔

ان کے مطابق بند کیے گئے میڈیا ادارے دوبارہ کھل چکے ہیں اور لوگ سرکاری نشریاتی اداروں پر بھی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں، جو پہلے ممکن نہ تھا۔

دوسری جانب حسینہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت خود عوامی لیگ کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔ عوامی لیگ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے جب تک کہ ایک خصوصی ٹریبیونل گزشتہ سال کے پرتشدد واقعات میں اس کی مبینہ ذمہ داری پر فیصلہ نہ سنا دے۔

سابق وزیرِ اطلاعات محمد عرفات نے الزام عائد کیا ہے کہ یونس اقتدار طول دینے کے لیے اسلام پسندوں اور نیشنل سٹیزنز پارٹی کو خوش کر رہے ہیں، جو عوامی لیگ پر پابندی کے سب سے بڑے حامی ہیں۔

اقتصادی لحاظ سے عبوری حکومت نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن میں نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگرام اور غیرملکی سرمایہ کاری کی کوششیں شامل ہیں۔

سب سے نمایاں پیش رفت امریکہ سے حاصل کردہ رعایتی 20 فیصد درآمدی ٹیرف ہے، جو سات اگست سے نافذ العمل ہوگا اور بنگلہ دیش کی گارمنٹ انڈسٹری کو خطے کے دیگر ممالک کے برابر مقابلے کی سہولت دے گا۔

مجموعی طور پر، حسینہ کی رخصتی کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی آزادی کا تاثر ضرور پیدا ہوا ہے، مگر انسانی حقوق، انتخابی شفافیت اور مذہبی شدت پسندی جیسے چیلنجز اب بھی حل طلب ہیں۔

عرفات اسلام، شکور رحیم

ادارت: عرفان آفتاب

متعلقہ مضامین

  • حسینہ کی معزولی کے ایک سال بعد بھی بنگلہ دیش منقسم کیوں؟
  • 21 لاکھ سیلاب متاثرین کو گھر دے رہے ہیں، آصفہ
  • سندھ میں سیلاب کیوجہ سے گھروں سے محروم ہونیوالوں کو ملکیتی حقوق مل گئے
  • پی پی پی کے علاوہ کسی جماعت نے خواتین کو گھروں کی ملکیت دینے کا قدم نہیں اٹھایا، آصفہ بھٹو
  • روٹی ،کپڑا ،مکان ، خاتون اول نے سچ کردکھایا؛خواتین کو گھروں کے مالکانہ حقوق دے دیے
  • سندھ میں سیلاب کیوجہ سے گھروں سے محروم ہونے والوں کو آصفہ بھٹو نے ملکیتی حقوق دے دیے
  • صدر آصف علی زرداری سے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی بلاول ہاؤس کراچی میں ملاقات
  • بلوچستان کی تجارتی اور سماجی بہتری کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، سینیٹ قائمہ کمیٹیوں کا مطالبہ
  • غزہ پر برطانوی وزیراعظم کا مؤقف قابل ستائش ہے، آصفہ بھٹو