اسلام آباد:

26 ویں ترمیم  کے بعد انتظامیہ عدالتوں سے اہم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی،ان میں بڑی پیش رفت 9 مئی کے مقدمات پی ٹی آئی کے204 رہنماؤں و کارکنوں کو سزائیں ہیں۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 9 مئی کے مقامات کی تیز سماعت میں اہم کردار اور ان کی سربراہی میں بینچ نے چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ڈیڈلائن دی۔

اسی ترمیم کے تحت آئینی بینچ نے 103سویلین کیسز  کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی توثیق کی،عمران خان کے بھانجے سمیت بیشتر سزایافتہ جیل میں فوجی عدالتوں میں سزاؤں کے خلاف اپیل کا حق ملنے کی مجوزہ قانون سازی کے منتظر ہیں۔

حکومت نے اپیل کے اس حق کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ گرما تعطیلات کے باعث  تین اہم کیسز مخصوص نشستیں، ججوں کی ٹرانسفر اور فوجی عدالتوں پر فیصلے ہوئے ہیں، ادھر حکومت27 ویں آئینی ترمیم کے لیے موزوں وقت کی منتظر ہے۔9 مئی کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی محاذ آرائی نے عدلیہ کا کردار اہم بنایا، اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت  مایوسی ہوئی جب سابق چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت سے عمران خان کی گرفتاری کا نوٹس اور انہیں بینچ میں پیش کرنے کی ہدایت کی، پھر ریلیف دے کر انتظامیہ کو مزید پریشان کیا۔

 سابق چیف جسٹس پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز میں کرانا چاہتے تھے مگر ایسا نہ کر سکے۔ ان کے پیشرو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کسی معاملے پر حکومت کو مایوس نہ کیا، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں  اور انتخابی دھاندلی کے الزامات کا نوٹس نہ لیا۔

 انہوں نے فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل غیر آئینی ہونے کا فیصلہ  معطل کر دیا، پی ٹی آئی انتخابی نشان بلے سے محروم، خواتین رہنما ضمانت حاصل نہ کر سکیں ، جیل ٹرائل میں عمران خان کو تین الزامات میں سزائیں دی گئیں، اس سب کے باوجود 8 فروری کے انتخابی نتائج پی ٹی آئی مخالفین کے لیے حیران کن تھے۔

 سابق چیف جسٹس قائز عیسیٰ کو 8 فروری کے بعد تشکیل نظام کا ضامن خیال کیا جاتا ہے، انہوں نے عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت پر اظہار تشویش کرنیوالوں ججوں کا ساتھ نہ دیا۔ وکلاء کی نظر میں جسٹس فائز عیسیٰ کا بڑا احسان سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد کو سپریم کورٹ میں لانے کی حمایت ہے، جسٹس ملک شہزاد نے انتخابی اور 9 مئی مقدمات کی شفاف سماعت یقینی بنانے کے لیے اہم اقدامات کئے جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔

بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بھی وہ  9 مئی مقدمات کی چھیڑ چھاڑ میں رکاوٹ بنے رہے، انہیں سپریم کورٹ بھیجنے کے بعد انسداد دہشت گردی عدالتوں کے ججوں کے تبادلے کر دیئے گئے۔گزشتہ سال مارچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے خط کے بعد انتظامیہ نے اعلیٰ عدلیہ کو کنٹرول کرنے پر کام شروع کر دیا۔

26 ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک ہونے کے بجائے سپریم کورٹ کے جج دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئے، ترمیم سے مستفید ہونیوالوں نے حکومت کو  مایوس نہ کیا، انتظامیہ ہائیکورٹس کیساتھ بھی مطمئن ہے، اختلاف کرنیوالوں کی اکثریت سائیڈ لائن کر دی گئی۔

 ہائیکورٹس کا چیف جسٹس  کی تقرری میں ناپسندیدہ جج نظر انداز کر دیئے گئے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں پسندیدہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کو بٹھانے کا حکومتی منصوبہ کامیاب رہا۔  26 ویں ترمیم کے بعد اعلیٰ عدلیہ پر انتظامیہ کا مکمل غلبہ ہے، اس لئے پی ٹی آئی کے سزا یافتہ رہنمائوں و کارکنوں کو کسی معاملے پر قابل ذکر ریلیف ملنے کا امکان نہیں۔

 وکلا ء نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ  اگرقانونی تقاضے پورے کئے بغیر سزائیں دینے کا سلسلہ جاری رہا تو عوام کا عدلیہ پر اعتماد مکمل ختم ہو جائیگاجس کا نقصان نظام عدل کو پہنچے گا، 26 ویں ترمیم کے بعد انتظامیہ کے زیر اثر کام کرنے کے تاثر ختم کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے ججوںکو ہی میکانزم بنانا ہو گا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سابق چیف جسٹس فوجی عدالتوں عدالتوں میں پی ٹی ا ئی ویں ترمیم ترمیم کے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلیے اسٹرکچرل اصلاحات مکمل کرنا ہوں گی، وزیر خزانہ

اسلام آباد:

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اگر موجودہ اسٹرکچرل اصلاحات مکمل نہ کی گئیں تو آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

وفاقی وزراء اویس لغاری، شزہ فاطمہ خواجہ، چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری خزانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پائیدار معاشی ترقی کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں، اصلاحات کی تکمیل سے ہی معاشی خودمختاری اور پائیدار ترقی ممکن ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ ریاستی ملکیتی اداروں میں بڑی اصلاحات کی گئی ہیں اور وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پر تیزی سے کام جاری ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ سعودی عرب، چین اور خلیجی ممالک نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔

قرضوں کی واپسی، بانڈز کا اجرا اور پنشن اصلاحات

سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے بتایا کہ رواں مالی سال میں 8.3 ٹریلین روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 9.8 ٹریلین روپے کے قرضے واپس کیے جائیں گے۔ اب تک 2.6 ٹریلین روپے کے قرضے واپس ہو چکے ہیں۔

امداد اللہ بوسال نے کہا کہ جلد پانڈا بانڈ اور بعد ازاں یورو بانڈ جاری کیے جائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ نئے ملازمین کو ڈائریکٹ کنٹری بیوشن پنشن اسکیم کے تحت بھرتی کیا جا رہا ہے، اور اس مقصد کے لیے ایک کمپنی قائم کی جا رہی ہے۔

سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ افواج میں ریٹائرمنٹ جلدی ہو جاتی ہے، اس لیے مسلح افواج کے لیے بھی ڈائریکٹ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم پر کام جاری ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک میں یہی اسکیم لائی گئی تھی مگر بعد میں واپس لینا پڑی۔

چیئرمین ایف بی آر کی بریفنگ

ایف بی آر کی کارکردگی اور اصلاحات سے متعلق چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے بتایا کہ انکم ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ انکم ٹیکس کا مجموعی گیپ 1.7 ٹریلین روپے ہے، جس میں سے ٹاپ پانچ فیصد کا حصہ 1.2 ٹریلین روپے بنتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ہر منگل کو ایف بی آر کا احتساب کرتے ہیں جس سے ادارے کو سپورٹ ملتی ہے۔ ٹوبیکو سیکٹر میں کارروائیوں کے دوران ایف بی آر کے دو اہلکار شہید ہوئے، جبکہ رینجرز مکمل تعاون فراہم کر رہی ہے۔

چیئرمین ایف بی آر کے مطابق ادارے میں گورننس کے حوالے سے بڑی اصلاحات کی گئی ہیں، افسران کو اے، بی اور سی کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ایف بی آر کو سیاسی و انتظامی اثر و رسوخ سے آزاد کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹائزیشن کے باعث شوگر سیکٹر سے 75 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوا، جس میں 42 ارب روپے سیلز ٹیکس اور 43 ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں حاصل کیے گئے۔ ریٹیلرز سے حاصل ہونے والا ٹیکس 82 سے بڑھ کر 166 ارب روپے ہوگیا ہے۔

توانائی شعبے میں اصلاحات

وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ ہمیں مہنگی بجلی وراثت میں ملی، جس کی لاگت 9.97 روپے فی یونٹ ہے۔ روپے کی بے قدری اور کیپیسٹی چارجز کے باعث بجلی مہنگی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر انڈسٹری کے لیے بجلی 16 روپے فی یونٹ سستی کی گئی۔ سرپلس بجلی عوام کو 7.5 روپے فی یونٹ کے حساب سے پیشکش کی جا رہی ہے۔

اویس لغاری نے کہا کہ حکومت بجلی کی خرید و فروخت کے کاروبار سے باہر آرہی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر 1.2 کھرب روپے کا سرکلر ڈیٹ ختم کیا جا رہا ہے۔ پاور پلانٹس کے مالکان سے مذاکرات کے ذریعے 2058 تک 3600 ارب روپے کی اضافی ادائیگی روکی گئی۔

نجکاری

وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی نے کہا کہ نجکاری کمیشن کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا ہے اور نجکاری پروگرام 2024 میں 24 ادارے شامل کیے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری سرفہرست ہے اور اس کی خریداری کے لیے چار کنسورشیم دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ہدف ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری رواں سال کے آخر تک مکمل ہو۔

محمد علی نے کہا کہ 39 میں سے 20 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ مکمل ہوچکی ہے، 54 ہزار آسامیاں ختم کر دی گئی ہیں جس سے 56 ارب روپے کی بچت ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ پاسکو اور یوٹیلیٹی اسٹورز بند کیے جا رہے ہیں جبکہ نیشنل آرکائیو آف پاکستان سمیت اہم اداروں کو مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔

وزیر مملکت انفارمیشن ٹیکنالوجی

وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا کہ وزیراعظم کیش لیس اکانومی کے فروغ کے لیے باقاعدہ اجلاس کر رہے ہیں۔ تین کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، جن میں سے ایک ان کی سربراہی میں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نیشنل ڈیٹا ایکسچینج لیئر کا پائلٹ پراجیکٹ دسمبر میں متعارف کرایا جائے گا جس سے ٹیکس نیٹ بڑھے گا اور لیکج میں کمی ہوگی۔

شزہ فاطمہ نے کہا کہ پاکستان کی 400 ارب ڈالر کی معیشت دراصل 800 ارب ڈالر کی ہوسکتی ہے کیونکہ نصف حصہ انفارمل اکانومی پر مشتمل ہے۔

وزیر مملکت نے بتایا کہ جون 2026 تک ڈیجیٹل پیمنٹس کو 20 لاکھ صارفین تک بڑھایا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
  • 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ پر ایگزیکٹو کے اثر و رسوخ میں اضافے کی کوشش ہے، اسد قیصر
  • آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلیے اسٹرکچرل اصلاحات مکمل کرنا ہوں گی، وزیر خزانہ
  • جج ہمایوں دلاور کیخلاف سوشل میڈیا مہم کیس؛ جسٹس انعام امین کی سماعت سے معذرت
  • کے پی کے بار الیکشن: 13 نشستوں پر اے این پی وکلا کامیاب، پی ٹی آئی پیچھے رہ گئی
  • سندھ بار کونسل کے انتخابات، ایاز حسین تیسری مرتبہ نشست حاصل کرنے میں کامیاب
  • خیبر پختونخوا بار کونسل کے انتخابات میں ملگری وکیلان 13 نشستوں پر کامیاب
  • تنزانیہ؛ متنازع صدارتی انتخاب میں سامیہ حسن 98 فیصد ووٹوں سے کامیاب قرار
  • ایمباپے رونالڈو کے بعد گولڈن بوٹ حاصل کرنے والے ریال میڈرڈ کے پہلے کھلاڑی بن گئے
  • توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ