’لوگوں نے کہا بھینس کی طرح لگتی ہو‘، سابق مس انڈیا فائنلسٹ نے وزن میں حیران کن کمی کیسے کی؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
ہانگ کانگ میں مقیم اسٹینڈ اپ کامیڈین مائتری کرنتھ، جو کہ سابق مس انڈیا فائنلسٹ بھی ہیں، نے صرف ایک سال میں اپنے وزن میں حیران کن کمی کے ذریعے کئی لوگوں کو متاثر کیا ہے۔
اسٹینڈ اپ کامیڈین نے اپنے وزن میں کمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سفر دو دہائیاں پہلے شروع ہوا۔ اس وقت وہ ایک دوست کے ساتھ اسکواش کھیل رہی تھیں کہ اچانک شاٹ لینے کے لیے دوڑتے ہوئے دیوار سے ٹکرا گئیں، جس سے ان کے سینے کے پٹھوں میں گہرا چوٹ آئی اور شدید خون بہا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ چوٹ ٹھیک ہونے میں مہینے لگے اور اس سے ان کی جسمانی حرکت پر بہت اثر ڈالا جو کہ پہلے بہت متحرک تھیں، انہوں نے سکون کے لیے کھانے کی طرف رجوع کیا اور اس کے نتیجے میں 25 کلو وزن بڑھ گیا۔
View this post on Instagram
A post shared by Maitreyi Karanth (@maitreyi_karanth)
مائتری کے مطابق ’میں پھر بھی خوبصورت محسوس کرتی تھی اور سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر پوسٹ کرتی رہی بغیر یہ محسوس کیے کہ مجھے اپنے جسم کا کوئی حصہ چھپانا ہے‘۔ 52 سالہ مائتری نے کہا لیکن جب میں دوبارہ اسکواش اور ہائیکنگ جیسے سرگرمیاں کرنے لگی تو وزن کی زیادتی کے اثرات محسوس کیے اور مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی بھاری ہو گئی ہوں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس دوران مجھے تکلیف دہ تبصرے سننے پڑے کسی نے کہا کہ ’اگر میں تمہاری جگہ ہوتی، تو میں باہر بھی نہیں جاتی‘، کسی نے کہا۔ ’ایک دوست نے میرا کھانا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تاکہ جان سکے میں ایسی کیوں نظر آتی ہوں‘۔ اور کسی نے کہا کہ ’میں بھینس کی طرح لگتی ہوں ہے‘۔
مائتری نے اپنے وزن میں کمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ’میں نے وقفے وقفے سے روزہ رکھنے کے بارے میں سنا تھا، اور میں نے دن میں صرف ایک بار کھانے کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں میرا کھانا خاص طور پر صحت مند نہیں تھا، لیکن جیسے جیسے وزن کم ہوتا گیا، مجھے صحت مند کھانے کی خواہش بڑھنے لگی۔ ایک معمول کا کھانا تھوڑا سا چاول، کچھ پروٹین جیسے اُبلے ہوئے انڈے، بہت ساری سبزیاں، کچھ پھل اور ایک چھوٹا سا مٹھائی کا ٹکرا ہوتا تھا جسے میں کھاتی تھی‘۔
یہ بھی پڑھیں: ڈائٹنگ کے بغیر جسمانی وزن میں کمی لانے والے آسان ترین طریقے
اسٹینڈ اپ کامیڈین کے مطابق جب انہوں نے اپنے کھانے کے معمول میں تبدیلیاں کیں اور وزن کم کرنے لگیں، تو اپنی پسندیدہ جسمانی سرگرمیاں بھی دوبارہ شروع کیں۔ انہوں نے بتایہا کہ دن میں ایک بار کھانے کے پلان پرعمل کرتے ہوئے اور شراب کو مکمل ترک کر کے انہوں نے ایک سال میں 30 کلو وزن کم کیا، اور اپنا وزن 62 کلوگرام کر لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ چیلنجز بھی آئے ’میں نے ہفتے کے آخر میں شراب دوبارہ استعمال کرنے میں اعتدال برقرار رکھنے میں مشکلات محسوس کیں۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا کھانے کے ساتھ اچھا تعلق نہیں ہے۔ میں کھانے سے ڈرتی تھی، اور جب کھاتی تھی، تو اپنی حدوں کو نہیں جانتی تھی‘۔
یہ بھی پڑھیں: وزن میں کمی کی دوائیں کیسے کام کرتی ہیں؟
انہوں نے مزید کہا، ’اس دوران میں نے 7 کلو وزن بڑھایا، لیکن پھر میں دوبارہ دن میں ایک بار کھانے پر لوٹی اور دو مہینوں میں اضافی وزن کم کر لیا۔ تب سے، میں نے کھانے کے ساتھ صحت مند تعلق بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب میں دن میں دو بار کھاتی ہوں اور اپنے آپ کو ہر چیز کی تھوڑی تھوڑی مقدار کھانے دیتی ہوں‘۔
مائتری نے بتایا کہ دن میں صرف ایک بار کھانے، جسے OMAD بھی کہا جاتا ہے، کچھ افراد کے لیے شارٹ ٹرم وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے کیلوریز کی بڑی کمی ہوتی ہے۔ تاہم، 50 سال سے زائد خواتین کے لیے یہ زیادہ معاون طریقہ نہیں ہے۔ اس عمر میں ہارمونل تبدیلیاں، ہڈیوں کی کثافت اور پٹھوں کی مقدار پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ صرف ایک بار کھانے پر انحصار کرنے سے ضروری غذائی اجزاء جیسے پروٹین، کیلشیم، اور فائبر کی کمی ہو سکتی ہے، جو خاص طور پر مینوپاز کے دوران اور بعد میں بہت اہم ہیں اس لیے غذائیت سے بھرپور کھانے کا ایک متوازن طریقہ طویل مدتی طور پر زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وزن میں حیران کن کمی وزن میں کمی وزن میں کمی کیسے کی جائے.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: وزن میں کمی کیسے کی جائے ایک بار کھانے انہوں نے بتایا کہ کھانے کے کے ساتھ صرف ایک نے کہا کے لیے
پڑھیں:
اسلامی ممالک قطر پر اسرائیل کے حملے سے عبرت حاصل کریں، سید عبدالمالک الحوثی
اپنے ایک خطاب میں انصار الله کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عرب ممالک کیلئے یہ امکان بھی موجود ہے کہ وہ اپنے سربراہی اجلاسوں میں حماس، جہاد اسلامی اور القسام بریگیڈ جیسی فلسطینی مقاومتی تنظیموں کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکال سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ یمن کی مقاومتی تحریک "انصار الله" كے سربراہ "سید عبدالمالک بدر الدین الحوثی" نے آج دوپہر کو غزہ میں اسرائیل کے جرائم اور عالمی و علاقائی صورت حال پر ایک خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ صیہونی دشمن، غزہ میں دنیا کے سامنے صدی کی سب سے بڑی ظلم کی داستان کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اتنی بڑی نسل کشی اور تباہی کو دیکھ کر ہر وہ شخص دہل جاتا ہے جس کے دل میں انسانیت کی رمق باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں نسل کشی کے لئے صیہونی رژیم! امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کے بم استعمال کر رہی ہے، جن کا ایندھن عرب ممالک کے تیل سے فراہم کیا جاتا ہے۔ سید الحوثی نے کہا کہ اسرائیل، اسلامی ممالک کی کمزوری اور بے بسی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کے حملے صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بیت المقدس کو یہودیانے کی کوشش کر رہا ہے اور مسلسل مسجد اقصیٰ و اسلامی مقدسات کی توہین کر رہا ہے۔ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ و نتین یاہو کی دیوارِ براق کے پاس موجودگی اور مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگ کھولنے کے واقعے کو امت مسلمہ کی غفلت قرار دیا۔ اسی تناظر میں انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل ہر سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔
سید عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ ایسے وقت میں جب لبنان پر اسرائیلی جارحیت جاری ہے، امریکہ وہاں کی حکومت پر مزاحمت کو ختم کرنے کے دباؤ ڈال رہا ہے۔ انہوں نے صابرا اور شتیلا کے قتل عام کو مثال بناتے ہوئے کہا کہ مقاومت کو غیر مسلح کرنے سے ایسے دلسوز سانحات انجام پائیں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا صابرا و شتیلا کے مرتکب کرداروں کو سزاء ملی؟۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ استقامتی محاذ کے ہتھیار مسئلہ نہیں، بلکہ ان ہاتھوں کو غیر مسلح ہونا چاہئے جو نسل کشی کرتے ہیں۔ انہوں نے دوحہ اجلاس ایک اچھی کوشش تھی لیکن اس کا نتیجہ بھی صفر رہا۔اس اجلاس کا کمزور نتیجہ اسرائیل کو قطر اور دیگر ممالک پر حملے کی ہمت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قطر کی بین الاقوامی حیثیت، اسرائیل کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، چاہے وہاں امریکی فوجی اڈے ہی کیوں نہ موجود ہوں۔ سید الحوثی نے سوال اٹھایا کہ یورپی ممالک اپنے اجلاسوں میں یوکرین کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں، تو اسلامی ممالک فلسطین کے لئے ایسا کیوں نہیں کرتے؟۔ انہوں نے کہا کہ بعض عرب ممالک اسرائیل کے لئے اپنی فضائی حدود بند کر سکتے ہیں۔ عرب ممالک کے لئے یہ امکان بھی موجود ہے کہ وہ اپنے سربراہی اجلاسوں میں حماس، جہاد اسلامی اور القسام بریگیڈ جیسی فلسطینی مقاومتی تنظیموں کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال سکتے ہیں۔
انصار الله کے سربراہ نے کہا کہ کئی عرب حکومتوں نے اپنے ملک میں فلسطینی عوام کے حق میں مظاہروں کو ممنوع اور جُرم قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ بحیرہ احمر اور باب المندب میں اسرائیلی جہازوں کی آمد و رفت پر پابندی جاری ہے اور اس ہفتے 24 میزائل و ڈرون حملے اسرائیلی علاقوں پر کئے گئے۔ آخر میں انہوں نے سعودی عرب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک وہ اسرائیل کی مالی، سیاسی اور انٹیلیجنس مدد کرتا رہے گا، اسرائیلی حملوں سے محفوظ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بحیرہ احمر میں سعودی عرب کا برطانیہ کے ساتھ تعاون صرف اور صرف اسرائیل کی خدمت ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کو مشورہ دیا کہ وہ اسرائیلی بحری جہازوں کی حمایت نہ کرے اور خود کو اسرائیل کے جال میں نہ پھنسائے۔