قومی سطح پر حزب اللہ لبنان کی حمایت
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایک طرف امریکی حکام لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ضاحیہ، بعلبک، صور اور لبنان کے دیگر علاقوں میں عوام وسیع پیمانے پر حزب اللہ لبنان کی حمایت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل لبنان میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہوا ہے جس میں بڑے ٹرن آوٹ کے ساتھ ساتھ حزب اللہ لبنان کو بھی بھاری عوامی مینڈیٹ حاصل ہوا ہے۔ حزب اللہ لبنان اور امل تنظیم کے اتحاد کی گذشتہ طویل عرصے سے مختلف انتخابات میں مسلسل کامیابیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ لبنانی عوام ہر قسم کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی حالات میں اسلامی مزاحمت کی حمایت پر مصر ہیں۔ تحریر: سید رضا حسینی
"ہم جانتے ہیں کہ جنگ میں قربانی دینی پڑتی ہے لیکن ہم اپنے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہیں"۔ یہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کی تازہ ترین تقریر کا ایک جملہ ہے جو ایسے وقت بیان کیا گیا ہے جب امریکہ نے لبنانی حکومت پر حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے بھرپور دباو ڈال رکھا ہے۔ شیخ نعیم قاسم نے اس جملے کے ذریعے ایک بار پھر امریکی صیہونی جرائم کے خلاف مسلح جدوجہد میں استقامت ظاہر کرنے کے عزم راسخ کا اظہار کیا ہے۔ درحقیقت غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے لبنان پر بھرپور فوجی جارحیت کا مرحلہ ناکامی کا شکار ہو کر ختم ہو جانے کے بعد امریکہ نے انہی اہداف کو سفارتی طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کا آغاز کر دیا تھا۔ امریکہ نے لبنان میں برسراقتدار آنے والی نئی حکومت کو بھی اسی روڈ میپ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہدایت کی ہے۔
سرمایہ کاری کے شعبے میں ٹرمپ کے خصوصی نمائندے تھامس براک نے بیروت کو قرضے اور مالی امداد فراہم کرنے کی یہ شرط لگائی تھی کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ شروع کیا جائے۔ لہذا جوزف عون کی سربراہی میں جدید لبنانی حکومت ایک مشکل دو راہے پر آن کھڑی ہوئی ہے اور حزب اللہ لبنان کے خلاف اس کے اقدامات نے لبنانی عوام میں غصے کی لہر پیدا کر دی ہے۔ حال ہی میں بیروت کے جنوبی علاقوں المشرینہ اور الکفاءات میں حزب اللہ لبنان کے حق میں عظیم عوامی اجتماعات منعقد ہوئے اور یوں لبنانی عوام نے اسلامی مزاحمت سے تجدید عہد کیا ہے۔ ملکی آئین پر فرقہ واریت کا رنگ غالب ہونے کے باعث لبنان کا سیاسی ڈھانچہ شدید اداری کمزوریوں کا شکار ہے جس کی وجہ سے لبنانی حکومت فوری طور پر کوئی بھی بڑا فیصلہ اختیار کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا ایک نتیجہ سیکورٹی کمزوری بھی ہے جس کے باعث عوام زیادہ تر بیرونی طاقتوں پر انحصار کرتے ہیں۔
فرقہ واریت کے اس ماحول میں جس نے لبنان کے وجود کو خطرے میں ڈال رکھا ہے، حزب اللہ لبنان نے اپنے بیانیے کا مرکز و محور قومیت اور دین مبین اسلام کو بنایا ہے۔ اس نقطہ نظر کی روشنی میں حزب اللہ لبنان وہ واحد تنظیم ہے جو بھرپور قومی حمایت سے برخوردار ہے۔ یقیناً اس عوامی حمایت کے نتیجے میں حاصل ہونے والا اقتدار اور اثرورسوخ دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ مختلف قسم کے ہتھکنڈوں اور سازشوں سے حزب اللہ کو کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ لبنان کی نئی حکومت اس وعدے سے برسراقتدار آئی تھی کہ وہ اسرائیل کی فوجی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہ کاریوں کی تعمیر نو کرے گی۔ اس مقصد کے لیے لبنانی حکومت کا انحصار بیرونی سرمایہ کاری پر تھا لیکن وائٹ ہاوس نے سرمایہ کاری کے لیے ایک شرط عائد کر دی اور وہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا ہے۔ اس وقت لبنانی حکومت کے اہداف میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ایک طرف امریکی حکام لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ضاحیہ، بعلبک، صور اور لبنان کے دیگر علاقوں میں عوام وسیع پیمانے پر حزب اللہ لبنان کی حمایت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل لبنان میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہوا ہے جس میں بڑے ٹرن آوٹ کے ساتھ ساتھ حزب اللہ لبنان کو بھی بھاری عوامی مینڈیٹ حاصل ہوا ہے۔ حزب اللہ لبنان اور امل تنظیم کے اتحاد کی گذشتہ طویل عرصے سے مختلف انتخابات میں مسلسل کامیابیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ لبنانی عوام ہر قسم کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی حالات میں اسلامی مزاحمت کی حمایت پر مصر ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کے خلاف حزب اللہ لبنان کی مزاحمت کا تسلسل صیہونی کابینہ کی آنکھ میں کانٹا بن چکا ہے کیونکہ لبنان میں ان کے پست اہداف کی راہ میں حزب اللہ ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے لبنانی حکومت پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباو بڑھ جانے کے بعد بیروت میں اس بیرونی فتنے کے خلاف بڑا عوامی اجتماع منعقد ہوا جس میں شریک افراد نے حزب اللہ لبنان کے حق میں نعرے لگائے۔ اسی طرح انہوں نے "لبیک یا نصراللہ" کا نعرہ لگاتے ہوئے حزب اللہ کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت اور لبنانی حکومت پر اپنے مطالبات منوانے کے لیے دباو ڈالنے کی بھی مذمت کی۔ اس بارے میں اخبار رای الیوم نے لکھا: "یوں دکھائی دیتا ہے کہ حزب اللہ لبنان نے اسلحہ زمین پر نہ رکھنے اور اپنے شہید سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کا راستہ اور مشن جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔" حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاس نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس کے شہید کمانڈر جنرل محمد سعید ایزدی یا "حاج رمضان" کے چہلم کے موقع پر تقریر کی۔
شیخ نعیم قاسم نے اس تقریر میں کہا: "اسلامی مزاحمت کی جانب سے اسلحہ زمین پر رکھ دینے سے ہر گز اس بات کی ضمانت فراہم نہیں ہو گی کہ دشمن دوبارہ لبنان پر فوجی جارحیت نہیں کرے گا اور خود صیہونی حکمران بھی اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ حزب اللہ نے جنگ بندی معاہدے کی پوری پابندی کی ہے اور اب تک اس کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔" انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "وزیراعظم ہمیشہ مقبوضہ سرزمین آزاد کروانے کا عہد کرتے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی اقدام انجام نہیں دیتے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی مزاحمت اور عوام کو غیر مسلح کرنے کی بجائے اس طاقت کو اپنے دفاع کے لیے استعمال کرے۔" شیخ نعیم قاسم نے زور دیتے ہوئے کہا: "ہم کوئی نیا معاہدہ قبول نہیں کریں گے اور امریکہ اور اسرائیل کے دباو پر کوئی ڈیڈ لائن نہیں مانیں گے۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں اسلامی مزاحمت کی حزب اللہ لبنان کی حزب اللہ لبنان کے حزب اللہ لبنان کو پر حزب اللہ لبنان لبنانی حکومت لبنانی عوام کی جانب سے حکومت پر کی حمایت کے ساتھ کرنے کی رہے ہیں کے خلاف کرنے کے کے لیے ہوا ہے
پڑھیں:
برطانیہ و دیگر ممالک کا فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں، طاہر اشرفی
صوبائی دارالحکومت سے جاری اپنے ایک بیان میں سربراہ پاکستان علماء کونسل کا کہنا تھا کہ اُمید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ مزید ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے، یہ فلسطینیوں کے خون اور جدوجہد کا ثمر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سربراہ پاکستان علماء کونسل حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت سے جاری اپنے ایک بیان میں حافظ طاہر محمود اشرفی کا کہنا تھا کہ اُمید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ مزید ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے، یہ فلسطینیوں کے خون اور جدوجہد کا ثمر ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اِس کیلئے جدوجہد کی، ان شاء اللہ 22 ستمبر کو وزیر اعظم پاکستان اور وزیر خارجہ فلسطین کے حوالے سے پوری پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کی ترجمانی کریں گے۔
سربراہ پاکستان علماء کونسل کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جدوجہد پر سعودی عرب کے وزیر خارجہ امیر فیصل بن فرحان، پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور سعودی عرب کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ حافظ طاہر محمود اشرفی کا مزید کہنا تھا کہ اُمید رکھتے ہیں کہ ان شاء اللہ اب فلسطینیوں کو ان کا حق ملے گا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھی اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں تا کہ یہ بربریت اور وحشت کا سلسلہ بند ہو۔