فائل فوٹو 

شاہ لطیف ٹاؤن سے لاپتا شہری کے کیس میں جسٹس ظفر احمد راجپوت نے پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام کا مال پولیس کےلیے مال غنیمت نہیں ہے۔

سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس ظفر احمد راجپوت نے پولیس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ جیو فینسنگ یہ کب سے بتانے لگی کہ کون سی موٹر سائیکل ڈکیتی میں استعمال ہوئی ہے؟ 

کیس میں پولیس نے لاپتہ مصور حسین کے گھر سے موٹر سائیکل اٹھانے کا یہ جواز پیش کیا تھا کہ جیو فینسنگ سے پتہ چلا تھا کہ موٹر سائیکل ڈکیتی میں استعمال ہوئی ہے۔

جسٹس ظفر احمد راجپوت نے کہا گھر کے باہر کھڑی گاڑی لاوارث نہیں ہوتی۔ پولیس کا بس چلے تو گھروں کا سارا سامان حتیٰ کہ مال مویشی بھی اٹھا لے جائے۔ پولیس عوام کے مال کو غنیمت کا مال نہ سمجھے، تفتیش کی آڑ میں لوٹ مار کی تو عدالت سخت احکامات جاری کرے گی۔

.

ذریعہ: Jang News

پڑھیں:

مبینہ جعلی ڈگری کیس ،جسٹس طارق نے اسلام ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کر دیا

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 ستمبر ۔2025 )جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اسلام ہائیکورٹ کا مبینہ جعلی ڈگری کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے جج نے درخواست میں موقف اپنایا کہ بیٹھے ہوئے جج کو فرائض کی انجام دہی سے نہیں روکا جا سکتا، متنازع حکم نے درخواست گزار کے آرٹیکل 10-اے کے حقوق کی خلاف ورزی کی، عدلیہ کی آزادی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں.

(جاری ہے)

درخواست گزار کے مطابق متنازع حکم نے جج کی بے داغ شہرت کو متاثر کیا، عدالتی خدمات کے ضائع ہونے والے وقت کی تلافی ممکن نہیں، اگر حکم معطل نہ ہوا تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا جسٹس طارق جہانگیری نے استدعا کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے متنازع حکم نامہ کو معطل کیا جائے جسٹس طارق محمود جہانگیری کا سپریم کورٹ میں اپنا کیس خود لڑنے کا امکان ہے.

جسٹس طارق محمود جہانگیری کی اپیل کو ڈائری نمبر الاٹمنٹ کر دیا گیا، اپیل کو 23409 کا ڈائری نمبر الاٹ کیا گیا دریں اثناءسپریم کورٹ میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اقدامات چیلنج کرنے والے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ حصول انصاف سے متعلق سوال پر کمنٹ نہیں کروں گا، کیمرے کے سامنے ذاتی رائے نہیں ہوتی. سپریم کورٹ سے روانگی کے وقت صحافی نے سوال کیا کہ آپ کو امید ہے سپریم کورٹ سے کوئی سپورٹ ملے گی؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہمارا ہمیشہ عدل و انصاف کے ساتھ قانون پر یقین رہا ہے عدالت عالیہ کے جج سے سوال کیا گیا کہ بطور درخواست گزار کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ جسٹس محسن نے جواب دیا کہ بالکل ایسے جیسے عام پاکستانی محسوس کرتے ہیں.

صحافی نے سوال کیا کہ اس عمل سے عام شہری کو ایسا نہیں لگے گا کہ ججز بھی اس طرح انصاف کے لیے جا رہے ہیں؟جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس پر میں کوئی کمنٹ نہیں کروں گا، جس پر صحافی نے کہا کہ جج صاحب ذٓاتی رائے ہی دے دیں جسٹس محسن نے کہا کہ کیمرے کے سامنے ذاتی رائے نہیں ہوتی. ایک سوال کے جواب میں جسٹس محسن نے واضح کیا کہ کیسز کی سماعت مکمل کر کے پھر یہاں آئے ہیں کسی وکلا تنظیم کے ہیڈ ہونے سے متعلق سوال پر جسٹس محسن نے کہا کہ پھر میں وکالت کر رہا ہوتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اب وکالت کا معیار کیسا ہے صحافی نے سوال کیا کہ چیف جسٹس ڈوگر کے بنائے گئے بینچز کے ججز کے ساتھ آپ بیٹھ رہے ہیں یا نہیں؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے جواب دیا کہ نہیں وہ ہمارے ساتھ نہیں بیٹھ رہے ہیں.

یادرہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے مختلف اقدامات اور اختیارات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انفرادی طور پر اپیلیں دائر کی ہیں معززججوں کی جانب سے دائر آئینی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جج کو کام سے روکنے کی درخواست ہائیکورٹ میں قابل سماعت نہیں، کسی جج کو صرف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ہی کام سے روکا جا سکتا ہے.

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پانچوں ججز نے یہ آئینی درخواست آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کی ہے، موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 202 کے تحت بنے رولز کے مطابق ہی چیف جسٹس بینچ تشکیل دے سکتے ہیں، جبکہ ماسٹر آف روسٹر کا نظریہ سپریم کورٹ پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی ہے. درخواست میں کہا گیا ہے کہ انتظامی کمیٹیوں کے 3 فروری اور 15 جولائی کے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیے جائیں، ان کمیٹیوں کے اقدامات بھی کالعدم قرار دئیے جائیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے حالیہ رولز غیر قانونی قرار دیےءجائیں درخواست میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ ہائیکورٹ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپنے آپ کو رِٹ جاری نہیں کر سکتی .

پانچ ججوں نے اپنے خلاف فیصلے کے خلاف انفرادی طور پر اپیلیں بھی سپریم کورٹ میں دائر کیں، جسٹس طارق محمود جہانگیری سائلین کے گیٹ سے کارڈ لے کر سپریم کورٹ پہنچے، ان کے ساتھ جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت، جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس محسن اختر کیانی بھی عدالت عظمی میں موجود رہے، ججز نے اپیلیں دائر کرنے کے لئے بائیو میٹرک بھی کرایا اس موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ رولز کے مطابق ایک ہی درخواست میں تمام ججز فریق نہیں بن سکتے، اسی لیے الگ الگ اپیلیں دائر کی گئی ہیں، پانچوں ججز اپیلیں دائر کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے روانہ ہوگئے. 

متعلقہ مضامین

  • لاہور، تیز رفتار ٹرک نے موٹرسائیکل سواروں کو کچل دیا، دو افراد جاں بحق
  • کراچی میں سڑکوں کی خستہ حالی موٹر سائیکلوں سواروں کے لیے عذاب بن گئی
  • لاہور، ڈیفنس میں تیز رفتار کار کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار دو نوجوان جاں بحق
  • رحیم یارخان:عوام کی مدد کیلئے 10مقامات پر ’’پینک بٹن‘‘نصب
  • آٹے کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی نااہلی کا ثبوت ہے، ریحان راجپوت
  • کراچی: نیشنل ہائی وے ملیر کورٹ کے قریب ٹرک نے موٹر سائیکل سوار 2 نوجوان کو روند ڈالا
  • مبینہ جعلی ڈگری کیس ،جسٹس طارق نے اسلام ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کر دیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز انصاف کے لئے سپریم کورٹ پہنچ گئے
  • سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) رحمت حسین جعفری کی زیر صدارت اجلاس، بروقت انصاف کی فراہمی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی عدم دستیابی، اہم مقدمات کی سماعت لٹک گئی