یوٹیوب کا نیا اے آئی ایج ایسٹیمیشن ماڈل لانچنگ کے قریب، کم عمر صارفین پر سخت پابندیاں
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب نے اعلان کیا ہے کہ وہ 13 اگست سے مصنوعی ذہانت (AI) اور مشین لرننگ (ML) پر مبنی نیا ایج ایسٹیمیشن ماڈل متعارف کرائے گا، جس کا مقصد کم عمر صارفین کو محفوظ بنانا اور ان اکاؤنٹس کی نشاندہی کرنا ہے جن میں غلط عمر درج کی گئی ہو۔
یہ بھی پڑھیں: یوٹیوب شارٹس سے پاکستان میں بھی پیسے کمانے کا آغاز
یہ ماڈل جدید ٹیکنالوجی سگنلز اور الگورتھمز کی مدد سے صارف کی حقیقی عمر کا تعین کرے گا۔ کمپنی کے مطابق یہ فیچر درج ذیل ذرائع سے ڈیٹا لے کر کام کرے گا:
سرچ ہسٹری: صارف یوٹیوب پر کن موضوعات کی تلاش کرتا ہے۔
ویڈیوز کے زمرے: کس قسم کی ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں۔
اکاؤنٹ کی مدت: اکاؤنٹ کب سے فعال ہے اور اس پر کس نوعیت کی سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔
ممکنہ اقداماتاگر ماڈل کسی اکاؤنٹ کو 18 سال سے کم عمر قرار دے تو یوٹیوب فوری طور پر ذاتی نوعیت کے اشتہارات بند کرے گا، ویڈیو ریکمنڈیشنز میں اضافی حفاظتی فلٹر شامل کرے گا اور مخصوص اقسام کے مواد کو بار بار دیکھنے کی حد مقرر کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: گزشتہ 5 ماہ میں 62 ہزار سے زائد یوٹیوب چینلز اور لنکس کو بلاک کیا، پی ٹی اے
مزید یہ کہ ڈیجیٹل ویل بینگ ٹولز کو فعال کرے گا تاکہ نوجوان صارفین کا اسکرین ٹائم کم کیا جاسکے۔
غلطی سے کم عمر قرار پانے کی صورتاگر کسی بالغ صارف کا اکاؤنٹ غلطی سے کم عمر قرار دیا گیا تو وہ اپنی عمر کی تصدیق سرکاری شناختی کارڈ، کریڈٹ کارڈ یا سیلفی کے ذریعے کرسکے گا۔
یاد رہے کہ یوٹیوب کا یہ فیچر ابتدائی طور پر صرف امریکا میں لانچ کیا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا ایج ایسٹیمیشن ماڈل کم عمر صارفین یو ٹیوب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایج ایسٹیمیشن ماڈل کم عمر صارفین یو ٹیوب کرے گا
پڑھیں:
اسرائیلی جنگی جرائم: یو ٹیوب نے سیکڑوں ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گوگل، مائیکروسافٹ اور ایمیزون جیسے بڑی ٹیکنالوجی اداروں پر طویل عرصے سے اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں تعاون کے الزامات لگتے رہے ہیں، اور اب ایک اور بڑا پلیٹ فارم یوٹیوب بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق امریکا میں بائیں بازو کے نمائندہ سمجھے جانے والے میڈیا گروپ دی انٹرسیپٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ مطابق گوگل کی ملکیت والے اس پلیٹ فارم نے خاموشی سے فلسطینی انسانی حقوق کی 3 بڑی تنظیموں کے اکاؤنٹس حذف کر دیے، جس کے نتیجے میں اسرائیلی تشدد کو دستاویز کرنے والی 700 سے زائد ویڈیوز غائب ہو گئیں، یہ اقدام سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے بعد کیا گیا۔
یہ تین تنظیمیں الحق، المیزان سینٹر فار ہیومن رائٹس، اور فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو شواہد فراہم کر چکی تھیں، جس نے بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
اکتوبر کے آغاز میں آئی سی سی کے فیصلے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے دفاع میں شدت اختیار کرتے ہوئے عدالت کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کیں اور ان افراد کو نشانہ بنایا جو عدالت کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔
سینٹر فار کونسٹی ٹیوشنل رائٹس کی وکیل کیتھرین گیلاگر نے دی انٹرسیپٹ کو ایک بیان میں بتایا کہ یوٹیوب کا ٹرمپ انتظامیہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے شواہد عوامی نظروں سے ہٹانا افسوسناک ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان حذف شدہ ویڈیوز میں امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی تحقیقات، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تشدد کا شکار فلسطینیوں کی گواہیاں، اور دی بیچ جیسی دستاویزی فلمیں شامل تھیں، جو اسرائیلی فضائی حملے میں ساحل پر کھیلتے ہوئے بچوں کی شہادت کی کہانی بیان کرتی تھیں۔
الحق کے ترجمان نے بتایا کہ ان کا یوٹیوب چینل 3 اکتوبر کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے حذف کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ یوٹیوب کا انسانی حقوق کی تنظیم کا پلیٹ فارم ختم کرنا اصولی ناکامی اور اظہارِ رائے و انسانی حقوق کے لیے خطرناک رجحان ہے۔
فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے قانونی مشیر باسل السورانی نے کہا کہ یوٹیوب اس اقدام سے فلسطینی متاثرین کی آواز دبانے میں شریک جرم بن گیا ہے۔
یوٹیوب کے ترجمان بوٹ بولوِنکل نے تصدیق کی کہ ویڈیوز یہ کہتے ہوئے حذف کر دی گئی ہیں کہ گوگل متعلقہ پابندیوں اور تجارتی قوانین پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ اقدام صرف تنظیموں کی سرکاری اکاؤنٹس تک محدود تھا، اگرچہ کچھ حذف شدہ ویڈیوز فیس بک، ویمیو اور وے بیک مشین جیسے پلیٹ فارمز پر جزوی طور پر دستیاب ہیں، لیکن مکمل ریکارڈ موجود نہیں رہا،جس سے شواہد کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ کے لیے انٹرنیٹ سے غائب ہو گیا۔