سٹی42:  پنجاب میں بلدیاتی نظام میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو بیوروکریسی کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ اس نئے نظام کے تحت لارڈ میئر اور ضلع کونسل جیسے اعلیٰ اداروں کو ختم کر دیا گیا ہے تاکہ بیوروکریسی کو فیصلہ سازی میں بالادست رکھا جا سکے۔

ذرائع کے مطابق بلدیاتی اداروں کے بجٹ اور ہیومن ریسورس (ایچ آر) کے معاملات اب محکمہ بلدیات اور ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کے زیر انتظام ہوں گے۔بلدیاتی ادارے اپنا بجٹ براہ راست محکمہ بلدیات یا متعلقہ ڈی سی سے حاصل کریں گے۔

10 مرلہ میں 2 پودے ،1کنال میں 4 پودے لگانے کی پابندی

تمام تبادلے (ٹرانسفر پوسٹنگ) اب محکمہ بلدیات کی منظوری سے ہوں گے۔بلدیاتی اداروں کو جونیئر گریڈ تک محدود کر دیا گیا ہے، جبکہ بلدیہ عظمیٰ لاہور اور ضلع کونسل جیسے سینئر ادارے ختم کر دیے گئے ہیں۔
نئے نظام کے مطابق بلدیاتی نمائندے اب ڈی سی یا ڈی پی او کو اپنے دفتر میں طلب نہیں کر سکیں گے۔
اس تبدیلی کے بعد بلدیاتی اداروں کی انتظامی خودمختاری میں واضح کمی آ گئی ہے جبکہ عوامی نمائندوں کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں۔

د بھارت کی امریکہ سے ہتھیاروں کی خریداری روکنے کی میڈیا رپورٹ کی تردید

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: سٹی42 بلدیاتی اداروں

پڑھیں:

تعصب کی عینک اتار کر دیکھو

منشیات کی خوفناک لعنت نے لمحہ موجود میں پوری دنیا خصوصاً پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ خصوصاً نسلِ نو اپنے درخشندہ و تاباں مستقبل سے بے پروا اس لعنت کے زہر کو اپنی رگوں میں اتارنے کے بعد ناسور بن کر اپنے ماں باپ اور اہل خاندان کی زندگیوں کے ساتھ پورے معاشرے کو جہنم بنا رہے ہیں۔ نشے کی لعنت شہروں، دیہاتوں، گلی محلوں سے نکل کر ہمارے تعلیمی اداروں تک پہنچ چکی ہے اور بڑی تعداد میں مستقبل کے معمار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے حصار میں جکڑ چکی ہے۔

دوستوں میں کوئی ایک نشئی ہو تو باقی دوستوں کے بھی عادی ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ ابتداء میں پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے منشیات فروشی اور استعمال کی خبریں آتی تھیں لیکن اب یہ تمیز ختم ہوچکی ہے۔ تعلیمی اداروں کا تعلق پبلک سیکٹر سے ہو یا پرائیویٹ سیکٹر سے، کوئی ادارہ اس لعنت سے محفوظ نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وفاقی وزیر داخلہ و انسداد منشیات محسن نقوی نے قومی اسمبلی میں اس حوالے سے جو ہولناک انکشاف کیا ہے۔

اس نے ہر ذی شعور پاکستانی کو مضطرب اور اہل وطن کے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ وفا قی وزیرداخلہ و انسدادِ منشیات محسن نقوی نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا ہے کہ "پاکستانی تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال سے متعلق حکومت لاعلم ہے، اس حوالے سے آخری سروے 12سال پہلے ہوا تھا۔" محسن نقوی نے قومی اسمبلی میں تحریری جواب جمع کرواتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ " تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال سے متعلق حکومت کے پاس مستند ڈیٹا موجود نہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات کی فراہمی اور استعمال کے متعلق تازہ معلومات محدود ہیں اور ملک میں منشیات کے استعمال سے متعلق کوئی جامع اور مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔

ملک میں منشیات سے متعلق آخری قومی سروے 2013میں کیا گیا تھا، تاہم اس سروے میں تعلیمی اداروں کو شامل ہی نہیں کیا گیا تھا"۔ اس انکشاف کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر ایک نیا قومی سروے شروع کیا گیا ہے جو ملک میں منشیات کے استعمال کا مکمل جائزہ لے گا جو 2026 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔ سروے میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اندر منشیات کے رجحان کا جائزہ بھی شامل ہے اور یہ سروے تعلیمی اداروں میں منشیات سے متعلق جامع اور مستند معلومات فراہم کرے گا، جس سے منشیات کی معلومات کو درست انداز میں ترتیب دے کر اس کا سدباب کرنے میں مدد ملے گی۔

قومی اسمبلی میں محسن نقوی نے ایک اور خوفناک انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ "انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے پاکستان بھر کی 263 یونیورسٹیوں میں 269 آپریشنز کیے، جن کے دوران ایک ہزار چارسوستائیس(1427) کلوگرام منشیات ضبط اور 426 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ حکومت تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے، تاہم مؤثر پالیسی سازی کے لیے مستند ڈیٹا ناگزیر ہے۔"

وزیر داخلہ کے یہ انکشافات ان والدین کے لیے جن کے بچے عصری تعلیم کے اداروں (اسکول کالج اور یونیورسٹی) میں زیرتعلیم ہیں آسمانی بجلی اور کسی ایٹم بم گرنے سے کم نہیں کیونکہ جن اداروں میں منشیات کا دھندا اس لیول پر ہو وہاں تو زیر تعلیم ہر طالبعلم کے سر پر منشیات کی لعنت کی تلوار لٹک رہی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اب ہمارے تعلیمی ادارے اسکالرز اور پروفیسرز کے سحر اور اثر کے بجائے منشیات فروشوں کے نرغے میں ہیں، جو والدین سمجھ رہے ہیں کہ ان کے  بچے اعلیٰ تعلیم کی ان درسگاہوں سے گریجویٹ، ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالر بن کر نکلیں گے اب مضطرب ہیں کہ کہیں ان کے جگر گوشوں سے متعلق ان کے خواب چکنا چور نہ ہوجائیں۔ خدا نخواستہ منشیات کی لت لگ گئی تو نہ صرف ان کے لخت جگر بلکہ پورا خاندان تباہ وبرباد اور پورے معاشرے کے لیے ناسور بن جائے گا اور یہ لعنت ان کی زندگیوں کو تاریک و اندھیر اور ان کی جوانیوں کو کھوکھلا کر دے گا۔

تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اور منشیات کے استعمال کے واقعات کئی سال سے وقفے وقفے سے منظر عام پر آرہے ہیں۔ مبینہ طور پر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بعض ملازمین (عورتیں اور مرد) طالب علموں میں منشیات سپلائی کرتے ہیں یا ان اداروں سے ملحقہ بعض علاقوں میں منشیات کے عادی طلباء اور طالبات کو آسانی سے نشہ آور اشیاء دستیاب ہیں۔ یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر طالب علموں میں سگریٹ نوشی تو عرصہ دراز سے ہوتی تھی مگر اب چرس، ہیروئین اور آئس جیسے نشہ اور اشیاء کے استعمال میں ہوشربا اضافہ تشویشناک اورقومی المیہ ہے۔

ہاسٹلوں میں منشیات کی سپلائی ایک منافع بخش اور مقبول کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ صرف ملازمین ہی اس مکروہ دھندے میں ملوث نہیں، بعض تعلیمی اداروں میں طلباء اور طالبات کے گروہ بھی اپنے عیش و عشرت کے لیے منشیات فروشی کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اور طالب علموں میں منشیات کا کھلم کھلا استعمال نہایت افسوس ناک حقیقت ہے۔

ہیروئن، چرس، شیشہ، کوکین، شراب اور کرسٹل پاؤڈر (آئس) سمیت ہر قسم کا نشہ عام ہے۔ جب تعلیمی اداروں میں حصول علم کے لیے جانے والے طلباء اور طالبات نشے میں دھت دندناتے پھریں گے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی طلباء و طالبات کا سلسلہ درس و تدریس کس قسم کے ماحول میں فروغ پا رہا ہے۔ قانونی اور آئینی طور پر تو انسداد منشیات کے ذمے داران کا فرض ہے کہ وہ ہر خاص و عام کو اس لعنت سے دور رکھیں اور منشیات فروشوں کو نشان عبرت بنائیں مگر تعلیمی اداروں میں تو منشیات فروش ہمارے مستقبل اور معماران ملک و ملت پر حملہ آور ہیں اس کے لیے تو ہنگامی بنیادوں پر خصوصی اور بے رحم فورس کا قیام عمل میں لانا چاہیے جو سختی سے کام لیتے ہوئے طلباء و طالبات کو منشیات کے استعمال سے روکیں، منشیات کے عادی افراد کا علاج کروائیں اور منشیات فروشوں کو تعلیمی اداروں کے اندر برسر عام عبرتناک سزائیں دیں۔

تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کا بھی فرض ہے کہ وہ خصوصی مہم چلا کر منشیات سے پاک ماحول کو یقینی بنائیں۔ بعض تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کے نمایندوں اور اساتذہ کی بھی پروا نہیں کی جاتی جب کہ ہاسٹلوں میں باقاعدگی سے منشیات کے استعمال کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ نشے کے عادی افراد شرم و حیا سے عاری ہوجاتے ہیں تو پھر ہاسٹل وارڈن اور اساتذہ سے حجاب بھی ختم ہوجاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ انفرادی سطح کے علاوہ سرکاری اداروں کے تعاون سے مشترکہ طور پر یہ مسئلہ حل اور سائنٹیفک بنیادوں پر منصوبہ بندی کر کے نوجوان طالب علموں کو منشیات کی لعنت سے بچاؤ کا قومی فریضہ انجام دیں۔

حکومت اگر تعلیمی اداروں سے منشیات کا خاتمہ کرنے میں سنجیدہ ہے تو ہمارے معاشرے میں منشیات سمیت ہر جرم سے پاک دینی مدارس کا ماڈل موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جائے۔ کراچی سے خیبر تک ہزاروں دینی مدارس موجود ہیں جن میں لاکھوں طلباء زیر تعلیم ہیں، ان مدارس پر کالج اور یونیورسٹیوں کی طرح حکومت کے اربوں، کھربوں روپے بھی خرچ نہیں ہوتے،گزشتہ 78 برسوں سے یہ مدارس اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں، یہاں سے فارغ التحصیل علماء پوری دنیا میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور افعانستان میں مثالی حکومت چلا رہے ہیں، اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور قرآن و حدیث کی برکت سے آج تک کسی ایک مدرسے سے منشیات فروشی یا منشیات کے استعمال کی خبر نہیں آئی۔

اگرحکومت عصری تعلیم کے اداروں سے اس لعنت کوختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو ایک بار مدارس کے نظام کا جائزہ تعصب کی عینک اتار کر لیں اور مدارس کی طرح کردار سازی پر توجہ دینے والا پاکیزہ و معطر نظام تعلیم اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لے آئیں، منشیات ہی نہیں ایسی تمام لعنتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ مل جائے گا، لیکن اس کے لیے شرط یہی ہے کہ تعصب کی عینک اتار کر درد دل سے صورتحال کا جائزہ لے کر اقدامات کرنے ہونگے ورنہ عصری علوم کے ادارے منشیات فروشی کے اڈے بن جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • کل عام تعطیل کا اعلان
  • تعصب کی عینک اتار کر دیکھو
  • جرائم کے خاتمہ میں ٹیکنالوجی کا کردار اہمیت کا حامل ہے، احمد جاوید قاضی
  • ملک سے غربت کا خاتمہ بھی کر کے دکھائیں گے،شہباز شریف
  • معاشرتی برائیوں کا خاتمہ سیرت طیبہ پر عمل میں مضمر ہے‘ محمد یوسف
  • بلدیاتی نظام بنیادی مسائل کے حل کاذریعہ ہے،پروفیسرمحبوب
  • جس طرح دشمن کے 6جہاز گرائے اسی طرح ملک سے غربت کا خاتمہ بھی کر  کے دکھائیں گے، وزیراعظم
  • پنجاب میں کچرا ٹھکانے لگانے کا جدید منصوبہ، رنگدار کوڑے دان لازمی قرار
  •  بلدیاتی ادارے فعال نہ ہونے سے عوام کے مسائل بڑھ گئے : لیاقت بلوچ 
  • ایران کا اقوام متحدہ کے ایٹمی نگران ادارے سے تعاون معطل کرنے کا اعلان