یومِ پاکستان: وہ داستان جس کا ہر لفظ لہو میں ڈوبا ہے
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
یہ دھرتی جو آج ہمارے قدموں تلے ہے، یہ محض مٹی کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ شہیدوں کی آنکھوں کا خواب، ماؤں کے سینوں کا دودھ، اور ان بزرگوں کی کمر کا جھکاؤ ہے جو ہجرت کی اذیت سے دہری ہوگئی۔
یہ زمین صدیوں کی غلامی کے بعد جب ہمارے حصے میں آئی تو یہ کسی سنہرے تحفے کے کاغذ میں لپٹی نہیں تھی، بلکہ اس پر لہو کے دھبے اور ہجرت کی گرد جمی ہوئی تھی۔
1947 کا وہ موسم، گویا برصغیر کی تاریخ کا دل پھٹنے کا لمحہ تھا، جب فضا میں اذان کے ساتھ چیخوں کی بازگشت بھی گونجتی تھی، اور گلیوں کے سناٹے میں قدموں کی آہٹ نہیں بلکہ ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں سنائی دیتی تھیں۔
ہجرت کے قافلے جب نکلے تو یہ سفر کسی خوشگوار منزل کا نہیں بلکہ موت اور زندگی کے بیچ لٹکتے ایک پل صراط کا تھا۔ ریلوے کے ڈبے جنہیں کبھی قہقہوں اور گیتوں نے بھر دیا تھا، اس وقت لاشوں سے اٹے ہوئے ایسے نظر آتے جیسے زندگی نے خود اپنے دروازے بند کر دیے ہوں۔ پلیٹ فارم پر رونے والی مائیں وہ تھیں جن کی گودیں خالی ہوچکی تھیں، اور جن کے آنسوؤں نے زمین کو یوں بھگویا جیسے بادل برسنے سے پہلے اپنی آخری نمی گرا دیں۔
بوڑھے بزرگ اپنی عصا ٹیکتے ہوئے گاؤں چھوڑ گئے، گویا صدیوں پرانی جڑ والا برگد اپنی بنیاد سے اکھڑ کر ہوا میں بہہ رہا ہو۔ جوانوں نے اپنی جانیں اس مٹی کے نام لکھ دیں جیسے کسی نے اپنی محبوبہ کے ہاتھ پر اپنا نام خون سے کندہ کر دیا ہو۔ عورتیں اپنی عصمت بچانے کے لیے نہریں پار کر گئیں، اور کچھ نے عزت کے تحفظ میں اپنی جان قربان کر دی، جیسے کوئی چاند خود کو اندھی رات کے منہ میں ڈال دے کہ روشنی کا تقدس قائم رہے۔
وہ بچے جو سمجھتے تھے یہ کھیل کا سفر ہے، چند ہی لمحوں میں لاشوں کے بیچ یتیمی کی سخت زمین پر جا گرے۔ گاؤں کے در و دیوار، جو کبھی محبت اور ہمسائیگی کے قصے سناتے تھے، اب جل کر سیاہ ہو چکے تھے، اور ہر اینٹ چیخ رہی تھی کہ یہ آگ محض مکانوں کو نہیں بلکہ دلوں کو جلا گئی۔
آزادی کی ہر سانس کے پیچھے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحے میں بھی یہ سوچا کہ آنے والی نسلیں آزاد فضاؤں میں سانس لیں گی۔ وہ مائیں جنہوں نے اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کفن پہنایا، وہ باپ جنہوں نے اپنے لختِ جگر کی لاش کو کندھے پر اٹھایا، وہ بہنیں جن کے بھائی قافلوں میں گم ہو گئے.
یومِ پاکستان ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ یہ وطن کسی سیاسی معاہدے یا قلم کے دستخط کا صدقہ نہیں بلکہ قربانی کے ان چراغوں کا نتیجہ ہے جو اندھیروں میں جلائے گئے، اور جن کی لو آج بھی ہمارے پرچم کے سبز رنگ میں جھلملاتی ہے۔
یہ زمین اگر کبھی ہم سے سوال کرے کہ ہم نے اس کی حفاظت میں کیا کیا، تو ہمارا جواب قربانی، ایثار اور وفا کے انہی واقعات کی خوشبو سے لبریز ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ دھرتی ہماری نہیں، یہ اُن لوگوں کی امانت ہے جنہوں نے ہجرت کے رستوں پر اپنا لہو بو کر پاکستان کو ایک حقیقت بنایا۔
اے وطن! تو ان آنکھوں کی روشنی ہے جنہوں نے اندھیروں میں خواب دیکھے، تو ان دلوں کی دھڑکن ہے جنہوں نے آخری سانس تک تیرے نام کی تکبیر بلند کی۔ تیرا ہر ذرا ان قدموں کی گواہی دیتا ہے جو بھوکے پیاسے، زخمی اور نڈھال تیرے پاس آئے۔
آج اگر ہم تیری فضاؤں میں قہقہے بکھیرتے ہیں تو یہ انہی ماؤں کی دعا ہے جنہوں نے اپنی ممتا کے لال تیرے لیے قربان کر دیے۔ تیرے ہر سبز پتے میں ایک شہید کی آنکھ کا خواب ہے، ہر بہتا دریا اس لہو کا امین ہے جو تیرے رنگوں میں گھل گیا۔ اے پاکستان! تو محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، تو شہادت کی وہ تحریر ہے جو تاریخ نے اپنے ہاتھوں سے لکھی، اور جس پر ہر لفظ انسانی غیرت کے لہو میں ڈوبا ہوا ہے۔
اگر کبھی ہم تجھے بھول گئے تو یہ ہماری سانسوں کی سب سے بڑی بے وفائی ہوگی۔ تو ہم سے وفا کا حق مانگتا ہے اور ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ تیرے آسمان پر کبھی غیروں کا سایہ نہیں پڑنے دیں گے، کہ تو ہمارے بزرگوں کی آخری دعا کا قبول شدہ جواب ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے جنہوں نے نہیں بلکہ نے اپنی
پڑھیں:
جب سے محسن نقوی آئے ہیں کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوا جس سے ٹیم اپنی ایک جگہ کھڑی ہو سکے: محمد حفیظ
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان کے سابق آل راونڈر محمد حفیظ نے کہاہے کہ جب سے محسن نقوی چیئرمین پی سی بی بنے ہیں کوئی بھی ایسا فیصلہ سامنے نہیں آیا جس سے پاکستانی کرکٹ ایک جگہ پر کھڑی ہو سکے ۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے محمد حفیظ کا کہناتھا کہ ڈیرھ سال میں جب سے محسن نقوی بطور چیئرمین پی سی بی آئے ہیں ، کئی بھی ایسا فیصلہ سامنے نہیں آیا جس سے پاکستانی کرکٹ ایک جگہ پر کھڑی ہو سکے، اگر آپ کو کسی بھی حالات کرنے کی ہینڈل کرنے کیلئے ذمہ داری ملتی ہے اور آپ اپنی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں اور اگر نتائج سامنے نہیں آتے تو ذمہ دار آپ ہی لوگ ہیں، جو فیصلہ ساز ہیں لیکن پچھلے تین سالوں سے جو پاکستان کی کرکٹ ہے وہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے ، جب بھی ہم بڑی ٹیم کے ساتھ کھیلتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ مس میچ ہو رہاہے ، کوئی اپنی بی یا سی ٹیم بھیج دے تو ہم ان سے بھی ہار جاتے ہیں، اس پر تحقیقات بھی ہونی چاہیے اور درست منصوبہ سازی بھی ہونی چاہیے ۔
متحدہ عرب امارات نے 9 ممالک کے ورک اور وزٹ ویزوں پر پابندی عائد کر دی
مزید :