زرتاج گل کی 9 مئی کیسز میں سزاؤں کے خلاف اپیلیں11آگست کو سماعت کے لئے مقرر
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
ملک اشرف : سانحہ نو مئی میں سزا یافتہ تحریک انصاف کی رہنماء زرتاج گل کی 9 مئی کیسز میں سزاؤں کے خلاف اپیلیں بطور اعتراض کیس 11آگست کو سماعت کے لئے مقرر کردی گئیں.
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر زرتاج گل نے 9 مئی کے واقعات میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کر دی ہیں، جو رجسٹرار آفس کے اعتراض کے باعث بطور "اعتراض کیس" مقرر کر دی گئی ہیں۔ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ 11 اگست کو ان اپیلوں کی سماعت کرے گا۔ اپیلیں پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کی وساطت سے دائر کی گئی ہیں۔فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی 2023 کے پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں زرتاج گل کو تین الگ الگ مقدمات میں دس، دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔ تینوں فیصلوں کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں تین علیحدہ اپیلیں دائر کی گئی ہیں۔تاہم، ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے یہ اعتراض عائد کیا ہے کہ زرتاج گل نے اب تک خود کو عدالت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے نہیں کیا، جسے قانونی اصطلاح میں "سرنڈر" کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے فوجداری قوانین کے مطابق کسی بھی سزا یافتہ شخص کو اپیل دائر کرنے سے قبل عدالت کے سامنے پیش ہونا لازمی ہوتا ہے تاکہ وہ عدالتی دائرہ اختیار میں رہے۔قانونی ماہرین کے مطابق اگر کوئی شخص سرنڈر نہ کرے تو اس کی اپیل ابتدائی مرحلے پر ہی خارج ہونے کا خدشہ رہتا ہے، البتہ عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اعتراض ختم کر کے اپیل سماعت کے لیے منظور کر لے۔11 اگست کو ہونے والی سماعت میں سب سے پہلے یہ طے کیا جائے گا کہ آیا زرتاج گل کی اپیلیں قابلِ سماعت ہیں یا نہیں۔ اگر عدالت اعتراض ختم کر دے تو بعد ازاں سزاؤں کے خلاف تفصیلی سماعت شروع ہو گی، بصورت دیگر اپیلیں مسترد کی جا سکتی ہیں۔
10 مرلہ میں 2 پودے ،1کنال میں 4 پودے لگانے کی پابندی
Ansa Awais Content Writer.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: لاہور لاہور سزاؤں کے خلاف ہائی کورٹ زرتاج گل
پڑھیں:
سپریم کورٹ: 27ویں آئینی ترمیم پر دلچسپ ریمارکس، کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی
سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق سماعت کے دوران ججز اور وکیل فیصل صدیقی کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جو سول سروس رولز سے متعلق مقدمے کے ساتھ فکس تھا۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ کیا یہ کیس آج ختم ہو جائے گا، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرے خیال سے آج شاید کیس ختم نہ ہو پائے۔ انہوں نے بغیر نام لیے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میری درخواست ہے کہ کیس کا آج فیصلہ کیا جائے۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ گیس لیکج دھماکے میں زخمی نوجوان دم توڑ گیا
فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ وفاقی شرعی عدالت کی بلڈنگ میں کیس پر دلائل نہیں دینا چاہتے، بلڈنگ ہی لینی تھی تو ساتھ والی عمارت لے لیتے، جس پر بینچ کے ججز مسکرا دیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ہنستے ہوئے کہا کہ گزشتہ رات آپ کے حق میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر یہی ایمان ہے تو پھر فکر کی کیا بات ہے، جبکہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم آئین کے پابند ہیں۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ بار: نو منتخب اور رخصت ہونے والی کابینہ کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات
فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ ججز اس عدالت میں بہت گرینڈ لگتے ہیں، عمارت بدلنے سے اختیارات کم نہیں ہوں گے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
27ویں آئینی ترمیم جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل سپریم کورٹ وفاقی شرعی عدالت وکیل فیصل صدیقی