امریکا اور چین میں تجارتی جنگ 90 روز کے لیے مؤخر، بھاری ٹیرف کا خطرہ ٹل گیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
واشنگٹن:
دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی میں وقتی ریلیف سامنے آ گیا، امریکا اور چین نے درآمدی اشیاء پر اضافی محصولات کے نفاذ کو 90 دن کے لیے مؤخر کر دیا، جس کے نتیجے میں متوقع سینکڑوں فیصد ٹیرف کا نفاذ رک گیا ہے۔
یہ فیصلہ سال کے اختتام پر ہونے والے چھٹیوں کے سیزن سے قبل امریکی ریٹیل مارکیٹ کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اعلان کیا کہ انہوں نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت اضافی ٹیرف کے نفاذ کو 10 نومبر صبح 12:01 بجے تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس عبوری معاہدے کے تمام دیگر نکات بدستور برقرار رہیں گے۔
https://truthsocial.com/@realDonaldTrump/posts/115012849265805680
غیر ملکی میڈیا کے مطابق چینی وزارت تجارت نے بھی گزشتہ روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام غیر ٹیرف اقدامات کو معطل یا ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات جاری رکھے گی۔
ٹرمپ نے اتوار کے روز چین سے امریکی سویابین کی خریداری میں چار گنا اضافہ کا مطالبہ کیا تھا، تاہم جاری کردہ حکم نامے میں کسی نئی خریداری کا ذکر شامل نہیں تھا۔
ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی عدم توازن، اور اس سے جڑے قومی و معاشی سلامتی کے خدشات پر گفتگو جاری ہے۔
چین ان مذاکرات کے دوران غیر مساوی تجارتی معاہدوں کے ازالے اور امریکی تحفظات کو دور کرنے کے لیے اہم اقدامات کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا اور چین کے درمیان جاری ٹیرف ٹروُس آج صبح 12:01 بجے ختم ہونے والا تھا اور نئی توسیع کے بعد نومبر تک کی مہلت سے الیکٹرانکس، ملبوسات اور کھلونوں جیسی اہم درآمدی اشیاء کم ٹیرف پر درآمد کی جا سکیں گی، جو کرسمس سیزن کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
نئی پالیسی کے تحت امریکی ٹیرف 145 فیصد تک بڑھنے سے روک دیے گئے ہیں، جبکہ چینی ٹیرف 125 فیصد تک پہنچنے والے تھے، اگر یہ شرحیں لاگو ہو جاتیں تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات تقریباً معطل ہو سکتے تھے۔
فی الحال چینی مصنوعات پر امریکی ٹیرف 30 فیصد اور امریکی مصنوعات پر چینی ٹیرف 10 فیصد کی سطح پر برقرار رہیں گے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا اور چین کے درمیان کے لیے
پڑھیں:
بھارت: امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق میں غیرمعمولی اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت میں 2000 ء سے 2023 ء کے درمیان بالائی سطح کے ایک فیصد امیر ترین افراد کی دولت میں 62 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی عدم مساوات پر ایک نئی رپورٹ کے مطابق پچھلی دہائیوں میں بھارت میں امیروں اور غریبوں کے درمیان دولت کا فرق غیرمعمولی حد تک بڑھ گیا ہے۔ جی 20 ٹاسک فورس کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران بالائی سطح کے ایک فیصد افراد نے اپنی دولت کے حصے میں 62 فیصد اضافہ کیا۔ جنوبی افریقا کی جی20 صدارت میں بنائی گئی اس کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی کل آبادی کے امیر ترین ایک فیصد افراد نے 2000ء کے بعد سے بننے والی نئی دولت کا 41 فیصد حصہ حاصل کیا۔ ورلڈ ان ایکویلٹی لیب کے اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ میں دنیا کی نچلی 50 فیصد آبادی کی دولت میں صرف ایک فیصد اضافہ ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا دوسرے الفاظ میں، امیر ترین ایک فیصد نے نچلے 50 فیصد کی نسبت 2ہزار 655 گنا زیادہ دولت میں اضافہ کیا۔ ٹاسک فورس نے سفارش کی کہ عدم مساوات پر ایک نیا عالمی پینل تشکیل دیا جائے جو انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج کی طرز پر ہو۔ یہ پینل عدم مساوات کے اسباب اور اثرات کی نگرانی کرے گا اور حکومتوں و پالیسی سازوں کو رہنمائی فراہم کرے گا۔ رپورٹ کے مصنفین نے خبردار کیا کہ جن ممالک میں معاشی عدم مساوات زیادہ ہے، وہاں جمہوری نظام زوال پذیر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات جوزف اسٹگلٹز اور عالمی عدم مساوات پر آزاد ماہرین کی غیر معمولی کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ یہ صرف غیرمنصفانہ نہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی کمزور کرتا ہے۔ یہ ہماری معیشت اور سیاست دونوں کے لیے خطرہ ہے۔یہ کمیٹی جنوبی افریقاکے صدر سیرل رامافوسا کی درخواست پر تشکیل دی گئی تھی۔ رامافوسا نومبر 2025 ء تک جی20 گروپ کی صدارت سنبھالے ہوئے ہیں، جس کے بعد یہ ذمہ داری امریکا کو منتقل کی جائے گی۔ رپورٹ کے مصنفین نے مکمل طوفان کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا، یوکرین جنگ، اور تجارتی تنازعات جیسے عالمی بحرانوں نے غربت اور عدم مساوات کو مزید بڑھایا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا میں ہر 4میں سے ایک شخص کو اکثر کھانا چھوڑنا پڑتا ہے، جبکہ ارب پتیوں کی دولت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ 2020ء کے بعد سے عالمی سطح پر غربت میں کمی رک گئی ہے اور کچھ علاقوں میں اضافہ ہوا ہے۔مزید برآں 2.3 ارب افراد کو درمیانی یا شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے، جو کہ 2019 ء کے مقابلے میں 33.5 کروڑ زیادہ ہے۔