پاکستان میں تیل و گیس کی دریافت سے متعلق امریکی صدر کے بیان پر قومی اسمبلی میں بحث
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان میں تیل و گیس کی دریافت سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر قومی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس پر بحث ہوئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی نے توجہ دلاؤ نوٹس پر سوال اٹھایا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان میں وسیع تیل کے ذخائر کے حوالے بیان کی حقیقت کیا ہے؟۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ امریکی صدر ہمیں پاکستان میں ذخائر کا بتا رہے ہیں، حکومت پاکستان کیوں نہیں بتارہی ہے؟۔
وزیر مملکت پیٹرولیم علی پرویز ملک نے جواب دیا کہ پاکستان نے حال ہی میں کویت، ترکی سمیت متعدد تیل کمپنیوں کو تیل تلاش کرنے کی اجازت دی ہے۔ تیل کے ذخائر موجود ہیں مگر ابھی تیل کمپنیوں کی تلاش کا کام شروع کرلیں، اس کے بعد درست بتاسکیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سوئی گیس سے بڑے 3 گیس فیلڈ دریافت ہوئے ہیں ۔ حیدرآباد میں تیل و گیس کی تلاش کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔ چین اور امریکا کے پاس وہ ٹیکنالوجی ہے جو تیل و گیس کی موجودگی جلد بتادیتی ہے۔
ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے پوچھا کہ حکومت بتائے کہ ٹرمپ کہہ رہا ہے کہ ایک دن پاکستان بھارت کو تیل برآمد کرسکتا ہے۔ ہمارے وزیر کہہ رہے ہیں کہ ابھی پتا چلے گا کہ پاکستان کے پاس تیل و گیس کے کیا ذخائر ہیں۔ کیا امریکی صدر بھارت کو کچھ منوانے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے ایسے ٹوئٹ کررہے ہیں؟۔
پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے سوال اٹھایا کہ کیا امریکا کے علاوہ بھی کچھ دیگر ممالک کو تیل کی تلاش کے مواقع دیے جائیں گے؟، جس پر وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ مختلف تیل کمپنیوں کو مواقع دیے جائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں تیل و گیس کی امریکی صدر
پڑھیں:
کیا پاکستانی یورپ جانے کا خواب بیلاروس میں تلاش کر سکتے ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 ستمبر 2025ء) اسلام آباد کے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے شان سہیل بیرونِ ملک ملازمت کے خواہشمند ہیں۔ جب 30 سالہ شان کو معلوم ہوا کہ بیلاروس میں کام کرنے کا امکان ہے تو انہوں نے تعمیرات کے شعبے میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے کئی لیبر ایجنٹس سے رابطہ کیا۔
انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، 'میں بہتر آمدنی اور بہتر مستقبل کے لیے بیرون ملک جانا چاہتا ہوں۔
‘تاہم، شان کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک یہ معلوم نہیں کہ اس عمل کا آغاز کیسے کریں اور درخواست کہاں بھیجیں۔
لوکاشینکو کو پاکستان سے ڈیڑھ لاکھ تک "اسپیشلسٹس" درکارپچیس کروڑ سے زائد آبادی والا پاکستان کئی برسوں سے معاشی بحران کا شکار ہے۔
(جاری ہے)
اعداد و شمار کے مطابق 30 فیصد سے زائد یونیورسٹی گریجویٹس بے روزگار ہیں۔
دوسری جانب، یورپ کے غریب ترین ممالک میں شمار ہونے کے باوجود بیلاروس کو مزدوروں کی سخت ضرورت ہے۔بیلاروس کی آبادی 90 لاکھ سے بھی کم ہے اور مسلسل سکڑ رہی ہے، کیونکہ 2020 کے ہنگاموں کے بعد لاکھوں افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔
بیلاروسی حکام نے سب سے پہلے اپریل 2025 میں اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستانی مزدوروں کو مدعو کریں گے، جب پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے منسک کا دورہ کیا تھا۔
شریف سے ملاقات کے بعد بیلاروسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے پریس کو بتایا کہ پاکستان "ایک لاکھ، شاید ایک لاکھ پچیس ہزار یا ڈیڑھ لاکھ اسپیشلسٹس" بھیجے گا۔
انہوں نے کہا، ''میں نے اپنے دوست، پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ مختلف شعبوں سے اسپیشلسٹس جلد بھیجے جائیں گے۔ یہ وہ شعبے ہوں گے جن کی ہمیں ضرورت ہوگی، اور پاکستانی حکام ہمیں ایسے افراد منتخب کرنے میں مدد کریں گے۔
‘‘اگست میں پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد میں اپنے بیلاروسی ہم منصب سے ملاقات کے بعد اس منصوبے کی تصدیق کی کہ ہزاروں پاکستانی بیلاروس میں ملازمت کے لیے بھیجے جائیں گے۔
پاکستانی پہلے ہی بیلاروس پہنچ رہے ہیںپاکستانیوں کو بیلاروس میں ملازمت دینے کا پروگرام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے، اگرچہ ابھی تک اس پیمانے پر نہیں جیسا کہ لوکاشینکو نے اعلان کیا تھا۔
بیلاروس کو اپنی مینوفیکچرنگ، تعمیرات اور ٹیکنالوجی کی صنعتوں کے لیے ہنرمند کارکنوں کی ضرورت ہے۔پاکستانی وزارت برائے اوورسیز پاکستانی اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے ایک اہلکار نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''مزدوروں کا انتخاب درخواست دینے والے ملک کی مقرر کردہ شرائط کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔‘‘
مئی 2025 تک تقریباً 200 پاکستانی کارکن بیلاروس میں ملازم تھے۔
اہلکار کے مطابق، ''عام طور پر جب کوئی غیر ملکی حکومت مزدوروں کی درخواست کرتی ہے تو وزارت اس عمل کو منظم کرتی ہے۔‘‘
غیر ملکی کارکنوں کے لیے بیلاروس کیوں پرکشش ہے؟پاکستان کے لیے اپنے شہریوں کو بیرونِ ملک بھیجنا اگرچہ عملی فیصلہ ہے اور اس میں برین ڈرین کا خطرہ بھی ہے۔ لیکن یہ اسکیم جنوبی ایشیائی ملک کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے نوجوانوں میں بیروزگاری کم ہو گی اور بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوگا۔
پاکستان میں اوسط تنخواہ 300 ڈالر ماہانہ سے بھی کم ہے،اگرچہ آمدنی تعلیم، ملازمت اور علاقے کے لحاظ سے یہ مختلف ہو سکتی ہے۔ اسی لیے بڑی تعداد میں کارکن بیرونِ ملک جانے کے خواہشمند ہیں۔
اگرچہ بیلاروس کو یورپ کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن وہاں کی اوسط تنخواہیں پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ جولائی میں یہ تقریباً 800 ڈالر ماہانہ تھیں۔
یقیناً غیر ملکی کارکنوں کو رہائش کرایہ پر لینی ہوگی اور ممکنہ طور پر تربیت کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہوں گے، لیکن وہ پھر بھی پاکستان کے زیادہ تر ہنرمند ملازمین سے زیادہ کمائیں گے۔تاہم، پاکستانیوں کی نظر میں بیلاروس کی اصل کشش مالی نہیں بلکہ جغرافیائی ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر عظیم خالد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے پیش نظر، بہت سے افراد فطری طور پر بیرون ملک بہتر مواقع تلاش کر رہے ہیں۔
ان کے لیے یورپی ملک میں کم ہنر اور ہنر مند دونوں قسم کے ویزے کی دستیابی بڑی کشش رکھتی ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ''پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ یورپ میں کام کرنے سے زیادہ آمدنی اور بہتر معیارِ زندگی حاصل ہو سکتا ہے، اس لیے یہ قدرتی بات ہے کہ لوگ دلچسپی لیں گے۔‘‘
کیا یورپ میں ملازمتیں "بیچی" جا رہی ہیں؟اس دلچسپی کے ساتھ یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ بیلاروس میں ملازمتوں کے مواقع اقربا پروری یا کرپشن کی بنیاد پر تقسیم کیے جا رہے ہیں۔
پاکستانی امیگریشن کے ماہر وکلاء خبردار کرتے ہیں کہ اکثر اوقات بیرون ملک ملازمتیں لائسنس یافتہ لیبر ایجنٹس کو "بیچ" دی جاتی ہیں۔امیگریشن وکیل اسامہ ملک نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''یہ ایجنٹس پھر ان ورک کنٹریکٹس کو ان افراد کو دوبارہ بیچتے ہیں جو ملک چھوڑنے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔‘‘
ملک کے مطابق، اس عمل کے نتیجے میں کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ پاکستانی کارکن میزبان ملک کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتے۔
انہوں نے کہا، ''مثال کے طور پر، ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جب پاکستانی میڈیکل گریجویٹس کئی بار کوشش کے باوجود دیگر ممالک کے میڈیکل پریکٹس امتحانات پاس کرنے میں ناکام رہے۔‘‘
ملک کی رائے میں پاکستانی حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ لیبر کنٹریکٹس فروخت نہ ہوں اور صرف اہل ترین ماہرین کو ہی منتخب کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا، ''اگر ضرورت ہو تو کارکنوں کو بیلاروس بھیجنے سے پہلے اضافی تربیت فراہم کی جانی چاہیے۔
اس کے علاوہ، تمام منتخب امیدواروں کے ڈپلومے اور تعلیمی اسناد کی مکمل جانچ ہونی چاہیے۔‘‘ ’تندور‘ سے نکل کر ’آگ‘ میں؟بیلاروس ایک ایسا ملک ہے جو مستقل سیاسی بحران کا شکار ہے۔ یہ روس کی یوکرین جنگ میں شمولیت اور لوکاشینکو حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پابندیوں کے تحت ہے۔
یہ خبر کہ پاکستانی کارکن وہاں بھیجے جائیں گے، ہجرت کے ماہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے تشویش کا باعث بنی ہے۔
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) نے خبردار کیا ہے کہ ہجرت کی اس لہر سے نہ صرف خود تارکینِ وطن بلکہ ان کے اہل خانہ اور اپنے گھروں پر موجود کمیونٹیز کے لیے بھی سنگین مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
ایف آئی اے کے ایک سینئر اہلکار نے کہا، ''ہمیں غیر قانونی ہجرت کے ایک اور بحران کے لیے تیار رہنا چاہیے، جو بیلاروس کی جانب بڑے پیمانے پر انخلا کے نتیجے میں جنم لے سکتا ہے۔
‘‘ کیا پاکستانی کارکن یورپی یونین کا رخ کریں گے؟ادھر یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بیلاروس، جو کہ یورپی یونین کا رکن ملک نہیں ہے، میں موجود پاکستانی کارکن مغرب کی جانب، یورپی یونین کے امیر ممالک میں جانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں پولینڈ اور دیگر یورپی ممالک بارہا منسک پر یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ تارکین وطن کو جان بوجھ کر سرحد پار بھیجتا ہے تاکہ یورپی یونین کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔
جسے مغربی دنیا روس اور بیلاروس کی جانب سے "ہائبرڈ وار فیئر" قرار دیتی ہے۔بین الاقوامی امور کے ماہر عظیم خالد نے کہا، ''یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ کچھ افراد اس موقع کو یورپ کے دیگر مقامات تک پہنچنے کے لیے ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''میری رائے میں یہی ایک اور وجہ ہے جس کی بنا پر پاکستانی نوجوان بیلاروس میں کام کرنے کے موقع کو جوش و خروش سے قبول کریں گے۔
لہٰذا بیلاروس اور پاکستانی حکام دونوں کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ ایک منظم طریقہ کار نافذ کریں۔ انہیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ منتخب ہونے والے افراد واقعی جائز روزگار کے مواقع کے خواہاں ہیں، تاکہ پروگرام کے غلط استعمال کو کم سے کم کیا جا سکے۔‘‘لیکن ابھی تک ایسی کوئی ضمانتیں عوام کے سامنے نہیں لائی گئی ہیں۔
ادارت: صلاح الدین زین