گورنر ہاؤس میں معرکہ حق کا جشن، دنیا کی طویل ترین آتش بازی کا عالمی ریکارڈ قائم
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
ترجمان گورنر ہاؤس کے مطابق آتش بازی کے اس مظاہرے کو گنیز ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرانے کی کوشش کی گئی، جس کے لیے غیر ملکی نمائندے بھی موجود تھے، شہریوں کی بڑی تعداد نے آتش بازی، روشنیوں اور فنکاروں کی پرفارمنسز سے بھرپور لطف اٹھایا۔ اسلام ٹائمز۔ جشنِ آزادی کے سلسلے میں گورنر ہاؤس کراچی میں معرکہ حق کے عنوان سے شاندار آتش بازی کے مظاہرے کے دوران دنیا کی طویل ترین آتش بازی کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا گیا۔ آتش بازی رات 12 بج کر 55 منٹ پر شروع ہوئی جو ایک گھنٹہ 16 منٹ تک جاری رہی، اس دوران آسمان روشنیوں میں نہا گیا۔ گورنر ہاؤس میں گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈز کے نمائندے بھی موجود تھے تاکہ اس تقریب کو عالمی ریکارڈ میں شامل کیا جا سکے۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی زیرِ صدارت ہونے والی تقریب میں شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ گورنر ہاؤس میں ایشیا کا سب سے بڑا اسٹیج بھی تیار کیا گیا تھا، تقریب میں عالمی شہرت یافتہ گلوکار کیفی خلیل اور علی ظفر نے اپنے فن کا شاندار مظاہرہ کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا کہ بھارت نے اگر میلی آنکھ سے دیکھا تو یہی آتش بازی تمہارے لیے کافی ہوگی، ہم نے سب نے مل کر جشنِ آزادی کی تقریبات کو کامیاب بنایا ہے۔ ترجمان گورنر ہاؤس کے مطابق آتش بازی کے اس مظاہرے کو گنیز ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرانے کی کوشش کی گئی، جس کے لیے غیر ملکی نمائندے بھی موجود تھے، شہریوں کی بڑی تعداد نے آتش بازی، روشنیوں اور فنکاروں کی پرفارمنسز سے بھرپور لطف اٹھایا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گورنر ہاؤس
پڑھیں:
شام پر منحوس سودے بازی
اسلام ٹائمز: خطے کے بعض ذرائع نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ دمشق اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ قربتیں شام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا دروازہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس نقطہ نظر کی بنیاد پر امریکہ ممکن ہے کچھ سیاسی اور اقتصادی مراعات کے عوض شام میں بالخصوص لبنان اور عراق کی سرحدوں کے قریب فوجی اڈے قائم کرنے کا مطالبہ کر دے تاکہ یوں اسلامی مزاحمتی بلاک کی سرگرمیوں پر قریب سے نظر رکھ سکے۔ اگرچہ شام کے حکمرانوں نے اس کی تردید کی ہے لیکن حالات کا رخ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دمشق کی نئی سرگرمیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے کہیں زیادہ وسیع نتائج کی حامل ہو سکتی ہیں۔ تحریر: علی احمدی
امریکہ کی جانب سے نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھونک دیا گیا جب تکفیری دہشت گرد گروہ ھیئت تحریر الشام کا سربراہ ابومحمد الجولانی اپنے نئے نام احمد الشرع اور نئے منصب یعنی شام کے صدر کے ساتھ سرکاری دورے پر امریکہ آیا ہے۔ اگرچہ خود کو شام کا صدر کہنے والے شخص کی تکفیری سوچ اور سرگرمیاں کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بدنام زمانہ دہشت گرد کا سخت طرفدار بن چکا ہے۔ امریکی صدر نے وائٹ ہاوس میں جولانی سے ملاقات کے دوران صحافیوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: "شام کی نگران حکومت کا سربراہ مجھے بہت پسند ہے اور میں اس کا ساتھ دیتا ہوں۔ جولانی نے سخت ماضی گزارا ہے۔ ہم سب سخت ماضی سے گزر چکے ہیں۔" سابق القاعدہ کمانڈر کی اس طرح تعریف نے نائن الیون میں مرنے والوں کے اہلخانہ کو دکھی کر دیا ہے۔
دوسری طرف امریکہ کی سربراہی میں داعش مخالف اتحاد میں ممکنہ طور پر شام کی شمولیت نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سی چہ میگوئیوں کو جنم دیا ہے۔ اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ دمشق کی جانب سے یہ اچانک یوٹرن داعش کے بچے کھچے عناصر کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ مغربی دنیا سے تعلقات بحال کرنے کی طے شدہ پالیسی اور سیاسی گوشہ نشینی سے بتدریج باہر نکلنے کی کوشش ہے۔ اس بارے میں کچھ ایسی رپورٹس بھی شائع ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کے حکمرانوں نے امریکی اور یورپی حکام سے بالواسطہ رابطہ بھی برقرار کیا ہے اور نیٹو کے مطلوبہ اہداف کے لیے سیکورٹی سرگرمیاں انجام دینے کا عندیہ بھی ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح خطے کے بعض ذرائع نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ دمشق اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ قربتیں شام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا دروازہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
اس نقطہ نظر کی بنیاد پر امریکہ ممکن ہے کچھ سیاسی اور اقتصادی مراعات کے عوض شام میں بالخصوص لبنان اور عراق کی سرحدوں کے قریب فوجی اڈے قائم کرنے کا مطالبہ کر دے تاکہ یوں اسلامی مزاحمتی بلاک کی سرگرمیوں پر قریب سے نظر رکھ سکے۔ اگرچہ شام کے حکمرانوں نے اس کی تردید کی ہے لیکن حالات کا رخ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دمشق کی نئی سرگرمیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے کہیں زیادہ وسیع نتائج کی حامل ہو سکتی ہیں۔
چہرے کی تبدیلی
شام میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کی شدید انتہاپسندی اور ہولناک جرائم کے باعث ان کے خلاف اتحاد تشکیل پا چکا ہے۔ اس سلسلے میں وہ ممالک بھی رائے عامہ کے دباو کا شکار ہیں جو صدر بشار اسد کے مخالفین کے حامی سمجھے جاتے تھے۔
اسی دباو کے نتیجے میں انہوں نے شام کی فوجی اور مالی امداد میں بہت حد تک کمی کر دی ہے۔ عوامی حمایت کھو دینے کے بعد تکفیریوں کی شکست یقینی ہو گئی تھی۔ تکفیریوں کا آخری گڑھ ادلب تھا جہاں ابومحمد الجولانی ایک تکفیری دہشت گرد سے ایک سیاست دان میں تبدیل ہو گیا۔ اس نے "ھیئت تحریر الشام" کے نام سے اپنا ایک نیا گروہ تشکیل دیا اور انقرہ کی حمایت سے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ البتہ اس نئے طریقہ کار کے باعث اسے تکفیری عناصر کی جانب سے مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا جنہیں سختی سے کچل دیا گیا۔ تکفیری گروہوں کے ماہر جیرم دراوین کی نظر میں ھیئت تحریر الشام کا مقصد محض جہاد سے تبدیل ہو کر حکومت کی تشکیل ٹھہرا۔ جنگ زدہ علاقوں میں عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور بشار اسد حکومت کے سابقہ افسروں کی مدد بھی حاصل کی گئی۔ دراصل القاعدہ کے سابق کمانڈر نے حکومت قائم کر لی ہے۔
امریکہ کی خدمت گذاری
بشار اسد حکومت کی سرنگونی اور دمشق پر ھیئت تحریر الشام کے قبضے کے بعد ابومحمد الجولانی کے لیے حکومت داری کا کڑا امتحان شروع ہو گیا۔ شمال مشرق کے کرد، بحیرہ روم کے ساحل پر علوی اور جنوب میں دروزی باشندے اس نئی حکومت کے مخالف تھے اور اب تک کئی بار اس کے خلاف مسلح بغاوت بھی کر چکے ہیں۔ ایسے میں ابومحمد الجولانی نے امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد سے وہ اسرائیلی جنگی طیاروں، کرد مسلح جنگجووں اور علوی مسلح گروہوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ بھی جولانی سے بہت سی توقعات لگائے بیٹھا ہے۔ روئٹرز کے مطابق امریکی حکمران دمشق کے قریب بڑا فوجی اڈہ بنانا چاہتے ہیں۔ شام نے امریکہ سے انٹیلی جنس تعاون بھی شروع کر رکھا ہے۔
تاریک ماضی
ابومحمد الجولانی کی جانب سے اپنا نیا چہرہ پیش کرنے کی بھرپور کوشش کے باوجود اب تک حتی ٹرمپ کے حامی بھی اسے شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ابومحمد الجولانی نے امریکہ دورے کے دوران فاکس نیوز کو بھی انٹرویو دیا ہے۔ فاکس نیوز کے میزبان نے کئی بار جولانی پر ترچھے وار بھی کیے۔ اس نے جولانی سے پوچھا کہ کیا آپ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر القاعدہ کے حملے پر شرمندگی کا احساس نہیں کرتے جس میں تین ہزار سے زیادہ امریکی مارے گئے تھے؟ جولانی نے سیدھا جواب دینے سے کتراتے ہوئے کہا: "میری عمر اس وقت محض 19 برس تھی اور فیصلہ سازی میں میرا کوئی کردار نہیں تھا۔" البتہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابومحمد الجولانی نے عراق میں شیعہ شخصیات اور شہریوں کے قتل عام میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ سلفی تکفیری گروہوں کی پے در پے ناکامی کے بعد اس کے پاس سیاست میں آ جانے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔