Islam Times:
2025-10-04@20:28:05 GMT

جمہوریت کی حفاظت کیلئے فیصلہ کن جنگ لڑیں گے، راہل گاندھی

اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT

جمہوریت کی حفاظت کیلئے فیصلہ کن جنگ لڑیں گے، راہل گاندھی

کانگریس رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ کانگریس اور اسکے اتحادی بہار کی سرزمین سے ووٹ چوری کے خلاف براہ راست جنگ شروع کررہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف اور کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی 17 اگست سے بہار کی سر زمین سے "ووٹ ادھیکار یاترا" کا آغاز کریں گے۔ یہ یاترا باضابطہ طور پر ساسارام کے ریلوے میدان سے ایک عوامی جلسے کے ساتھ شروع ہوگی اور یکم ستمبر کو پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں عوامی جلسہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوگی۔ اس مہم کا مقصد ووٹ چوری کے خلاف عوامی بیداری پیدا کرنا اور صاف و شفاف ووٹر لسٹ کو یقینی بنانا ہے۔ یہ یاترا کانگریس کے علاوہ بہار میں "انڈیا" اتحاد کے دیگر اہم اتحادیوں کی شمولیت کے ساتھ انجام پائے گی۔ راہل گاندھی کے ساتھ راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رہنما اور سابق نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو سمیت مختلف جماعتوں کے بڑے قائدین شریک ہوں گے۔

راہل گاندھی نے جمعرات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ کانگریس اور اس کے اتحادی بہار کی سرزمین سے ووٹ چوری کے خلاف براہ راست جنگ شروع کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ صرف ایک انتخابی مسئلہ نہیں بلکہ جمہوریت، آئین اور "ون مین، ون ووٹ" کے اصول کی حفاظت کا فیصلہ کن جنگ ہے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا کہ 17 اگست سے ووٹ ادھیکار یاترا کے ساتھ ہم بہار سے ووٹ چوری کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر رہے ہیں، ہم پورے ملک میں صاف اور درست ووٹر لسٹ تیار کروا کے ہی دم لیں گے۔ انہوں نے اپیل کی کہ نوجوان، مزدور، کسان، ہر شہری اٹھے اور اس عوامی تحریک کا حصہ بنے، اب کی بار، ووٹ چوروں کی ہار، عوام کی جیت، آئین کی جیت۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ مہم بہار تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس طرز کی عوامی بیداری مہم چلائی جائے گی تاکہ ووٹر لسٹ سے فرضی نام نکالے جا سکیں اور حقیقی اہل ووٹروں کا اندراج یقینی بنایا جا سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: راہل گاندھی کے ساتھ سے ووٹ

پڑھیں:

بھارت کی ہندو قیادت کا چھوٹا پن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251003-03-7

 

شاہنواز فاروقی

بھارت کا جغرافیہ اور آبادی ہاتھی کی طرح ہے مگر بھارت کی ہندو قیادت کا دل، دماغ اور ظرف چیونٹی کی طرح ہے۔ چنانچہ بھارت کی ہندو قیادت نے سیاست کو کھیل اور کھیل کو سیاست بنادیا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کرکٹ کا ایشیا کپ پاکستان میں ہونا تھا مگر بھارت نے اعلان کردیا کہ اس کی ٹیم پاکستان نہیں جائے گی۔ چنانچہ ایشیا کپ کو دبئی منتقل کرنا پڑا، لیکن بھارت کی ہندو قیادت یہاں بھی چھوٹے پن سے باز نہ آئی، چنانچہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان سوریا کمار نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سلمان علی آغا کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ حد یہ کہ بھارت نے ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستان کو شکست دینے کے بعد پاکستان کے وزیر داخلہ اور پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتا محسن نقوی سے ٹرافی لینے سے انکار کردیا۔ سرد جنگ کے زمانے میں مغربی دنیا اور سوویت یونین کے درمیان شدید ترین محاذ آرائی موجود تھی لیکن مغربی دنیا میں اولمپک مقابلے ہوتے تھے تو سوویت کھلاڑی اولمپک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ لیکن بھارت کی ہندو قیادت کا چھوٹا پن کھیل میں بھی سیاست لے آیا ہے۔ بھارت کو پاکستان سے ایسی ہی نفرت ہے تو اسے ایشیا کپ کے مقابلوں میں حصہ ہی نہیں لینا چاہیے تھا۔

بعض پاکستانیوں کا خیال یہ ہے کہ بھارت کی ہندو قیادت کا چھوٹا پن صرف بی جے پی کی قیادت کے ساتھ مخصوص ہے لیکن ایسا نہیں ہے بھارت کی ہندو قیادت ڈیڑھ سو سال سے ہر مرحلے پر چھوٹے پن کا مظاہرہ کررہی ہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی سے بڑا رہنما ہندوستان نے پیدا نہیں کیا مگر گاندھی کے زمانے میں ہندو ’’شدھی‘‘ کی تحریک چلائے ہوئے تھے۔ اس تحریک کے تحت غریب مسلمانوں کو پیسے کا لالچ دے کر ہندو بنایا جارہا تھا اور ان سے کہا جارہا تھا کہ تم کبھی ہندو ہی تھے۔ تم برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد مسلمان ہوئے۔ چنانچہ تم ایک بار پھر ’’پاک‘‘ یا ’’شدھ‘‘ ہو کر دوبارہ ہندو ازم کا حصہ بن جائو۔ گاندھی شدھی کی اس تحریک سے پوری طرح آگاہ تھے۔ مگر انہوں نے کبھی ہندوئوں سے یہ

نہیں کہا کہ تم مسلمانوں کو لالچ دے کر اور دبائو ڈال کر کیوں ہندو بنارہے ہو۔ مولانا محمد علی جوہر اس پوری صورت حال سے آگاہ تھے اور وہ اپنے اخبار کامریڈ میں گاندھی سے چیخ چیخ کر پوچھ رہے تھے کہ آپ مسلمانوں کو زبرستی ہندو بنانے کی مہم کا نوٹس کیوں نہیں لیتے؟ منشی پریم چند اردو افسانے کے بنیاد گزار تھے۔ ان کا افسانہ عیدگاہ معرکہ آرا اور اردو کے دس بڑے افسانوں میں سے ایک ہے۔ اس افسانہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پریم چند اسلام اور اسلامی تہذیب سے بے انتہا متاثر تھے مگر پریم چند گاندھی کے زیر اثر آگئے تو انہوں نے اردو میں افسانے اور ناول لکھنا ترک کردیا اور وہ ہندی میں افسانے اور ناول لکھنے لگے۔ حالانکہ اردو اور ہندی کا باہمی تعلق یہ ہے کہ اردو کا 30 فی صد ذخیرۂ الفاظ ہندی سے آیا ہے اور مسلمانوں نے ہندی کے اس ذخیرۂ الفاظ کو ہمیشہ سینے سے لگا کر رکھا ہے اور کبھی اس ذخیرۂ الفاظ سے تعصب نہیں برتا۔ گاندھی کے مسلمانوں سے تعصب برتنے کی ایک اور بڑی مثال یہ ہے کہ نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی۔ گاندھی کو اس کی اطلاع ملی تو وہ بہت ناراض ہوئے، انہوں نے وجے لکشمی پنڈت کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ تمہیں کروڑوں ہندو نوجوانوں میں ایک بھی اس قابل نہیں لگا کہ تم اس سے شادی کرو۔ تمہیں پسند آیا تو ایک مسلمان۔ گاندھی وجے لکشمی پنڈت کو سخت سست کہہ کر نہیں رہ گئے۔ انہوں نے ان کی شادی ختم کرادی۔

بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ایک سیکولر انسان تھے۔ اردو ان کے اپنے الفاظ میں ان کی مادری زبان تھی۔ درجنوں مسلمانوں سے نہرو کی دوستیاں تھیں مگر 1947ء میں جب ہندوستان میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے اور ان فسادات نے دہلی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک دن نہرو سے کہا کہ دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ چنانچہ آپ کو اس سلسلے میں فوراً کچھ کرنا چاہیے۔ نہرو نے کہا تو صرف یہ کہ میں وزیر داخلہ سردار پٹیل سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ وہ مسلم کش فسادات کو روکیں مگر وہ میری بات ہی نہیں سنتے۔ نہرو گاندھی کے بعد کانگریس کی اہم ترین شخصیت تھے، وہ بھارت کے وزیراعظم تھے، یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ وزیرداخلہ سے کچھ کہیں اور وزیر داخلہ ان کی بات نہ مانے۔

پاکستان ایک پرامن جدوجہد کا حاصل تھا، چنانچہ اس کی تخلیق کو بھی پرامن ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہندو قیادت نے تخلیق پاکستان کو خون آشام بنادیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہونے والے فسادات میں 10 لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے۔ ہزاروں مسلمان خواتین اغوا ہوئیں، یہاں تک بھارت نے پاکستان کے حصے کے اثاثے روک لیے۔ یہ عمل اتنا ہولناک اور شرمناک تھا کہ گاندھی کو اس پر شرم آگئی اور انہوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کردی۔ چنانچہ بھارتی حکومت کو پاکستان کے حصے کی رقم جاری کرنی پڑ گئی۔

1970ء میں مشرقی پاکستان کے اندر جو سیاسی بحران پیدا ہوا وہ پاکستان کا ’’داخلی معاملہ‘‘ تھا مگر اندرا گاندھی نے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں فوج داخل کردی۔ چنانچہ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوگیا۔ یہ بھارت کی ایک بہت ہی بڑی کامیابی تھی اور بھارت کی قیادت اس پر جتنا خوش ہوتی کم تھا، مگر اندرا گاندھی صرف مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنا کر خوش نہیں ہوئیں۔ انہوں نے قوم سے خطاب فرمایا اور کہا کہ آج ہم نے (مسلمانوں سے) ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے اور ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ اندرا گاندھی کے اس بیان سے ثابت ہوا کہ ہندو قیادت کا مسئلہ صرف پاکستان نہیں اسلام بھی ہے۔ ہندو قیادت صرف پاکستان کو نیست و نابود نہیں کرنا چاہتی وہ اسلام کو بھی صفحہ ہستی سے مٹادینے کا خواب دیکھتی ہے۔

بابری مسجد 1992ء میں شہید کی گئی۔ اس وقت بھارت پر بی جے پی کی نہیں کانگریس کی حکومت تھی۔ اس وقت کانگریس کے نرسہمارائو ملک کے وزیر اعظم تھے۔ وہ بابری مسجد کے اطراف میں 20 ہزار پولیس والے تعینات کردیتے تو بابری مسجد کی شہادت کو روکا جاسکتا تھا۔ لیکن بابری مسجد کی شہادت کے پورے دن نرسہما رائو سوتے رہے اور ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد شہید کردی۔

بھارت کے ڈاکٹر ذاکر نائک کا تعلق کسی ’’اتنہا پسند‘‘ تنظیم سے نہیں ہے۔ وہ کھلے عام مکالمے کے قائل ہیں۔ وہ اپنے علم سے مذاہب عالم کی مماثلتوں اور امتیازات کو عیاں کرتے ہیں۔ ان کی فکر سے متاثر ہو کر سہکڑوں ہندو مسلمان ہوئے ہیں۔ مگر بھارت کی کم ظرف ہندو قیادت انہیں بھی برداشت نہ کرسکی۔ ہندو قیادت نے ذاکر نائک پر بھی انتہا پسندی کا الزام لگادیا اور ذاکر نائک کو ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ بھارت کے ہندوئوں کی آبادی ایک ارب 15 کروڑ ہے مگر بھارت کی اتنی بڑی آبادی ڈاکٹر ذاکر کا علمی مقابلہ نہ کرسکی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر بھارت کی ہندو قیادت کے چھوٹے پن کے اسباب کیا ہیں؟

بھارت کی ہندو اکثریت 1200 سال سے غلام چلی آرہی ہے۔ وہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی اور 200 سال تک انگریزوں کی غلام رہی۔ انسان غلامی کو قبول کرلے تو اس کی ہر چیز چھوٹی ہوجاتی ہے۔ دل و دماغ اور ظرف بھی۔ چنانچہ ہندو قیادت کے چھوٹے پن کی ایک وجہ غلامی ہے۔ ہندو قیادت کے چھوٹے پن کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندو ازم ایک جغرافیائی حقیقت ہے۔ اس میں اسلام جیسی آفاقیت نہیں ہے۔ ’’مقامیت‘‘ کی پوجا قوموں کی ہر چیز کو چھوٹا کردیتی ہے جو مذہب ذات پات کے تعصب کا شکار ہو کر اپنے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرسکے وہ ’’غیروں‘‘ کے ساتھ اچھا سلوک کیسے کرے گا؟

 

شاہنواز فاروقی

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن نے "ایس آئی آر" کا پورا کھیل بی جے پی کے اشارہ پر کھیلا ہے، کانگریس
  • جوائنٹ ایکشن کمیٹی کیساتھ معاہدہ طے پانا جمہوریت کی جیت ہے: احسن اقبال
  • آزاد کشمیر میں وفاقی وزراء اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مذاکرات کامیاب
  • کامیاب مذاکرات و معاہدہ آزاد کشمیر کے عوام، پاکستان اور جمہوریت کی جیت ہے، احسن اقبال
  • حکومت پاکستان اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب
  • اترپردیش راجرشی ٹنڈن اوپن یونیورسٹی میں آر ایس ایس کی تاریخ پڑھائی جائیگی، کانگریس کا احتجاج
  • بھارت کی ہندو قیادت کا چھوٹا پن
  • حفاظتِ نظر کا انعام
  • مہاتما گاندھی نے آر ایس ایس کو مطلق العنان نقطۂ نظر والی فرقہ وارانہ ادارہ قرار دیا تھا، کانگریس
  • گلوبل صمود فلوٹیلا کی حفاظت امت مسلمہ کا امتحان