چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب منظرِ عام پر آ گیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف آئینی درخواستیں 4نومبر 2024ء کو فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کے خلاف چیف جسٹس سمیت 13 میں سے 9 ججوں کی رائے کے حوالے سے چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کا خط پبلک کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے معاملے پر اعلیٰ ججوں میں اختلافات کی دستاویزات پبلک کر دی گئیں۔
چیف جسٹس سے سعودی سفیر کی ملاقات، پاک سعودی عرب عدالتی تعاون بڑھانے پر اتفاقملاقات میں دونوں ممالک کےعدالتی افسران کےلیےمشترکہ تربیتی پروگرامز اور علاقائی عدالتی کانفرنس کے انعقاد پر بھی بات چیت کی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے 31 اکتوبر کو چیف جسٹس کی غیر موجودگی میں کمیٹی کا اجلاس بلا کر معاملہ فل کورٹ کے سامنے 4 نومبر کو مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق آرٹیکل 184 کی درخواستیں صرف آئینی بینچ سُن سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ 13 میں سے 9 جج فل کورٹ کے بجائے آئینی بینچ کے حق میں ہیں، دونوں ججوں نے دوبارہ فل کورٹ کی سماعت کا مطالبہ کیا، تاہم چیف جسٹس نے معاملہ آئینی بینچ کے سپرد کر دیا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
وفاقی آئینی عدالت کے 2 مزید ججز جسٹس روزی بڑیچ اور جسٹس ارشد شاہ نے حلف اٹھالیا
پیر کے روز وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی ) کے 2 مزید ججز نے حلف اٹھایا۔ایف سی سی کے چیف جسٹس امین الدین خان نے اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں جسٹس روزی خان بڑیچ اور جسٹس ارشد حسین شاہ سے حلف لیا، اپنے حلف میں دونوں ججز نے آئین کی پاسداری کرنے کا عہد کیا۔ججز نے حلف میں کہا کہ ’میں صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ پاکستان کے ساتھ حقیقی وفاداری رکھوں گا، اور بطور جج ایف سی سی پاکستان اپنے فرائض ایمانداری سے، اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا۔ایف سی سی کے دیگر ارکان جسٹس سید حسن اظہر رضوی، عامر فاروق، علی باقر نجفی اور کے کے آغا نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں حلف اٹھایا تھا۔ذرائع نے پہلے بتایا تھا کہ جسٹس ارشد حسین شاہ کو اس وقت تعینات کیا گیا تھا، جب سپریم کورٹ کی جسٹس مسرّت ہلالی نے ایف سی سی میں شمولیت سے معذرت کرلی تھی۔صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ ہفتے جسٹس امین الدین کو ایف سی سی کا چیف جسٹس مقرر کیا تھا، بعد ازاں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی تھی۔
ایف سی سی کی ابتدائی تشکیل صدر کے حکم کے ذریعے طے کی گئی، جب کہ مستقبل میں ججز کی تعداد میں کسی بھی اضافے کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری درکار ہوگی۔حکومتی اہلکاروں کے مطابق، ایف سی سی کے قیام کا مقصد سپریم کورٹ کے بوجھ کو کم کرنا، آئینی کیسز کا بروقت فیصلہ یقینی بنانا، اور عدالتی آزادی اور ساکھ کو مضبوط کرنا ہے۔چیف جسٹس اور 4 ججز کے حلف اٹھانے کے بعد ایف سی سی باضابطہ طور پر جمعہ کو کام شروع کر چکی ہے، نیا آئینی ادارہ وقتی انتظامات کے تحت کام کر رہا ہے، کیوں کہ اس کی مستقل عمارت ابھی تک حتمی طور پر طے نہیں ہوئی۔حلف برداری کی تقریب 5 سینئر ججز اسلام آباد ہائی کورٹ کے بائیکاٹ کے سبب کم توجہ حاصل کر سکی، کیوں کہ سوال اٹھا کہ ایف سی سی میں تقرری کس اصول یا معیار کے تحت کی گئی ہے۔ناقدین نے نشاندہی کی کہ اگر سنیارٹی معیار ہے، تو نئے تعینات ہونے والوں میں سے صرف جسٹس امین الدین سابق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ (سی بی) کے اراکین سے سینئر ہیں، جنہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔بیرسٹر علی طاہر نے سندھ ہائی کورٹ میں 27ویں ترمیم کے خلاف درخواست دائر کر دی۔درخواست میں وفاق پاکستان کو وزارت قانون و انصاف کے ذریعے فریق بنایا گیا ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے تمام ججز (جنہیں اس درخواست میں غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے)، بشمول چیف جسٹس امین الدین خان، کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔