چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کا ایک خط منظرِ عام پر آیا ، جو انہوں نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے نام لکھا تھا۔ یہ خط اُس اجلاس کے بعد لکھا گیا جو 31 اکتوبر کو ہوا تھا، جس میں دونوں ججز نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے 4 نومبر کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے خط میں واضح کیا کہ انہوں نے آئینی بینچ کا حصہ بننے سے کیوں معذرت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 191 اے کے تحت، آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر درخواستوں کو صرف “آئینی بینچ” ہی سن سکتا ہے، نہ کہ فل کورٹ۔ مزید کہا کہ کیس مقرر کرنے کا اختیار بھی صرف آئینی بینچ پر مشتمل ججز کی کمیٹی کو حاصل ہے، نہ کہ سپریم کورٹ کی عام ججز کمیٹی کو۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے 13 ججز سے اس بارے میں رائے لی، جن میں سے 9 ججوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو فل کورٹ کے بجائے آئینی بینچ کے سامنے ہی سنا جانا چاہیے۔ یہ بات دونوں معزز ججز (جسٹس منصور اور جسٹس منیب) کو بھی بتا دی گئی۔

انہوں نے لکھا کہ فل کورٹ اجلاس بلانا مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ اس سے ججز کے درمیان باہمی اعتماد متاثر ہو سکتا ہے اور عدالت کو غیر ضروری عوامی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہیں دونوں ججز کی طرف سے خطوط تاخیر سے موصول ہوئے، جس میں انہوں نے درخواست کی کہ معاملے کو فل کورٹ کے سامنے سنا جائے۔ ان خطوط کو محفوظ رکھنے کے لیے چیف جسٹس نے انہیں جوڈیشل کمیشن کے سیکریٹری کے حوالے کر دیا تاکہ 5 نومبر 2024 کے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ان پر بات ہو سکے۔

انہوں نے خط کے آخر میں واضح کیا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے مطابق بینچز کی تشکیل صرف متعلقہ آئینی کمیٹی کا اختیار ہے، اور بغیر آئینی جواز کے فل کورٹ بنانا آئین کی خلاف ورزی ہوگا۔

Post Views: 11.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: چیف جسٹس انہوں نے فل کورٹ کورٹ کے

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز پر برطرف ایس ایچ او کی اپیل پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 اکتوبر2025ء) سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز پر برطرف ایس ایچ او کی اپیل پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے ۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ میں اختیارات کے غلط استعمال پر برطرف ایس ایچ او کی اپیل کی سماعت جمعرات کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی، عدالت نے درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے، سماعت کے دوران درخواست گزار وکیل عمیر بلوچ نے مؤقف اپنایا کہ دیگر پولیس اہلکاروں کی غلطی پر میرے موکل کو بے قصور برطرف کیا گیا،جس پر جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے کہ ایس ایچ او تھانے کا کرتا دھرتا ہوتا ہے اور کسی عام شہری کو بلا وجہ تھانے میں بند کرنا زیادتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے قانون کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔ واضح رہے کہ چکوال کے تھانہ ڈھڈیال کے سابق ایس ایچ او یاسر محمد کو دو خواتین سمیت چار شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے پر برطرف کیا گیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ میں 2 اہم اپیلوں کی سماعتیں آئندہ ہفتے مقرر
  • سپریم کورٹ؛ سپر ٹیکس کا مطلب ہی اضافی ٹیکس ہے، واضح کرنے کی کیا ضرورت، آئینی بینچ
  • ججز کا صرف عارضی تبادلہ ہو سکتا ہے، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شکیل احمد کا اختلافی نوٹ
  • سپریم کورٹ ججز تبادلہ کیس: جسٹس نعیم اختر افغان کا 40 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری
  • سپر ٹیکس کا مطلب ہی اضافی ٹیکس، واضح کرنے کی کیا ضرورت ہے: آئینی بنچ
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری نے  سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کر دیا
  • وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی چیف جسٹس سے ملاقات کی خواہش، سپریم کورٹ میں درخواست دائر
  • سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز پر برطرف ایس ایچ او کی اپیل پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے
  • کسی کوبھی قانونی عمل کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دیں گے (جسٹس یحییٰ آفریدی)
  • سپر ٹیکس کیس: ایک جرم کے دو سیکشنوں میں سے وہ لگے گا جس کی سزا کم ہو: آئینی بنچ