پاکستان سمیت دنیا بھر میں کشمیری آج بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کُل جماعتی حریت کانفرنس کی جانب سے غیور اور بہادر کشمیریوں سے آج (15 اگست) کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی اپیل کی گئی ہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا کہ جس دن بھارت اپنی آزادی کا جشن مناتا ہے، وہ دن کشمیریوں کیلئے غلامی، جبری تسلط اور مظالم کی سیاہ یاد ہے، ہم اس دن کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں تاکہ دنیا کو بتا سکیں کہ کشمیری قوم بھارتی تسلط کی قیدی نہیں بلکہ آزادی کی متلاشی ہے۔کشمیری عوام کا کہنا ہے کہ کشمیری اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا پیدائشی حق مانگ رہے ہیں، آج بھی کشمیری بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہوئے عالمی برداری سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔حریت رہنماؤں کی اپیل کے فوری بعد بھارتی فورسز نے روایتی جبر کا استعمال کرتے ہوئے چھاپے مارے، درجنوں نوجوانوں کو گرفتار کیا اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی۔اس کے باوجود وادی میں کشمیری نوجوانوں نے جگہ جگہ یومِ سیاہ کے بینرز، سیاہ جھنڈے اور پاکستانی پرچم آویزاں کرنا شروع کردیئے، مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں میں بھارت مخالف نعرے اور آزادی کے حق میں وال چاکنگ بھی دیکھنے میں آئی ہے۔دوسری جانب حریت رہنماؤں نے 14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی یومِ تشکر کے طور پر منایا اور پاکستانی قوم کو دلی مبارکباد دی۔
 

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: سیاہ کے طور پر رہے ہیں کا یوم

پڑھیں:

یورپ میں سیاہ فام تارکین وطن کی شناخت اور حقوق کی جنگ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اکتوبر 2025ء) یورپی ممالک میں سیاہ فام باشندوں کو ہجرت کے حوالے سے ہونے والی بحث کے دوران مزید نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک جرمنی ، ہجرت کے حوالے سے ایک مرکزی اہمیت کا حامل ملک بن چکا ہے۔ 2023 ء میں یورپی یونین ایجنسی برائے بنیادی حقوق (EUFRA) کی رپورٹ"Being Black in the EU" کے مطابق جرمنی میں سیاہ فام مخالف نسلی امتیاز میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

2025 ء کے وفاقیانتخابات کے بعد جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت متبادل برائے جرمنی (AfD) سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر نے والی دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ یہ جماعت امیگریشن مخالف موقف کے لیے جانی جاتی ہے اور اس کی مقبولیت نے سیاہ فام افراد کے لیے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

(جاری ہے)

معاشی جمود اور اس کے اثرات

جرمنی کی معیشت کووڈ 19 کے بعد سے اب تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی۔

یہ واحد جی سیون ملک ہے جو مسلسل تین سالوں سے معاشی جمود کا شکار ہے۔ معاشی دباؤ کے اس ماحول میں، اقلیتوں، خاص طور پر سیاہ فام افراد کو روزگار، رہائش اور سماجی خدمات تک رسائی میں مزید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سماجی اور سیاسی اثرات

سیاہ فام افراد کے حقوق کی وکالت کرنے والی تنظیم آئی ایس ڈی کے طاہر ڈیلا کے مطابق ہجرت کی بحث کے دوران سیاہ فام افراد کی جرمنی میں موجودگی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

ڈیلا کہتے ہیں، ''جب ہجرت سے متعلق بحثیں ہوتی ہیں تو جرمنی میں سیاہ فام لوگوں اور افریقی نسل کے لوگوں کی موجودگی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔‘‘ نسلی امتیاز کی اقسام

یہ امتیاز صرف تنخواہ یا ملازمت کے مواقع تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر شعبوں میں بھی موجود ہے۔ سیاہ فام افراد کو کرایہ پر مکان لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں بھی تعصب کا سامنا رہتا ہےجبکہ پولیس کی جانب سے پروفائلنگ اور زیادتی کے واقعات میں بھی ان افراد کے ناموں کا اندراج رہتا ہے۔ جرمنی میں آسامیوں کی بھرتی میں امتیازی سلوک

جرمنی کی زیگن یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق کے نتائج کے مطابق 2023ء سے 2025 ء کے درمیان افریقی یا عربی نام والے درخواست دہندگان کو پیشہ ورانہ تربیت کے مواقع کے لیے ان کی طرف سے دی گئی درخواستوں کے سب سے کم جوابات موصول ہوئے، حالانکہ جرمن کمپنیوں کو افرادی قوت کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

یورپی یونین کی سطح پر بھی سیاہ فام افراد نے سب سے زیادہ ملازمت کے دوران امتیازی سلوک کی شکایت کی اور جرمنی اس حوالے سے دوسرے بدترین ممالک میں شامل رہا۔

یہ وہ چیز ہے، جسے یورپی ملک لکسمبرگ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس چھوٹے اور بہت امیر ملک کا شمار یورپی یونین کے سب سے زیادہ متنوع آبادی والے ملک میں کیا جاتا ہے۔ اس ملک میں ہر 10 میں سے ایک باشندے کی پیدائش ای یو کے باہر ہوئی ہے۔

لکسمبرگ نے 2017ء کی "Being Black in the EU" رپورٹ میں جرمنی کی ''سیکنڈ لاسٹ‘‘ پوزیشن ہے۔ لکسمبرگ کی حکومت نے اس کے رد عمل میں نسلی اورنسلی امتیاز کے عوامی تاثرات پر اپناسروے شروع کیا، جس کے نتائج 2022ء میں شائع ہوئے تھے۔ یہ ملک اب نسل پرستی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر کام کر رہا ہے۔

بیلجیم کے ماہر معاشیات فریڈرک ڈوکیئر لکسمبرگ کی حکومت کی رپورٹ کے شریک مصنفین میں سے ایک ہیں۔

ان کا کہنا ہے، ''اس منصوبے کا مقصد تحقیق، تربیت اور بیداری پیدا کرنے والے منصوبوں کے ذریعے نسل پرستی اور امتیاز کی تمام اقسام کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کو نافذ کرنا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر زور دینا ہو گا کہ امتیازی سلوک صرف محسوس نہیں کیا جاتا بلکہ یہ حقیقی معنوں میں موجود ہے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • بھارتی سیکیورٹی اداروں کے جارحانہ بیانات پر آئی ایس پی آر کا رد عمل آ گیا
  • یورپ میں سیاہ فام تارکین وطن کی شناخت اور حقوق کی جنگ
  • آزادی کشمیر ،حکومت پاکستان اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب
  • پیپلزپارٹی آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے،راول شرجیل میمن
  • پاکستان کشمیری عوام کے وقار اور حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے؛دفتر خارجہ
  • آزادکشمیرکے عوام کو تمام حقوق حاصل ہیں،پاکستان کابھارتی پروپیگنڈے پرردعمل
  • پاکستان کو سوچناپڑے گا   دنیا کے نقشے پر رہنا چاہتا ہے یا نہیں ،بھارتی آرمی چیف کی بڑھک
  • آزاد کشمیر میں مہنگائی و لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج، وزیر دفاع کی عوام سے پرامن رہنے کی اپیل
  • آزاد کشمیر میں احتجاج کرنے والے مقبوضہ کشمیرکی 3 نسلوں کی جدوجہد پر غورکریں: خواجہ آصف
  • سیز فائر یا سودۂ حریت؟ فلسطین اور دو ریاستی فریب