نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب تربیتی طیارہ گر گیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
اسلام آباد:
نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب تربیتی طیارہ گر گیا تاہم دو پائلٹ محفوظ رہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ طیارے میں پائلٹ نوروز اورخاتون ٹرینی پائلٹ عائشہ سوار تھیں تاہم طیارے میں سوار دونوں پائلٹ محفوظ رہے۔
ذرائع نے بتایا کہ تربینی طیارہ پرائیوٹ ائیرکلب کی ملکیت ہے اورراما گاؤں میں کھیتوں میں ایئرپورٹ کے ٹاور 39کے قریب گرا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں اور پائلٹس کو طبی معائنے کے لیے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے اور علاقے کو سیل کرکے جہاز گرنے کی انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
عوامی جمہوریہ چین قیام سے سپر پاور تک کا سفر
اسلام ٹائمز: یہ فقط 76 برس کے عرصے میں تباہ شدہ معاشرے سے مادی ترقی کی امتیازی حیثیت تک پہنچنے کی ایک بے مثال داستان ہے، جو چینی قوم نے اپنی ہمت، محنت اور ذہانت سے رقم کی۔ ہانک کانگ، تائیوان چین کے حصے تھے، تاہم چین نے ان دونوں خطوں کے حصول کے معاملے کو سرد خانے کے سپرد کر دیا اور قوم ایک بڑے ہدف کے لیے سرگرم عمل رہی۔ برطانیہ سے معاہدے کے نتیجے میں ہانک کانگ از خود چین کی جانب لوٹ آیا۔ تائیوان کے معاملے پر چین کوئی فعال پیشرفت تو نہیں کرتا، تاہم اپنے اصولی موقف سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ اب چین اس حیثیت میں ہے کہ وہ ممالک جو تائیوان کو ایک الگ ریاست تسلیم کرتے ہیں، چین ان سے تجارتی اور سفارتی روابط کو منقطع کر لے۔ یہی سبب ہے کہ تائیوان چین سے جدا ہونے کے باوجود آج تک ایک الگ ریاست کی حیثیت کو عالمی سطح پر نہیں منوا سکا۔ تحریر: سید اسد عباس
میری نظر میں کالم کو واضح، مدلل اور حقیقت پر مبنی ہونا چاہیئے، اگر کسی بھی کالم میں یہ خصوصیات نہیں ہیں تو وہ الفاظ کا انبار ہے، جو سوشل میڈیا کی دنیا میں ذہن پر ایک اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ کسی بھی سیاسی واقعہ، خبر کے بارے میں جب کچھ لکھا جائے تو اس میں ایسی بات ضرور ہونی چاہیئے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرے۔ حال دل! یہ ہے کہ انسانی معاشرے کے متعدد مسائل نگاہوں کے سامنے کسی عفریت کی صورت میں آتے ہیں، دماغ ان کے حل کے بارے میں ایک رائے قائم کرتا ہے اور پھر ایک بڑا عفریت چھوٹے عفریت کی جگہ لے لیتا ہے۔ ان مسائل میں سے مسئلہ فلسطین ، امت مسلمہ کے عوام کی بے بسی، مسلم حکمرانوں کی بے حسی ایسی حقیقتیں ہیں، جن کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ تقریباً بیس لاکھ انسان گذشتہ دو برس سے آگ، خون، بھوک، پیاس، بیماری اور جبری نقل مکانی کی لپیٹ میں ہیں اور دنیا ان کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔
دل تو چاہتا ہے کہ ٹرمپ کے امن منصوبے پر لکھوں، آٹھ مسلم ممالک کی اس معاہدے کے حوالے سے تجاویز کو زیر غور لاؤں، پاکستان میں ٹرمپ کے بیان کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل اس امن منصوبے کے حامی ہیں، اس پر پیدا ہونے والی بے چینی پر غور کروں، مگر دماغ کہتا ہے کہ جو قوم اپنے آئین کی حفاظت نہیں کرسکتی، وہ کسی دوسرے کی کیا مدد کرے گی۔؟ کبھی سوچتا ہوں کہ ہمیں غزہ پر بے چینی کا کام ان اقوام پر چھوڑ دینا چاہیئے، جو کچھ کرسکنے کی حیثیت میں ہیں۔ شائد ہمارا دشمن بھی یہی سوچتا ہو کہ کھاتے قرض لے کر ہیں، اپنے ملک کی سکیورٹی سنبھالی نہیں جاتی اور چلے ہیں دنیا کے مسائل حل کرنے۔ بہرحال جیسے بھی ہو، مظلوم کی حمایت نہیں رکنی چاہیئے اور یہ حمایت بصیرت کی بنیاد پر ہو، عادت کے تحت نہیں۔ حمایت مظلوم کا رسم ہونا بھی برا نہیں ہے، تاہم اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ حمایت آپ کے اخلاق کو تو بہتر بناتی ہے، تاہم اس سے مظلوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
میں آج فلسطین، مسلم امہ، مسلم حکمران، صمود فلوٹیلا پر کچھ نہیں لکھ رہا، جو الفاظ ادا کیے، ان کو شقشقیہ سمجھ کر درگرز فرمائیں۔ میرا آج کا موضوع معاشروں میں انقلاب اور ان کے اسباب و اہداف ہیں۔ اس تحریر کا سبب پاکستان کے ایک موقر انگریزی روزنامے "دی نیوز" کی چند روز قبل کی اشاعت میں بیسویں صدی کے انقلابوں کے حوالے سے شائع ہونے والا ایک کالم ہے۔ کالم نویس لکھتے ہیں: "بیسویں صدی کو انقلابوں کا دور کہا جاتا ہے، جس کا آغاز 1917ء کی روسی بالشویک انقلاب سے ہوا اور بعد ازاں مارکسزم سے متاثر کئی ممالک میں سیاسی، معاشی اور ثقافتی سطح پر بڑی تبدیلیاں آئیں۔ اسی صدی میں سامراجی نظام کے خاتمے سے کئی ایشیائی و افریقی ریاستیں آزاد ہوئیں، جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں، تاہم عوامی جمہوریہ چین کا قیام ان سب میں ایک بڑا واقعہ ہے۔
روسی انقلاب نے سوویت یونین کو جنم دیا، جو نصف صدی تک دنیا کی ایک سپر پاور رہا، مگر 1991ء میں ختم ہوگیا۔ کیوبا کا انقلاب علامتی حیثیت ضرور رکھتا ہے، مگر آج اس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ 1979ء کا ایرانی انقلاب ایک تاریخی موڑ تھا، جس نے مذہب کو تبدیلی کی قوت کے طور پر پیش کیا اور آیت اللہ خمینی کی واپسی نے مشرقِ وسطیٰ میں اسلامی مزاحمتی تحریکوں کو نئی جان بخشی۔" وہ مزید لکھتے ہیں: "چین کی انقلابی جدوجہد ماؤ کی قیادت میں کسانوں اور مسلح مزاحمت پر مبنی تھی۔ صدیوں پرانی تہذیب کے حامل اس ملک نے 19ویں صدی میں زوال کا سامنا کیا، لیکن 1949ء کے بعد آزادی اور خود مختاری حاصل کی۔ مغربی ناقدین ماؤ اور کمیونسٹ پارٹی کو آمریت اور انتہاء پسندی کا الزام دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انہی انقلابی اقدامات نے صدیوں کی ذلت کے بعد چین کو ایک مضبوط قوم بنایا اور اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھی۔
زرعی اصلاحات اور محنت کش صنعت کاری سے معیشت میں تیزی آئی اور 1960ء کی دہائی میں 3.4 فیصد سالانہ ترقی 1970ء کی دہائی میں 7.4 فیصد تک پہنچ گئی۔ بعد کے عشروں میں چین نے اوسطاً 10 فیصد سالانہ ترقی کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت، سب سے بڑا برآمد کنندہ، سب سے بڑا متوسط طبقہ اور دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوتوں میں جگہ بنا لی۔ آج چین اقتصادی اور عسکری دونوں لحاظ سے ایک عالمی طاقت ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت، دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک جو عالمی پیداوار کا 30 فیصد فراہم کرتا ہے، دنیا کی دوسری بڑی صارف منڈی، دنیا کے سب سے بڑے متوسط طبقے کا حامل ملک، سب سے بڑا برآمد کنندہ، دوسرا بڑا درآمد کنندہ اور 140 سے زائد ممالک و خطوں کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔"
میں اس موضوع پر ایک عرصے سے سوچ رہا ہوں، چین میں بر سر اقتدار جماعت کو دیکھا جائے تو وہ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجیت کی مخالف جماعت ہے، چین کا مقابلہ اسی قوت سے ہے، تاہم چین نے گذشتہ 76 برسوں میں اس خاموشی سے کام کیا کہ اب کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے۔ 90 کی دہائی کی بات ہے، میں سی این این کی نشریات باقاعدہ طور پر دیکھا کرتا تھا، امریکی نشریاتی ادارہ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، چین میں جمہور مخالف اقدامات کے حوالے سے باقاعدہ ڈاکومنٹریز پیش کرتا تھا۔ امریکیوں کو اندازہ تھا کہ چین مستحکم ہو رہا ہے، تاہم دوسری بڑی معیشت یا فوجی قوت بن رہا ہے، یہ شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ممکن ہے مغرب یہ سمجھتا ہو کہ چین اگر کچھ بن بھی جائے، وہ تنہا ہمارے عالمی تسلط کے لیے خطرہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کا انقلاب یا فکر نظریاتی توسیع کے بجائے قومی استعداد کے فروغ پر مرکوز ہے۔
ممکن ہے کہ بعض مغربی دانشور یہ سمجھتے ہوں کہ چین آج نہیں تو کل ضرور ہمارے مقابل آکھڑا ہوگا، تاہم ان کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دی گئی ہو یا پھر چین کا نظام کسی بھی اقدام کو روکنے کے لیے بروقت حرکت میں آیا ہو۔ بہرحال یہ فقط 76 برس کے عرصے میں تباہ شدہ معاشرے سے مادی ترقی کی امتیازی حیثیت تک پہنچنے کی ایک بے مثال داستان ہے، جو چینی قوم نے اپنی ہمت، محنت اور ذہانت سے رقم کی۔ ہانک کانگ، تائیوان چین کے حصے تھے، تاہم چین نے ان دونوں خطوں کے حصول کے معاملے کو سرد خانے کے سپرد کر دیا اور قوم ایک بڑے ہدف کے لیے سرگرم عمل رہی۔ برطانیہ سے معاہدے کے نتیجے میں ہانک کانگ از خود چین کی جانب لوٹ آیا۔ تائیوان کے معاملے پر چین کوئی فعال پیش رفت تو نہیں کرتا، تاہم اپنے اصولی موقف سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ اب چین اس حیثیت میں ہے کہ وہ ممالک جو تائیوان کو ایک الگ ریاست تسلیم کرتے ہیں، چین ان سے تجارتی اور سفارتی روابط کو منقطع کر لے۔ یہی سبب ہے کہ تائیوان چین سے جدا ہونے کے باوجود آج تک ایک الگ ریاست کی حیثیت کو عالمی سطح پر نہیں منوا سکا۔ باقی باتیں پھر کسی تحریر میں۔(ان شاء اللہ)