گلگت بلتستان کے ضلع استور میں اللّٰہ والی جھیل کے قریب بدترین سیلاب کے باعث پہاڑوں سے بڑے بڑے پتھر ریلے میں بہہ کر آبادی میں آگئے۔

سیلابی ریلا راستے میں آئی ہر رکاوٹ بہا لے گیا، کنارے پر ایک مکان بھی بہہ گیا، سیلاب سے زرعی زمین، فصلوں اور مکانوں کو نقصان پہنچا۔

خیبر پختونخوا میں بادل پھٹنے کے بعد سیلابی ریلے تباہی کی داستانیں چھوڑ گئے

بونیر میں مکینوں کے آشیانے اجڑ گئے، ہر طرف ملبے اور سیلابی ریلے میں بہہ کر آنے والے بڑے بڑے پتھروں کے ڈھیر لگ گئے ۔

گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ کے مطابق، حالیہ سیلاب سے گلگت بلتستان میں سات افراد جاں بحق اور گیارہ زخمی ہوئے، 4 اب تک لاپتہ ہیں، سیلابی ریلے سے نلتر ایکسپریس وے کا بڑاحصہ بہہ گیا، نلتر ویلی میں سیاح پھنس گئے۔

نلتر میں تین بجلی گھروں کو بند کردیا گیا، اسکردو میں شاہراہ بلتستان پر باغیچہ آر سی سی پُل بہہ گیا، لینڈ سلائیڈنگ کے باعث سڑک متعدد مقامات پر بند ہے، گانچھے میں سرمو پُل اور ضلع شگر میں بھی تین رابطہ پل دریا میں بہہ گئے۔

سیلاب سے 320 مکان تباہ اور تقریباً 700 کو جزوی نقصان پہنچا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: میں بہہ

پڑھیں:

ماحولیاتی تباہیوں سے بے گھر بچے ڈپریشن کا شکار ہوئے، ماہرین

لاہور:

عائشہ کی عمر صرف 14 برس ہے مگر اس کی آنکھوں نے اتنا سیلاب اور آلودگی دیکھی ہے کہ زندگی کے رنگ ماند پڑ چکے ہیں، وہ لاہور میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑی آسمان دیکھتی ہے تو اسے سورج نہیں، صرف زرد دھند دکھائی دیتی ہے،سانس لینا مشکل ہے۔ 

عائشہ اُن لاکھوں پاکستانی بچوں میں سے ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اولین اور سب سے کمزور متاثرین ہیں، عائشہ کے گھر کی طرح اسکول بھی حالیہ سیلاب میں تباہ ہو چکا۔

اسے ڈر ہے کہ اسموگ کے موسم میں کلاسیں پھر بند نہ ہو جائیں،کلینیکل سائیکالوجسٹ فاطمہ طاہرکہتی ہیں، ماحولیاتی تباہیوں کے باعث بے گھر ہونے والے بچوں کی نفسیات شدید متاثر ہوئی۔

سیلاب اور اسموگ سے متاثرہ علاقوں میں بے چینی، ڈپریشن اور صدمے کے بعد کے ذہنی دبائو، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا، تقریباً نصف متاثرہ بچے نیند، توجہ اور اعتماد کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ 

پاکستان کا موسم اب ایک بحران بن چکا ہے،درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ، سیلاب کی غیر معمولی شدت اور اسموگ کے طویل موسم نے بچوں کی فطری معصومیت کو متاثر کیا۔

قومی اور صوبائی سطح پر بننے والی بیشتر موسمیاتی پالیسیاں اب بھی توانائی، زراعت اور انفراسٹرکچر تک محدود ہیں،ان میں بچوں کا کوئی ذکر نہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ چائلڈپروٹیکشن بیورو اینڈویلفیئر بیورو کا ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچوں کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے کوئی کردار نظر نہیں آتاہے۔

سرچ فار جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افتخار مبارک کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر بچوں پر مرکوز موسمیاتی ایکشن پلان بنانے چاہییں، ہمیں بیانات نہیں، نتائج درکار ہیں۔

سماجی کارکن راشدہ قریشی کے مطابق موسمیاتی تبدیلی نہ صرف جسمانی بلکہ سماجی خطرات بھی بڑھا رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جاپان : ریچھوں سے بچاؤ کے لیے بھونکنے والے ڈرون تعینات
  • المجلس ویلفیئر گلگت کی جانب سے سیلاب متاثرین میں امدادی سامان کی تقسیم
  • جاپان میں بھالوؤں کو آبادی سے دور رکھنے کیلئے ’بھونکنے والے ڈرونز‘ تعینات
  • عمران خان سے ملاقات میں رکاوٹ، سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی
  • ماحولیاتی تباہیوں سے بے گھر بچے ڈپریشن کا شکار ہوئے، ماہرین
  • گلگت بلتستان اپیکس کمیٹی کا اجلاس، امن و امان بہتر بنانے کا عزم
  • گورنر گلگت بلتستان کا واٹس ایپ نمبر ہیک ہو گیا
  • پاکستان کو آبادی اور موسمیاتی تبدیلی کے 2 بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ، محمد اورنگزیب
  • آبادی اور موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہ لیا تو صورتحال سنگین ہوگی: وزیر خزانہ
  • ترقی کی رفتار بڑھانے کیلئے آبادی کا کنٹرول ناگزیر ہے: وزیر خزانہ