Express News:
2025-08-17@00:37:40 GMT

سانحۂ 17 اگست

اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT

17 اگست ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے‘ مگر17 اگست1988 کا دن ایک غیرمعمولی تاریخ ہے‘ یہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کا دن ہے۔ آج صدر جنرل محمد ضیاء الحق جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں تاہم وطن عزیز کو خانہ جنگی سے بچانے‘ اسلامی نظام زندگی کے عملی نفاذ کی کوشش کرنے والے‘ افغانستان میں جارحیت کے بعد پاکستان کے گرم پانیوں تک پہنچنے والے روس کو دریائے آمو کے پار دھکیلنے والے‘ راجیو گاندھی کے ماتھے کو خوف کے پسینے میں ڈبو دینے والے صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کا نام زندہ جاوید ہے.

افغانستان سے روس کی واپسی ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے، اس کھیل میں انھوں مہرے ایسی ترتیب سے لگائے کہ میخائیل گورپاچوف بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے‘ صدر ضیاء الحق جنیوا معاہدے کے خلاف تھے ‘ صدر جنرل محمد ضیاء الہق چاہتے تھے کہ روس کی واپسی سے پہلے افغانستان میں نئی افغان حکومت قائم ہوجائے‘ ان کے طیارے کے حادثے پر بھارت سمیت پاکستان کے ہر دشمن ملک میں جشن کا سماں تھا۔

ان میں اس قدر جرات تھی کہ انھوں نے دنیا کی سب سے بڑی قوت کے صدر کی امداد مونگ پھلی کہہ کر مسترد کردی‘ اس قدر بہادر لیڈر جب دنیا سے رخصت ہوا تو اس کے اثاثوں میں محض دو لاکھ کی رقم تھی اور کوئی کارخانہ‘ فیکٹری‘ ملز اور جاگیر ان کے نام نہیں تھی. 

صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے اہل پاکستان کے لیے تاریخ کے اوراق میں خوش گوار یادیں چھوڑی ہیں‘ وہ گیارہ سال تک پاکستان کے حکمران رہے‘ لہٰذا ملک میں ان کے ناقد بھی بہت ہیں اور ان کے حامی بھی بہت۔ جب جنرل محمد ضیاء الحق اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے پاس مکمل اختیار تھا‘ اس کے باوجود عاجزی انکساری کی مثال پیش کی. 

اسیر بلوچ راہنماؤں کو رہا کیا‘ ملک میں کاروبار زندگی بحال کیا‘اپنے عہد میں انھوں ملک میں اسلامی نظام کی عملی کوشش کی‘پاکستان کے سیاسی نظام کو کرپشن‘ بد دیانتی سے بچانے کے لیے آئین میں آرٹیکل62.63 جیسے آرٹیکل شامل کرائے‘ ملک کی خارجہ پالیسی کو متوان‘ مضبوط اور محفوظ بنایا‘ داخلی طور پر ملک میں امن قائم کیا. 

ان کے دور میں بلوچستان میں فوج کشی نہیں ہوئی بلکہ جو کچھ اس حوالے سے سیاسی ورثہ میں ملا تھا‘ 1950 میں جنرل محمد ضیاء الحق نے گائیڈ کیولری میں شمولیت اختیار کی دس سال تک اسی یونٹ میں رہے‘1955 کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی‘ اسی کالج میں انسٹرکٹر بھی رہے. 

انھوں نے رسالہ کی ایک کور‘ ایک آرمڈ بریگیڈ‘ ایک آرمز ڈویژن‘ اور ایک کور کی کمانڈ کی‘ جنرل محمد ضیاء الحق‘ سابق آرمی چیف جنرل گل حسن کے اسٹاف آفیسر بھی رہے‘ 52 سال کی عمر میں ملک کے آرمی چیف مقرر ہوئے.

مجھے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو بطور والد اور بطور حکمران دیکھنے کا موقع ملا ہے‘ وہ ایک کشادہ ظرف انسان تھے ان کی ذاتی زندگی کبھی بھی کسی قسم کے ہزیمت اور پشیمانی والے کام میں ملوث نہیں رہی تبلیغ اسلام ان کے ایمان کا حصہ تھا اور ان کی آرزو تھی کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے‘ آزاد خیالی اور لبرل ازم‘ مادر پدر آزادی کو مغربی معاشرے کے اثرات سے ملک کو بچانا چاہتے تھے. 

ان کے دامن پر کسی قسم کے کرپشن کے داغ تلاش نہیں کرسکا‘1979 میں ملٹری کونسل نے انھیں نشان امتیاز (ملٹری) دینے کا فیصلہ کیا مگر انھوں نے یہ پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ میری کاکردگی کے حسن اور قبیح کا فیصلہ تاریخ اور آیندہ آنے والی نسل پر چھوڑ دیجیے. 

وہ پانچ جولائی1977 سے 17 اگست 1988 تک ملک کے حکمران رہے‘17 اگست ان کی زندگی کا آخری اور پاکستانی قوم کے لیے قومی غم کا دن ثابت ہوا‘ اس روز ان کے طیارے کا حادثہ ہوا اور فوجی وردی میں وہ اس حادثے میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے. 

جائے حادثہ بہاول پور ہوائی اڈے سے تقریباً 9 کلو میٹر دور شمال مغرب کی جانب ہے‘ حادثے کی تحقیقات کے لیے اس وقت ائر کموڈور عباس کی سربراہی میں ایک بورڈ بنایا گیا‘ جس کی تحقیقات میں کہا گیا کہ طیارے کو باہر سے کسی نے نشانہ نہیں بنایا‘ جو کچھ بھی ہوا جہاز کے اندر سے ہی ہوا.

جس طرح جہاز گرنے سے قبل اوپر نیچے ہوا اور لڑ کھڑایا اس سے اندازہ یہی کیا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ پائلٹس کے ساتھ کوئی طبی صحت کامعاملہ ہوا ہو‘ طیارے کے حادثے کی تحقیقات کے لیے جسٹس شفیع کمیشن بھی بنایا گیا تھا‘ یہ سب کچھ ایک واقعاتی کہانی کا ہی مواد ہے‘ ہم بطور لواحقین آج تک مطمئن نہیں ہوسکے کہ طیارہ کیوں‘ کیسے گرا‘ اور اس حادثے کے اصل محرکات کیا تھے. 

اگر یہ سازش تھی تو یہ کہاں تیار ہوئی‘ کون اس میں ملوث رہا‘ کس نے کس کے کہنے پر منصوبہ بندی کی‘ بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے طیارے کا مقدمہ اب اللہ کی عدالت میں ہے‘ انھوں نے اس ملک کے لیے‘ قوم کے لیے اور ملت اسلامیہ کے لیے جو کچھ کیا اب وہ سب تاریخ کا حصہ ہے.

صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور شہدائے بہاولپور کا آج37 واں یوم شہادت ہے‘ یہ ساڑھے تین عشروں کا وقت کیسے گزرا‘ اور کس کرب سے ہم دوچار رہے ہیں‘ یہ المیہ سانحہ سے بڑھ کر ہے کہ آج بھی ہم اور شہید صدر کے لاکھوں چاہنے والے ان حقائق کی تلاش میں ہے جو حادثے کا سبب بنے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صدر جنرل محمد ضیاء الحق پاکستان کے انھوں نے ملک میں کے لیے

پڑھیں:

دبئی میں پاکستان کے 78ویں یومِ آزادی کی پرچم کشائی

دبئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 14 اگست2025ء) قونصلیٹ جنرل آف پاکستان دبئی میں 78ویں یومِ آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کی تقریب قومی جوش و ولولے سے منعقد ہوئی، جس میں پاکستانی کمیونٹی کے بڑی تعداد میں افراد شریک ہوئے۔ صدر، وزیراعظم اور نائب وزیراعظم پاکستان کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے۔

(جاری ہے)

قونصل جنرل حسین محمد نے تقریب میں شریک کمیونٹی کو خوش آمدید کہا اور حالیہ بیرونی جارحیت کے مقابلے میں پاکستان کی کامیابیوں، خصوصاً معرکۂ حق اور آپریشن بنیان المرصوص کو تاریخی کارنامے قرار دیا۔

انہوں نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو یو اے ای اور پاکستان کی ترقی میں اپنا تعمیری کردار جاری رکھنے کی تلقین کی۔ انہوں نے یو اے ای حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے 10 اگست کو دبئی ایکسپو سٹی میں Emirates Loves Pakistan اور پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کے اشتراک سے ہونے والی شاندار یومِ آزادی تقریبات کی کامیابی کو سراہا۔ تقریب میں پاکستان ایجوکیشن اکیڈمی دبئی کے طلباء نے ملی نغمے پیش کیے اور ایک کوئز مقابلہ بھی منعقد ہوا۔

متعلقہ مضامین

  • سیلابی ریلے سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع دالخراش اورافسوسناک سانحہ ہے ‘ نوازشریف
  • سینیٹر محمد اسحاق ڈار17 سے 19 اگست 2025 تک برطانیہ کا سرکاری دورہ کریں گے
  • سیلاب متاثرین کیلئے عارضی پناہ گاہیں بنائی جائیں: فضل الرحمن
  • مجید بریگیڈ کا دہشت گردوں کی فہرست میں آنا بھارتی سفارتکاری کے منہ پر طمانچہ ہے، انوار الحق کاکڑ
  • شارجہ فٹبال کلب اور جنرل ٹیک کا اسٹریٹیجک شراکت داری کا اعلان
  • 14 اگست تجدید عہد کا دن، پاکستان دفاع کرنا جانتا ہے: راغب نعیمی 
  • کویت میں زہریلی شراب کا سانحہ: 13 تارکین وطن جان کی بازی ہار گئے
  • صدر مملکت نے آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے 488 افسران اور جوانوں کو عسکری اعزازات سے نوازا
  • دبئی میں پاکستان کے 78ویں یومِ آزادی کی پرچم کشائی