پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کے لیے فیملی ہومز، ایک دیرینہ خواب کی تعبیر
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اگست 2025ء) سینتیس سالہ نبیلہ شجر قریب نو سال سے اپنے شوہر کے قتل کے جرم میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ قتل میں نے نہیں کیا تھا۔ جس نے کیا تھا، وہ ضمانت پر رہا ہو گیا۔ میرے پاس نہ کوئی رقم تھی اور نہ اچھا وکیل، کہ میری بھی ضانت ہو سکتی۔ میری تین بیٹیاں ہیں، جن کو میں نے نو برسوں سے نہیں دیکھا۔
بڑی بیٹی اب پندرہ برس کی ہو چکی ہے۔ ایک نو سال کا بیٹا بھی ہے، جو اسی جیل میں پیدا ہوا تھا۔ والدین زندہ نہیں اور رشتہ دار قطع تعلق کر چکے ہیں۔ جیل کے قوانین کے مطابق جب کوئی بچہ جیل میں پیدا ہوتا ہے، تو اس کی ماں کو سزائے قید میں سے تین سے پانچ سال تک کی معافی مل جاتی ہے۔ مجھے تو وہ بھی نہیں ملی۔(جاری ہے)
‘‘
اڈیالہ جیل میں نبیلہ شجر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ جب وہ اس جیل میں آئیں، تو وہاں حالات کافی خراب تھے۔
مگر سالہا سال سے خواتین قیدیوں کی فلاح کا کام کرنے والی ایک تنظیم ’’ویمن ایڈ ٹرسٹ‘‘ کی وجہ سے اب اس جیل میں حالات بہت بدل چکے ہیں۔ نبیلہ نے بتایا کہ اب اڈیالہ جیل میں کمپیوٹر لیب، لائبریری، لٹریسی کلاس، ہنر سیکھنے کا مرکز اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک نرسری بھی ہے اور وہ اسی نرسری میں گزشتہ چھ برسوں سے بطور ہیلپر کام کر رہی ہیں۔اس خاتون قیدی کا کہنا تھا، ’’فیملی ہومز میں قیدیوں کی ان کے اہل خانہ سے ملاقاتوں اور چند روز مل کر رہنے جیسی باتیں ہم کافی عرصے سے سن رہے ہیں۔ میرے لیے تو یہ ایک خواب ہی ہے۔ کاش ایسا ہو جائے، اور میں بھی اپنے بچوں سے مل سکوں۔‘‘
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں 13 سال سے قید زہرہ مہک کی عمر اس وقت 30 برس ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’مجھے دفعہ 302 یعنی قتل کے ایک مقدمے میں 25 سال قید بامشقت کی سزا ہوئی۔
میرا جرم ایک ایسی 11 سالہ لڑکی کا قتل تھا، جس کی ماں ہمارے گھر پر کام کرتی تھی۔ میرا ایک 12 سال کا بیٹا ہے، جو اسی جیل میں پیدا ہوا تھا۔ وہ جب تین سال کا ہوا، تو میں نے اسے اپنی والدہ کے حوالے کر دیا۔ اب وہ مجھے ہر مہینے ملنے آتا ہے۔‘‘زہرہ مہک کے مطابق اڈیالہ جیل میں اکثر جج، حکومتی شخصیات، انسانی حقوق کے کارکن اور دیگر اہم افراد قیدیوں کے مسائل سننے کے لیے آتے ہیں، تو ان کے استقبال کی خوب تیاریاں ہوتی ہیں۔
ایسی شخصیات آتی ہیں، تو وعدے، اعلانات اور زبانی تسلیاں سب کچھ سننے کو ملتا ہے، ’’لیکن عملی طور پر ہوتا کچھ بھی نہیں۔‘‘محض 17 برس کی عمر میں قیدی بن جانے والی زہرہ مہک نے بتایا کہ انہوں نے پچھلے بارہ تیرہ برسوں میں بہت سے اعلانات سنے ہیں، ’’کہا گیا تھا کہ یہاں صنعتیں لگائی جائیں گی، جن کی مزدوری ہمیں ملے گی۔
ایسا نہیں ہوا۔ سہولتوں کے بجائے ہماری صوبائی معافی ختم کر دی گئی۔ منشیات سے متعلقہ جرائم میں ملوث قیدیوں کے لیےعام معافی بھی ختم کر دی گئی۔ اس لیے میرے خیال میں تو نہ یہاں کوئی فیملی ہومز بنے ہیں اور نہ بنیں گے۔‘‘ صوبائی محکمہ داخلہ کا اعلانپاکستانی صوبہ پنجاب کے محکمہ داخلہ کے ترجمان کے ذریعے کیے گئے ایک حالیہ اعلان کے مطابق صوبائی جیلوں میں قائم کیے گئے فیملی ہومز میں آئندہ پانچ سال سے زائد مدت کی سزا کاٹنے والے قیدی سال میں تین بار، اور ہر بار مسلسل تین دن اپنی اہلیہ اور چھ سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ جیلوں کے اندر ایسے ہومز میں قیام کر سکیں گے۔
یہ فیملی ہومز ایک کمرے، کچن اور باتھ روم کی سہولت کے ساتھ قائم کیے گئے ہیں۔ ان گھروں کی تعمیر کا آغاز 11 سال قبل ہوا تھا۔ تاہم مالی مشکلات کے باعث گزشتہ 11 برسوں میں یہ سہولت صرف چند جیلوں میں ہی مہیا کی جا سکی۔ اب تک ایسے فیملی ہومز لاہور، ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی کی جیلوں میں قائم کیے جا چکے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ایسے فیملی ہومز یا فیملی رومز میں قیام کے دوران قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کو کھانے کی سہولت بھی مفت فراہم کی جائے گی۔
اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کسی بھی قیدی، یا اس کی اہلیہ یا شوہر کو جیل سپرنٹنڈنٹ کو باقاعدہ درخواست دینا ہو گی، جس کے بعد متعلقہ ڈپٹی کمشنر سے تحریری منظوری حاصل کرنا بھی لازمی ہو گا۔راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں اس حوالے سے صورت حال کیا ہے، یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے اس جیل کے سینئر سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور انجم سے گفتگو کی، تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت اس جیل میں 8000 سے زائد قیدی موجود ہیں۔
ان میں خواتین کی تعداد 280 ہے۔ مجموعی طور پر اس جیل میں قید سزا یافتہ افراد کی تعداد قریب 1300 بنتی ہے جبکہ پانچ سال سے زیادہ مدت کی سزا پانے والوں کی تعداد اس سے بھی کم ہے۔ ’’اس لیے یہ تاثر غلط ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس وجہ سے فیملی رومز میں قیام اور ملاقات ایک مشکل مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔‘‘عبدالغفور انجم نے کہا، ’’سترہ جولائی 2023 کو فیصل آباد میں پہلی بار فیملی رومز میں 92 خاندانوں نے ملاقاتیں کیں۔
ملتان میں بھی اس منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے۔ راولپنڈی میں، جہاں کوشش کے باوجود اس سہولت پر اب تک عمل نہ ہو سکا تھا، اب فیملی رومز کے طور پر ایک علیحدہ جیل بنائی گئی ہے۔ ان فیملی رومز میں جدید سہولیات میسر ہیں اور اگلے ماہ ستمبر کے پہلے ہفتے سے یہاں بھی فیملی ری یونین شروع ہو جائے گی۔ پہلے مرحلے میں یہ سہولت صرف مرد قیدیوں کو دی جائے گی لیکن پھر اس کا اطلاق خواتین قیدیوں پر بھی کیا جائے گا۔‘‘ قیدیوں کو درپیش تین مراحلعبدالغفور انجم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک عام قیدی تین مراحل کا سامنا کرتا ہے۔ پہلا مرحلہ جب جیل میں قید کے دوران اس کے خلاف مقدمہ چلتا ہے۔ دوسرا جب اس کو سزا سنائی جاتی ہے۔ لیکن تیسرا اور اصل مرحلہ تب شروع ہوتا ہے، جب وہ سزا کاٹنے کے بعد واپس گھر جاتا ہے۔ تب اسے نہ کوئی نوکری ملتی ہے اور نہ ہی عزت۔
اس مشکل مرحلے سے نمٹنے کے لیے قیدیوں کو جیل میں ایسے ہنر سکھائے جا رہے ہیں، جن کی مدد سے وہ اپنا کوئی چھوٹا سا کام شروع کر کے معاشرے کے فعال افراد بن سکتے ہیں۔جیلوں میں قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے فعال ایک تنظیم، ویمن ایڈ ٹرسٹ کی جیل کوآرڈینیٹر فوزیہ خالد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ 17 سال سے باقاعدگی سے اڈیالہ جیل کے دورے کر رہی ہیں۔
جیلوں میں فیملی ہومز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ’’پنجاب کی بڑی جیلوں میں قیدیوں کی ان کے اہل خانہ سے ایسی ملاقاتیں بہت امید افزا پیش رفت ہو گی۔ خاص طور پر ان خواتین کے لیے جو طویل عرصے سے قید ہیں۔ ایسی سہولت قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کی جذباتی، ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بھی بہتر ہو گی اور یوں ایسے سزا یافتہ مردوں، عورتوں اور ان کے اہل خانہ کو کئی طرح کے نفسیاتی، سماجی اور ذہنی مسائل سے بھی بچایا جا سکے گا۔‘‘فوزیہ خالد کے بقول پاکستانی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد اکثر گنجائش سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور وسائل بھی ناکافی ہوتے ہیں۔ اس لیے جیلوں میں قیدیوں کے لیے فیملی ہومز کے سلسلے میں امید ہی کی جا سکتی ہے کہ یہ پروگرام واقعی ایسے شہریوں کو لیے مؤثر ثابت ہو۔
ماضی کے ناکام تجرباتہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جنوبی پنجاب کے لیے کمپلیںٹ آفیسر انیلا اشرف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلی بار 2012 میں صوبائی وزیر اعلیٰ کے طور پر شہباز شریف نے سزا یافتہ قیدیوں کو ان کے اہل خانہ سے ملوانے کے لیے اس منصوبے کا آغاز کیا تھا، تو اڈیالہ جیل میں فیملی رومز کا باقاعدہ افتتاح بھی کیا گیا تھا۔
''لیکن افسوس کہ پھر اس منصوبے پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔‘‘انیلا اشرف کے مطابق، ’’ملتان جیل میں بھی ابتدائی طور پر بارہ فیملی رومز بنائے گئے تھے۔ ان کی تعمیر کے بعد اس منصوبے کو پھر بند کر دیا گیا۔ 2021 میں دوبارہ اس منصوبے کا اعلان کیا گیا، لیکن تب بھی صرف نعرے بلند کیے گئے۔ کوئی طریقہ کار طے نہ کیا گیا کہ کیا کچھ کیسے ممکن ہو گا؟ اس وقت پنجاب کی جیلوں میں مجموعی طور پر گنجائش سے تین گنا زیادہ قیدی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔
تو جن قیدیوں کا حق بنتا ہے، ان کی خاندانی ملاقاتوں کے لیے ضوابط کیا ہوں گے؟ یہ قدم انسانی حقوق کے حوالے سے اچھا ہے، اور اسے حقوق کی خلاف ورزی کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔‘‘ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی اس عہدیدار نے کہا کہ ایک ہی منصوبے کا بار بار اعلان کرنے کے بجائے اس پر عمل درآمد اور اس کے طریقہ کار پر توجہ دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا، ''فنڈز مہیا کیے جائیں اور جیلوں میں ان فیملی رومز کو عملاﹰ فعال بنایا جائے۔ قیدیوں کو بار بار امید دلا کر مایوس کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔‘‘
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جیلوں میں قیدیوں کی اڈیالہ جیل میں فیملی رومز میں ان کے اہل خانہ راولپنڈی کی نے ڈی ڈبلیو فیملی ہومز اس جیل میں قیدیوں کے قیدیوں کو کے مطابق انہوں نے بتایا کہ کی تعداد کیے گئے کے لیے ہے اور سال سے کی جیل
پڑھیں:
حماس کا غزہ میں سیز فائر تجویز پر عملدرآمد کا اعلان، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر آمادہ
حماس کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل غزہ پر اپنی جنگ ختم کرے اور اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا یقینی بنایا جائے تو وہ تمام اسرائیلی قیدیوں چاہے وہ زندہ ہوں یا ہلاک ہوچکے، کو رہا کرنے کے لئے تیار ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حماس نے ٹرمپ کی غزہ میں سیز فائر تجویز پر عمل درآمد کا اعلان کر دیا۔ خبر ایجنسی کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے کو تیار ہیں، اسرائیلی فوج کو غزہ سے مکمل انخلا کرنا ہوگا، حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر اپنا جواب ثالثوں کے پاس جمع کرا دیا ہے۔ خبر ایجنسی کے مطابق حماس نے ایک بیان میں کہا کہ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر اپنی آمادگی کی توثیق کرتے ہیں، لیکن فوری طور پر ثالثی ممالک کے ذریعے اس معاہدے پر بات چیت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ حماس نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ پر اپنی جنگ ختم کرے اور اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا یقینی بنایا جائے تو وہ تمام اسرائیلی قیدیوں چاہے وہ زندہ ہوں یا ہلاک ہوچکے، کو رہا کرنے کے لئے تیار ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ایک آزاد فلسطینی ماہرین (ٹیکنو کریٹس) پر مشتمل عبوری ادارے کو منتقل کرنے پر تیار ہے بشرطیکہ یہ ادارہ "فلسطینی قومی اتفاق رائے اور عرب و اسلامی حمایت" کی بنیاد پر تشکیل پائے۔ حماس کا مزید کہنا ہے کہ ٹرمپ منصوبے میں غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق سے متعلق دیگر امور کا فیصلہ ایک جامع فلسطینی قومی فریم ورک کے تحت ہوگا۔ حماس نے مطالبہ کیا کہ اس فریم ورک میں تمام فلسطینی دھڑوں کو شامل کیا جائے اور حماس بھی "ذمہ دارانہ کردار" ادا کرے گی، تمام فیصلے متعلقہ بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کے مطابق کیے جائیں گے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کی تجویز میں غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق سے متعلق جو دیگر نکات شامل ہیں، وہ ایک مشترکہ قومی مؤقف، بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
حماس نے کہا کہ ان معاملات کو ایک جامع فلسطینی قومی ڈھانچے کے تحت حل کیا جائے گا، جس میں حماس اپنی ذمہ دارانہ شرکت اور کردار ادا کرے گی۔ یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم کو غزہ جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے کے لیے ڈیڈ لائن دے تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہنا تھا کہ حماس کے پاس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے اتوار کی شام 6 بجے تک کا وقت ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ حماس کے پاس معاہدہ کرنے کا یہ آخری موقع ہے، معاہدے پر دیگر ممالک دستخط کرچکے ہیں، امریکی صدر نے حماس کو دھمکی دی کہ حماس معاہدہ نہیں کرسکی تو اس کو سخت نتائج بھگتنے پڑیں گے جبکہ معاہدہ کرنے سے حماس کے جنگجوؤں کی جان بچ جائے گی۔