اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا ہے جو فیل صوبے ہوتے ہیں جہاں کوئی منصوبہ بندی نہ ہو وہاں یہی تباہی ہوتی ہے۔تحریک انصاف والے نعرہ لگاتے تھے سارے چور ہیں ، سارے بے ایمان ہیں لیکن اب خیبر پختونخوا میں بھی بے ایمانی چل رہی ہے اور سینیٹ کی سیٹوں پر نورا کشتی ہوئی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا سینیٹ الیکشن کے معاملے پر ان کی چوری کھل کر سامنے آگئی ہے، دوسروں کو ڈاکو چور کہنے والے خود چور ہیں۔ عمران خان کیا کر رہے ہیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ 

سینیٹر فیصل واوڈا کا مزید کہنا تھا پاک فوج نے 14 اگست کو بلوچستان میں تباہی سے بچا لیا اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی سربراہی میں پاک فوج ملک کو بچاتی رہے گی جبکہ دہشت گردوں کے خلاف ملک میں آپریشن رکے گا نہیں بلکہ تیز ہوگا اور جو اس تسلسل کے بیچ میں آئے گا جتنا بڑا طرم خان ہوگا رگڑ دیا جائے گا۔

سابق ایم پی اے احمد خان بھچر کی نااہلی کیخلاف درخواست پر سماعت22اگست تک ملتوی 

آزاد سینیٹر فیصل واوڈا کی پارلیمنٹ ہاؤس میں گفتگو pic.

twitter.com/UOboXepP8Z

— A.Waheed Murad (@awaheedmurad) August 18, 2025

مزید :

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: سینیٹر فیصل واوڈا

پڑھیں:

عالمی فوجی طاقت کی نئی درجہ بندی: 2025ء کا منظرنامہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251119-03-4
دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی و دفاعی منظرنامے میں فوجی طاقت کا توازن تیزی سے نئی جہتیں اختیار کر رہا ہے۔ گلوبل فائر پاورکی 2025ء کی تازہ رپورٹ کے مطابق، امریکا ایک بار پھر دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ روس اور چین بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں، جب کہ بھارت چوتھے اور جنوبی کوریا پانچویں نمبر پر موجود ہیں۔ اس فہرست کے مطابق برطانیہ، فرانس، جاپان، ترکیے اور اٹلی چھٹے سے دسویں نمبر تک ہیں۔ قابل ِ ذکر امر یہ ہے کہ پاکستان نے 0.2513 کے ساتھ دنیا کی طاقتور ترین افواج میں بارہواں مقام حاصل کیا ہے، جب کہ اسرائیل پندرہویں نمبر پر ہے۔ یہ درجہ بندی کسی ایک عنصر پر مبنی نہیں بلکہ تقریباً 60 سے زائد مختلف عوامل کے مجموعی تجزیے سے حاصل کی جاتی ہے۔ ان میں فعال فوجی افرادی قوت، فضائی، زمینی و بحری صلاحیتیں، دفاعی بجٹ، قدرتی وسائل، جغرافیائی محل ِ وقوع، لاجسٹک انفرا اسٹرکچر اور معاشی استحکام شامل ہیں۔ گلوبل فائر پاور کی تشخیص کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جتنا پاور انڈکس کم ہوگا، اتنا ہی ملک طاقتور سمجھا جائے گا۔ تاہم یہ انڈیکس خفیہ عسکری صلاحیتوں، جوہری آبدوزوں یا انٹیلی جنس نیٹ ورک جیسے پہلوؤں کو مکمل طور پر شمار نہیں کرتا، لہٰذا اس درجہ بندی کو ایک جامع مگر محدود تجزیہ تصور کیا جانا چاہیے۔

امریکا بدستور نمبر ایک پر ہے، جس کا پاور انڈکس 0.0744 ہے۔ اس کی وجہ صرف دفاعی بجٹ نہیں بلکہ عالمی سطح پر پھیلے ہوئے فوجی اڈے، جدید ترین ٹیکنالوجی، اور مصنوعی ذہانت سے تقویت یافتہ عسکری نظام ہیں۔ روس اور چین، دونوں کا انڈیکس تقریباً 0.0788 ہے۔ روس اپنی زمینی افواج، آرٹیلری، اور قدرتی گیس کے ذخائر پر انحصار کرتا ہے، جبکہ چین نے انسانی وسائل، بحری بیڑوں، اور صنعتی صلاحیت کو دفاعی قوت میں بدلا ہے۔ بھارت نے اپنی بڑی فوج، خلائی پروگرام اور دفاعی سرمایہ کاری کے باعث چوتھا مقام برقرار رکھا ہے۔ جنوبی کوریا کی اعلیٰ ٹیکنالوجی اور منظم عسکری ڈھانچے نے اسے پانچویں پوزیشن پر پہنچایا ہے۔

پاکستان کی فوجی درجہ بندی اس کے محدود وسائل کے باوجود قابل ِ فخر ہے۔ پاور انڈکس 0.2513 کے ساتھ پاکستان دنیا کی بارہویں طاقتور فوج ہے۔ اس کی مضبوطی کی بنیاد ایک وسیع افرادی قوت، تجربہ کار افواج، دفاعی شراکت داری (خصوصاً چین کے ساتھ) اور جغرافیائی اہمیت ہے۔ تاہم پاکستان کو چند چیلنجز درپیش ہیں۔ دفاعی بجٹ کا دباؤ، معاشی کمزوری، قرضوں کا بوجھ، اور جدید ٹیکنالوجی میں تاخیر۔ اس کے باوجود پاکستانی فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مثالی کارکردگی دکھائی اور اپنی آپریشنل صلاحیتوں کو برقرار رکھا۔ دنیا کی فوجی ترجیحات اب روایتی اسلحے سے نکل کر ٹیکنالوجی پر مبنی جنگی ماڈلز کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت، ڈرون ٹیکنالوجی، ہائپر سونک میزائل، اور سائبر ڈیفنس اب دفاعی حکمت ِ عملی کے بنیادی ستون بن چکے ہیں۔ امریکا اور چین جیسے ممالک ’’ملٹی ڈومین وارفیئر‘‘ کے تصور پر کام کر رہے ہیں، جس میں زمینی، فضائی، بحری، خلائی اور سائبر تمام محاذ ایک مربوط نظام میں شامل ہوتے ہیں۔ مستقبل کی جنگیں اب توپ و تفنگ سے زیادہ ڈیٹا، انفارمیشن اور الیکٹرونک کنٹرول پر منحصر ہوں گی۔ دفاعی قوت کا دارومدار صرف اسلحے پر نہیں بلکہ معاشی استحکام پر بھی ہے۔ اگر معیشت کمزور ہو تو مضبوط فوج بھی دیرپا نہیں رہ سکتی۔ امریکا اور چین کی طاقت کی اصل بنیاد ان کی اقتصادی قوت ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات اور معاشی پالیسی میں توازن قائم رکھیں تاکہ دفاعی ترقی، معاشی بوجھ نہ بنے۔

جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کا جغرافیہ عالمی فوجی توازن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بھارت، پاکستان، ایران اور اسرائیل کی دفاعی پوزیشنیں اس خطے کے امن و استحکام پر براہِ راست اثر ڈالتی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان عسکری توازن برقرار رکھنا خطے کے امن کے لیے ناگزیر ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کی ٹیکنالوجی پر مبنی فوجی حکمت ِ عملی اسے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نمایاں طاقت بناتی ہے۔ عالمی رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ آئندہ دہائیوں میں سائبر وارفیئر، مصنوعی ذہانت، خلائی نگرانی، اور ڈرون ڈیفنس سسٹمز فوجی طاقت کے بنیادی عناصر ہوں گے۔ وہ ممالک جو ان میدانوں میں بروقت سرمایہ کاری کریں گے، عالمی سطح پر بالادست رہیں گے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دفاعی صنعت کو مقامی بنائے، تحقیق و ترقی میں سرمایہ لگائے، اور تعلیم و ٹیکنالوجی کو فوجی ترقی کے ساتھ جوڑے۔ فوجی طاقت کا مطلب صرف ہتھیاروں کی کثرت نہیں، بلکہ حکمت، ٹیکنالوجی، معیشت اور سفارت کے درمیان توازن ہے۔ گلوبل فائر پاورکی 2025ء کی فہرست ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ طاقت اب صرف بارود سے نہیں بلکہ علم، معیشت، اتحاد اور نظم سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا کے لیے اصل چیلنج یہ نہیں کہ کون زیادہ طاقتور ہے، بلکہ یہ ہے کہ کون اپنی طاقت کو امن، ترقی اور استحکام کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • عالمی فوجی طاقت کی نئی درجہ بندی: 2025ء کا منظرنامہ
  • کراچی کو جان بوجھ کر تباہی کے راستے پر دھکیلا جا رہا ہے، ایڈووکیٹ حسنین علی
  • عمران خان اپنی منصوبہ بندی پارٹی کو دے چکے،اب پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے؛ علیمہ خان
  • ریاست سے کوئی بھی فرد یا گروہ طاقتور نہیں ہوسکتا، کاشف سعید شیخ
  • اگر انتخاب مکمل طور پر آزادانہ اور منصفانہ ہوتے تو مزید سیٹوں پر فتح حاصل ہوتی، مایاوتی
  • تحریک اچانک شروع نہیں ہوتی، اِن شاءاللّٰہ تحریک چلے گی: سینیٹر علی ظفر
  • میرے دل میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں، طلحہ انجم کا بھارتی پرچم لہرانے پر تنقید کا جواب
  • ووٹ چوری پر صحافی پیوش مشرا کا سنسنی خیز انکشاف، کانگریس نے ویڈیو جاری کردی
  • خیبرپی کے : ہر دہشتگردی میں افغان باشندے ملوث ہوتے ہیں : فیصل کنڈی 
  • سارے بچے من کے اچھے