حقیقت "گریٹر اسرائیل" کی نہیں بلکہ "مسترد شدہ اسرائیل" کی غمازی کرتی ہے، اردن
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
اپنے لبنانی ہم منصب کیساتھ ملاقات میں اردنی وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ حقیقت؛ نام نہاد "گریٹر اسرائیل" کے وہم کی حمایت نہیں کرتی، بلکہ اس کی روشنی میں اسرائیل؛ اپنی سفاکانہ و انتہا پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے مسترد شدہ، تنہا، جنگ زدہ اور محصور ہے! اسلام ٹائمز۔ اردنی وزیر اعظم جعفر حسن نے اعلان کیا کہ ہے حقیقت نام نہاد "گریٹر اسرائیل" کے وہم کو نہیں پہچانتی بلکہ حقیقت کی روشنی میں اسرائیل سے مراد ایک ایسی جعلی ریاست ہے کہ جو اپنی "سفاکانہ" اور "انتہا پسندانہ" پالیسیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مسترد شدہ، تنہاء، جنگ زدہ اور محصور ہو چکی ہے۔ الشرق الاوسط کے مطابق، اپنے لبنانی ہم منصب نواف سلام کے ساتھ ملاقات میں جعفر حسن کا کہنا تھا کہ ہم ایسے خوابوں و عزائم کے بارے سن رہے ہیں کہ جن کا مقصد لامتناہی جنگ کو تسلسل دینا ہے، جیسا کہ اسرائیل میں انتہا پسند سیاستدانوں کے درمیان ایک "عظیم تر اسرائیل" کے بارے موہوم تصورات کا اظہار کیا جا رہے۔
تفصیلات کے مطابق عمان کے دورے پر آئے لبنانی وزیر اعظم نواف سلام کے ساتھ گفتگو میں اردنی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہمیں دو منصوبوں کا سامنا ہے؛ پہلا منصوبہ جس کو ہم تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ حکومت کی خودمختاری کو وسعت دینے، استحکام لانے اور عوامی ترقی و خوشحالی کے لئے حکومت کو بااختیار بنانے پر مبنی ہے جبکہ دوسرا منصوبہ ایک ایسی جنگ اور تنازعات کے تسلسل کی کوششوں پر مبنی ہے کہ جو نفرت کو مزید گہرا کرتے ہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ شاہ اردن عبداللہ دوم کی ہدایات میں ہمیشہ اردن کے برادر ملک لبنان کے ساتھ کھڑے ہونے اور اس کی خودمختاری، سلامتی، استحکام و خوشحالی کی حمایت کرنے سمیت پورے لبنان میں قومی اداروں و خودمختاری کو مضبوط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
اسرائیل اور امریکہ گریٹر اسرائیل کے لئے عراق میں انتشار چاہتے ہیں، امام جمعہ بغداد
آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے مؤقف کا ذکر کرتے ہوئے امام جمعہ نے کہا کہ انہوں نے حکم دیا ہے کہ انتخابات میں شرکت ضروری ہے، یہ ذوق و شوق کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ایک ذمہ داری ہے جو ہر شہری کے کندھوں پر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عراقی دارالحکومت بغداد کے نماز جمعہ کے امام آیت اللہ سید یاسین الموسوی نے عراق میں افراتفری پھیلانے کی سازش کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ انہوں نے آئندہ پارلیمانی انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ان میں عراقی عوام کی بھرپور شرکت کو ملک اور خطے کے موجودہ حساس حالات میں ایک ناقابل تردید ضرورت قرار دیا۔ آیت اللہ سید یاسین الموسوی نے آئندہ پارلیمانی انتخابات اور ان میں عراقی عوام کی بھرپور شرکت کو ملک اور خطے کے موجودہ حساس حالات میں اہم اور ناقابل تردید ضرورت قرار دیا اور کہا کہ عراقی عوام کو چاہیے کہ وہ آئندہ انتخابات میں اتحاد اور یکجہتی کو نشانہ بنانے والے منصوبوں سے ملک کی حفاظت کریں۔
آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے مؤقف کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے حکم دیا ہے کہ انتخابات میں شرکت ضروری ہے، یہ ذوق و شوق کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ایک ذمہ داری ہے جو ہر شہری کے کندھوں پر ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ملک کو تباہی اور افراتفری کی طرف لے جانے کی سازش کی جاری ہے،ایسی سازش جس کو امریکہ اور اسرائیل گریٹر اسرائیل منصوبے کے فریم ورک میں کامیاب بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آیت اللہ سید علی سیستانی کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کے بارے میں حکم کی کوئی حقیقت نہیں،یہ الفاظ خالص جھوٹ اور بہتان ہیں، ان کا دفتر ہر ایک کے لیے کھلا ہے اور کوئی بھی براہ راست ان دعووں کی سچائی کی تصدیق کر سکتا ہے۔
الموسوی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ میں اپنے بیانات میں آزاد ہوں لیکن میں دینی فریضہ اور حاکمیت کی پیروی کرتا ہوں، مزید کہا کہ میں آیت اللہ سیستانی کی طرف کوئی لفظ منسوب نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود نہ کہیں۔ بغداد میں نماز جمعہ کے امام نے کہا کہ آیت اللہ سید علی سیستانی نے کبھی بھی لوگوں سے کسی مخصوص شخص یا تحریک کو ووٹ دینے کے لیے نہیں کہا ہے، بلکہ یہ کہ حتمی فیصلہ اور انتخاب ووٹرز کی ذمہ داری ہے اور اسے میرٹ اور پاکیزگی کے معیار کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے شہید سید ہاشم صفی الدین کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں ایک متقی، پرہیزگار اور بہادر شہید قرار دیا۔ بین الاقوامی تناظر میں، الموسوی نے ایران، سعودی عرب، مصر، کویت، لبنان، حتیٰ کہ قطر سمیت عراق اور پورے خطے کے خلاف خطرناک منصوبوں کے بارے میں خبردار کیا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ عراق اور ایران کو نقصان پہنچانے اور تہران کی حکومت کو سیکولر اور مذہب مخالف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی طرح حشد الشعبی اور سید علی سیستانی کی شخصیت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بعض مساجد میں پھیلنے والے "تعارف سلفیت کے منصوبے" کے خطرے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ رجحان امریکہ کے مقرر کردہ حکمران کی مطلق اطاعت کو فروغ دیتا ہے اور اتھارٹی اور مذہبی علماء کی نفی کرتا ہے، چاہے شیعہ ہوں یا سنی"۔ الموسوی نے اس منصوبے کو عراق اور خطے کو سابق حکومت کے زوال اور مذہبی تشخص اور حسینی روایات کے خاتمے سے پہلے کے دور کی طرف لوٹنے کی کوششوں کا تسلسل قرار دیا۔