WE News:
2025-09-18@19:34:39 GMT

فلک بوس کرایے اور زمین بوس سیاحت

اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT

فلک بوس کرایے اور زمین بوس سیاحت

مقامی اسکول ٹیچر حامد اپنے خاندان کے 5 افراد کے ساتھ راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ وہ اپنی والدہ کی میت کو اسکردو نہ لے جا سکا، کیونکہ شدید سیلاب کے باعث شاہراہ ریشم کے مختلف مقامات پر بند ہونے کی وجہ سے سڑکیں بند تھیں۔

اس کے لیے واحد آپشن رہ گیا ہوائی سفر۔  لیکن وہ ایئر لائنز کے زیادہ قیمت والے ٹکٹوں کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ جب اس کے لیے کوئی چارہ نہ بچا تو اس نے اپنی والدہ کو راولپنڈی کے قبرستان میں دفن کر دیا۔

اسکردو سے میری والدہ کی تدفین دیکھنے کوئی نزدیکی رشتہ دار نہیں آسکا اور میں ان کی تدفین کے لیے اکیلا ہی رہ گیا تھا۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں، کیونکہ مقامی لوگ اور سیاح ٹکٹوں کے مہنگے ہونے کی وجہ سے اسلام آباد اور گلگت بلتستان یا کوارر وغیرہ کے درمیان ہنگامی طور پر ہوائی سفر نہیں کر سکے۔

مہنگے ہوای ٹکٹ ایک قومی المیہ بنتا جا رہا ہے۔

پاکستان دنیا کے خوبصورت ترین مناظر کا حامل ملک ہے۔ گلگت بلتستان اور اسکردو کی برف پوش چوٹیاں، گوادر کے پرسکون ساحل، اور کوئٹہ کی ثقافتی و قدرتی دلکشی۔

یہ مقامات ملکی اور غیر ملکی سیاحت کے لیے بے پناہ امکانات رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہوائی سفر کے بلند کرایے، خاص طور پر متوسط طبقے اور مقامی سیاحوں کے لیے، ان جگہوں کو محض خواب بنا دیتے ہیں۔

سیاحت اور ہوا بازی کا خلا ؟

حکومت بارہا سیاحت کو ترجیحی شعبہ قرار دیتی ہے، مگر اندرونِ ملک فضائی سفر کا کرایہ اس کے برعکس ایک مختلف کہانی سناتا ہے۔ اسلام آباد–گلگت، کراچی–اسکردو، کوئٹہ–کراچی اور کراچی–گوادر اور دیگر ساحلی علاقوں جیسے روٹس پر ٹکٹ کی قیمتیں بعض اوقات بین الاقوامی پروازوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر، سیاحتی سیزن کے دوران اسلام آباد سے اسکردو کا ایک طرفہ کرایہ اکثر 30 ہزار روپے سے تجاوز کر جاتا ہے، جو عام مسافروں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

یہی صورت حال گوادر اور کوئٹہ کے روٹس پر بھی دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں محدود پروازیں اور اجارہ داری کی فضا قیمتوں کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھتے والی ایک رکن اسمبلی نے گزشتہ دنوں اس نکتے کو بھی اٹھایا کہ کوئٹہ اسلام اباد کا کرایہ ایک لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔

 کیا یہ حکومتی ناکامی ہے؟

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA) فضائی ٹرانسپورٹ کی نگرانی، منصفانہ مسابقت اور مسافروں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ مگر اندرونِ ملک سیاحتی روٹس کے معاملے میں ادارہ نہ تو کرایوں پر مؤثر قابو پا سکا ہے اور نہ ہی سماجی و اقتصادی روٹس پر سبسڈی کے وعدے پورے کر پایا ہے۔

قومی ایوی ایشن پالیسی 2019 میں کم منافع بخش علاقوں میں سستی پروازوں کے لیے ایئرلائنز کو ترغیبات دینے کا اعلان کیا گیا تھا، مگر یہ وعدے عملی جامہ نہ پہن سکے۔ حال ہی میں جاری کی گئی 2024 کی پالیسی بھی مسافروں کو ناجائز کرایوں سے بچانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔

سیاحت اور مقامی معیشت پر منفی اثرات:

سلک روڈ  ٹور پاکستان کے بانی معید الرحمان کے مطابق بڑھتے ہوئے کرایوں کا سب سے بڑا نقصان ملکی سیاحت کو ہو رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں ہوٹل مالکان بتاتے ہیں کہ گاہکوں کی تعداد میں واضح کمی آئی ہے۔’ان کے مطابق آگر ریلوے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے کنٹرول کیئے جا سکتے ہیں تو ہوائی سفر کے کرائے میں حکومتی کنٹرول کیوں نہیں ہو سکتا۔

معروف کاروباری شخصیت عارف اسلم خان (سابق صدر ہوٹلز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان اور شنگریلا ریزورٹ اسکردو کے مالک) نے کھلے عام فضائی کرایوں پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ رجحان سیاحت کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

تربت پسنی اور  گوادر میں بھی یہی صورت حال ہے،  جہاں بلند کرایے ویک اینڈ ٹرپس اور فیملی ٹورز کو روکتے ہیں۔ کوئٹہ کی قدرتی خوبصورتی اور ثقافتی ورثہ بھی زیادہ تر لوگوں کے لیے محض سننے کی چیز بن چکی ہے۔ ان کے مطابق ایک تو اسلام آباد سے کوئی فلائٹ گوادر کے لیے ہے ہی نہیں، اور اپر سے کرایہ استغفراللہ ، کون جائے گا۔

مقامی ٹوار ازم کمپنی کی انٹر نیشنل کنسلٹنٹ مائدہ کے مطابق سیاحت صرف مناظر دیکھنے کا نام نہیں — یہ ہزاروں چھوٹے کاروباروں کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے۔

ہوٹلوں، ریستورانوں، دستکاروں اور گائیڈز کی آمدنی کا براہِ راست انحصار سیاحوں پر ہے۔ جب فضائی کرایے زیادہ ہوں گے تو سیاح کم آئیں گے، اور یہ مقامی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔ مزید برآں، مہنگے کرایے پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں ایک مسابقتی سیاحتی منزل کے طور پر پیش کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

ایوی ایویشن اور ٹورازم کے ماہرین اس  رجحان کو روکنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی بنانے کے لیے اقدامات کا نفاذ ضروری سمجھتے ہیں، جن میں:

سماجی و اقتصادی روٹس پر سبسڈی کی بحالی اور مؤثر نفاذ — کم منافع بخش سیاحتی روٹس پر ایئرلائنز کو حکومتی معاونت ملنی چاہیے تاکہ کرایے کم رہیں۔ سیاحتی روٹس پر کرایہ حدبندی (Fare Cap) — دیگر ممالک کی طرح کرایوں کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی جائے۔ مقابلے کو فروغ دینا — نئی ملکی ایئرلائنز اور کم لاگت والے کیریئرز کو سیاحتی روٹس پر لانے کی ترغیب دی جائے۔ موسمی کرایہ کنٹرول — سیاحتی سیزن میں ناجائز اضافے کو روکا جائے۔ سرکاری و نجی شراکت داری — ٹورازم بورڈز اور ایئرلائنز مشترکہ منصوبوں کے ذریعے اہم سیاحتی روٹس پر کرایے کم کرنے اور تشہیر کرنے کا کام کریں۔

افسر ملک، جو ایوی ایشن امور پر گہری نظر رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ کرایوں پر ایسی پابندی مسافروں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق 1992 سے پہلے پی آئی اے کی اجارہ داری تھی اور کرایے محض رسمی طور پر سی اے اے سے منظور ہوتے تھے۔

اوپن اسکائی پالیسی کے بعد نجی ایئرلائنز کو مقابلے کی اجازت ملی اور قیمتوں کا تعین طلب و رسد کے تحت ہونے لگا۔ تاہم ریاست کو ایئرلائنز کو کارٹیلائزیشن یا مصنوعی کرایہ سازی کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور ضرورت پڑنے پر سی سی پی کو مداخلت کرنی چاہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سیاحتی روٹس پر ایئرلائنز کو گلگت بلتستان ان کے مطابق اسلام آباد ہوائی سفر ایوی ایشن کے لیے

پڑھیں:

دریائے راوی کی زمین پر بنی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے متاثرین کو فی کس 2 کروڑ کے قریب واپس کردیے گئے

فائل فوٹو 

لاہور میں ملتان روڈ پر دریائے راوی کی زمین پر بنائی گئی مبینہ غیر قانونی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی  کے متاثرین کو 1 کروڑ 96 لاکھ روپے فی کس واپس کردیے گئے۔

ذرائع اینٹی کرپشن پنجاب کا کہنا ہے کہ غیر قانونی نجی سوسائٹی کے متاثرین کو 50 فیصد کیش، 50 فیصد کا چیک دیا گیا، ملزم پر دریا کے اندر 12 ہزار کنال زمین شہریوں کو دھوکے سے بیچنے کا الزام ہے۔

علی پور: باپ نے بیٹے کو سیلابی ریلے سے بچاتے ہوئے جان دے دی

مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں ہیڈ پنجند کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب آیا، علی پور کی مزید کئی بستیاں زیر آب آگئیں

حالیہ سیلاب میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹی کے تمام گھر سیلابی پانی میں ڈوب گئے تھے، روڈا اور ایل ڈی اے سے دریائے راوی کی زمین پر غیر قانونی سوسائٹیوں کا ریکارڈ طلب کرلیا گیا۔

ذرائع اینٹی کرپشن کا کہنا ہے کہ 400 سے زائد متاثرین نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کے خلاف شکایات دیں، غیر قانونی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کےخلاف چالان تیار کر لیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور مالدیپ کے درمیان تجارت، سیاحت و دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور
  • کیا زمین کی محافظ اوزون تہہ بچ پائے گی؟ سائنسدانوں اور اقوام متحدہ نے تازہ صورتحال بتادی
  • دریائے راوی کی زمین پر بنی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے متاثرین کو فی کس 2 کروڑ کے قریب واپس کردیے گئے
  • بارشوں اور سیلاب سے بھارتی پنجاب میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟
  • یوسف پٹھان سرکاری زمین پر قابض قرار، مشہور شخصیات قانون سے بالاتر نہیں، گجرات ہائیکورٹ
  • پنجاب حکومت نے ہڑپہ میوزیم میں چار نئی گیلریوں کا افتتاح کر دیا
  • گلگت بلستان کے ضلع شگر میں پاک فوج کے زیر اہتمام ماؤنٹینئرنگ سیمینار کا انعقاد
  • گلگت بلستان میں پاک فوج کے زیر اہتمام ماؤنٹینئرنگ سیمینار کا انعقاد