Express News:
2025-11-02@19:03:38 GMT

’پُھو پھو‘ ایسی بھی ہوتی ہیں!

اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT

’’پُھو پھو‘‘ پر اکثر لوگ بہت لطیفے بناتے ہیں، شگوفے سناتے ہیں۔ عام طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ ’پُھوپھو‘ ہمارے خاندان کا ایسا کردار ہوتا ہے، جو آپ کی خوشیوں میں کبھی خوش نہیں ہوتا، آپ کے خلاف بے سر و پا باتیں بناتا ہے۔

 دوسروں سے خوب لگائی بُجھائی اور عیب جوئی کرتا ہے، بات کا بتنگڑ بناتا ہے اور نہ جانے آپ کی زندگی وبال بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا پھرتا۔ ہمیں نہیں پتا کسی کی پُھوپھیاں شاید ایسی بھی ہوتی ہوں گی، ہم نے اپنے ہاں تو ایسا نہیں دیکھا۔ پُھوپھو کے اِس منفی تصور کو ’نند بھاوج‘ کے جھگڑے کی ایک توسیع کہا جاتا ہے۔ یعنی ہماری مائیں نندوں سے اپنی اَن بَن ہونے کا انتقام اپنے بچوں کو پھوپھیوں سے متنفر کر کے لیتی ہیں۔ مگر ہم نے اپنی امی سے بھی پوچھا، انھوں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔

ہوا یوں کہ 19 اگست 2025ء کو ہمارے دَدھیال پر پُھوپھو کی صورت میں سایہ فگن ایک شجر سایہ دار ہم میں نہیں رہا۔۔۔! جیسے ایک درخت ہمارے ماحول سے مُضر کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے ہمیں تازہ ہوا میسر کرتا ہے، ہمارے لیے وہ بالکل ایسی ہی تھیں۔

ہمارے سارے دکھ درد، مسائل اور پریشانیاں لے کر ہمیں ذہنی آسودگی اور فرحت کا احساس پہنچاتیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے شکوہ کیا تھا کہ ’یاد ہے تمھیں، کتنے دن سے کوئی کال نہیں کی؟‘ بس اس کے بعد سے ہم تقریباً ہر اتوار ہی کو انھیں فون کرنے لگے، کبھی ہم نہیں کر پاتے، تو ان کا بھی فون آجاتا ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!‘‘ کہہ کر مکمل سلام کرنے کا کیا توانا اور بھرپور انداز ہوتا تھا۔ جوں ہی ہمارے کانوں میں یہ آواز گونجتی، بس ایک لمحے میں جیسے زندگی بھر کے ساری الجھنیں اور سارے درد کافور ہو جاتے، جیسے دل کی گہرائیوں میں ایک سکون اتر گیا اور مشکل زندگی بہت سہل ہوگئی۔۔۔

گذشتہ منگل کو جس وقت اُن کا انتقال ہوا، عین اس وقت آسمان کے ضبط کا بندھن بھی گویا ٹوٹ گیا اور پھر شہر بھر میں بہت زور شور سے مینھ برسا۔ ہر کوئی اس طویل عرصے بعد ہونے والی بارش پر اظہار مسرت کر رہا تھا، لیکن یہاں ہمارا بہت عجیب عالم تھا۔

ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ ہر اچھا موسم ہر ایک کے لیے اچھا ہو، یہ بالکل بھی ضروری نہیں۔۔۔! ابھی فقط چند منٹ پہلے ’آئی سی یو‘ میں ان کی خیریت اور بہتر ہوتی طبیعت کا پیغام پا کر ایک اطمینان ہوا تھا کہ اچانک ان کے رخصت کی خبر نے ہم سب کو دَھلا کر رکھ دیا! ہمارے ابو اور امی کی ’آپا‘ اور ہماری بہت عزیز پھوپھو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اب ننّھیال کے بعد دَدھیال میں بھی ’آپا‘ کہہ کر پکارے جانے والی کوئی بڑی شخصیت باقی نہیں رہی!

جب تک ہمارے سروں پر ہمارے بڑے سلامت ہوں، تو زندگی میں بہت سہارا رہتا ہے اور پھوپھو تو ہمارے بڑوں کی بھی بڑی تھیں۔ ہمارے ابو ان کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں اور ان کی گودوں کے پلے ہوئے۔ کبھی ابو ہماری کوئی بات نہیں مانتے تو ہم پھوپھو سے اپنے ابو کی ’شکایت‘ بھی کر دیا کرتے، اور پھوپھو جب ان سے کچھ کہتیں، تو ابو بالکل کسی فرماں بردار بچے کی طرح سر جھکا کر ان کی ساری باتیں سنتے اور مِن وعَن عمل کرتے۔

پُھوپھو بحریہ ٹاؤن، کراچی میں رہائش پذیر تھیں، ہم فون پر جب انھیں کہتے کہ ’’کراچی سے رضوان بات کر رہے ہیں!‘‘ تو وہ خوب ہنستیں کہ بھئی میں بھی تو کراچی میں ہی ہوں۔ پہلے پھوپھو کا گھر ہمارے پرانے گھر سے ہی متصل تھا، درمیان میں چند فٹ کی چھوٹی سی ایک دیوار تھی، اس لیے وہ صرف ’رضوان‘ کر کے آواز دے کر ہمارے ہاں بات کرلیا کرتیں، کبھی کوئی کام کہنا ہوتا، کبھی کچھ بتانا اور کبھی کچھ پوچھنا ہوتا۔ ہمیں اس چھوٹی سی دیوار کے پار سے ایک دوسرے کی خیر خبریں بھی خوب رہا کرتی تھیں۔ رمضانوں میں افطاری ہو یا کوئی لین دین، اکثر وہ درمیانی روشن دان سے ہی ہاتھ اوپر کر کے کر لیتیں۔

کبھی ہماری دوسری پھوپھیاں یا پھوپھو کی بیٹیاں آئی ہوئی ہوتیں، تو ہمارے ہاں آنے کے لیے بیچ کا دروازہ کھول لیتے تھے، اس طرح سے پھوپھو کا ساتھ ہمارے گھر سے کبھی الگ نہیں رہا تھا۔ ایک دوسرے کے گھر کے سرد وگرم اور تلخی وترشی سے بہت آگاہی رہی۔ ان کے ہاں کوئی بھی مہمان آتا، تو ہمارے گھر میں بھی خبر ہو جاتی، کبھی وہ مہمان اس کے بعد ہمارے ہاں بھی آنا ہوتا، تو کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا تھا۔

یہاں تک کہ امی ہم بچوں کو گھر میں اکیلے بھی چھوڑ جاتی تھیں، ہمیں بھی کبھی ڈر نہیں لگتا تھا کہ برابر میں پھوپھو تو موجود ہیں، بس ایک آواز دے کر بہت آرام سے بات کر سکتے ہیں۔ ہر ہفتے جب ان کی بچیاں اور نواسے نواسیاں ماشااللہ رونق لگاتے، تو ہم سائے میں پھیلی یہ مَسرت، ہنسی اور مُسکراہٹ جیسے ہمارے آنگن تک بھی چھا جاتی تھی۔ ہم ان کے نواسے نواسیوں کی عمروں کے تھے، تو اس اعتبار سے بھی ہمارا آنا جانا رہتا۔

چُھٹی والے دن جب ہم اپنی اَنگنائی میں کرکٹ کھیلتے، تو اکثر بال پھوپھو کے ہاں چلی جاتی، لیکن انھوں نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی۔

پُھوپھو ہمارے پانچ تایاؤں کے بعد دنیا میں آئی تھیں، ان سے بڑی ایک پُھوپھی کم عمری میں وفات پاگئی تھیں۔ پُھوپھو نے اُنھیں بھی دیکھا ہوا تھا۔ پھوپھو نے ایک مرتبہ ہمیں بتایا تھا کہ 1947ء میں جب قائداعظم کراچی آئے، تو انھوں نے بندر روڈ پر سے کسی کے گھر سے ان کا استقبالیہ جلوس بھی دیکھا تھا۔

پھوپھو نے اپنی زندگی کے بہت سے نشیب وفراز بہت وقار اور نہایت صبر مندی کے ساتھ گزارے۔ ہم نے ان کے لبوں پر ہر لمحہ شکر گزاری اور دعائیں دیکھیں۔ ہمیں جب بھی پرانی باتیں جاننی ہوتی تھیں، تو جَھٹ پھوپھو سے دریافت کر لیتے تھے، اب بھی بُہتیری باتیں تھیں، جو ہمیں پھوپھو سے پوچھنی تھیں۔ گئے وقتوں کے کئی تذکرے تھے جو اُن سے کرنے تھے۔ ابو تقریباً ان کے بچوں کی ہی عمر کے ہیں، اس لیے ہمارے لیے تو وہ ہماری دادی ہی تھیں، وہ دادی، جنھیں ہم نے کبھی نہیں دیکھا، ہمیں ان کی شبیہہ ان کی پرچھائیں اُن میں بہ خوبی دکھائی دے جاتی تھی۔

ہمیں پُھوپھو سے بات کر کے ایک ’پناہ گاہ‘ کا سا احساس ہوتا۔ ان کی شفقت بھری آواز روح کے زخموں پر کسی پُرتاثیر مرہم کی طرح اثر کرتی تھی۔ وہ ہمارے خاندان میں رشتوں کو نبھانے والی، باتوں کو درگزر کرنے والی ایک باہمت ہستی تھیں۔ اسپتال میں داخل ہونے سے کچھ روز پہلے جب ان سے فون پر آخری بار بات ہوئی تو آواز میں روایتی کھنک سن کر ہمیں ان کی صحت کے حوالے سے بہت اطمینان ہوا تھا۔ چوں کہ ہمارا گھر اوپر کا ہے، اس لیے ابو نے ان سے کہا تھا کہ میں بحریہ ٹاؤن تو نہیں آسکتا، لیکن تم جگنو (پھوپھو کی بیٹی) کے ہاں آؤ، تو مجھے بتا دینا، ان شا اللہ ہمت کر کے وہاں ضرور آجاؤں گا۔

اور دیکھیے، چند ہی دن میں انھوں نے اپنا ’وعدہ وفا‘ کیا۔۔۔ وہ جگنو باجی کے ہاں آئیں۔۔۔ مگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے جانے کے بعد۔۔۔! عجیب بات ہے کہ 20 اگست کی صبح جب ہم انھیں نمازِ جنازہ کے لیے لے جا رہے تھے، تو وہیں کچھ فاصلے پر ایک بہت بڑا اور گھنا برگد کا پیڑ گرا ہوا تھا، جس کے وسیع حجم نے پوری چوڑی گلی کو اپنے احاطے میں لے لیا تھا۔ ہمیں یہ منظر بالکل اپنے خاندان کا لگا، بالکل ایسے ہی ہمارے خاندان کے آنگن کا ایک بہت ہی گھنا اور سایہ دار درخت آج گر چکا تھا اور اب زندگی کی کڑی دھوپ براہ راست ہم پر پڑ رہی ہے!

بس بتانے کا مقصد فقط یہ تھا کہ پُھوپھو ایسی بھی ہوتی ہیں، جو مرتے دَم تک اپنے خاندان بھر کے چھوٹوں اور چھوٹوں کے چھوٹوں کو بھی کھلے دل سے اپنے سائے میں سمیٹے رہتی ہیں۔ ان کی فکر کرتی ہیں اور ان کے لیے دعاگو رہتی ہیں۔

’آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!‘

اور اب ہمارے پاس کیا رہ گیا ہے، بس یہی کچھ یادیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور ان کے بچوں اور نواسے، نواسیوں نے اِن کی جو خدمت کی سعادت حاصل کی، اسے قبول فرمائے۔ آمین!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انھوں نے میں بھی ہوا تھا تھا کہ کے بعد بات کر کے لیے بھی ہو کے ہاں

پڑھیں:

مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان

مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

اقوام متحدہ: پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی سفارت کاروں کو لاجواب کر دیا، من گھڑت بھارتی دعوؤں کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے واضح کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے۔

جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کیے جانے پر بھارتی نمائندے کے ریمارکس کے جواب میں پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری سرفراز احمد گوہر نےجواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بھارت کے بلاجواز دعوؤں کا جواب دینے کے اپنے حقِ جواب (رائٹ آف رپلائی) کا استعمال کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں بھارتی نمائندے کی جانب سے ایک بار پھر دہرائے گئے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کونسل کے سامنے صرف چند حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔

سرفراز احمد گوہر نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کی یہ متنازع حیثیت اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری دونوں تسلیم کرتے ہیں، اقوامِ متحدہ کے تمام سرکاری نقشوں میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ دکھایا گیا ہے۔

سرفراز گوہر نے کہا کہ بھارت پر اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے اور کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت استعمال کرنے کی اجازت دے۔

انہوں نے کہا کہ بارہا، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنرز، خصوصی نمائندے، سول سوسائٹی تنظیمیں، اور آزاد میڈیا نے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری نے کہا کہ آج کے انتہا پسند اور ناقابلِ برداشت بھارت میں، سیکولرازم کو ہندوتوا نظریے کے بت کے سامنے قربان کر دیا گیا ہے، وہ ہندو بنیاد پرست عناصر جو حکومت میں عہدوں، سرپرستی اور تحفظ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اس کے مرکزی کردار ہیں، انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبات کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جینو سائیڈ واچ نے خبردار کیا ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔

انہوں نے جنرل اسمبلی کے صدر کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریاں پوری کرے، اور بھارتی نمائندے کو مشورہ دیں کہ وہ توجہ ہٹانے کے حربے ترک کرے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمحسن نقوی کا اسلام آباد کے دو میگا پراجیکٹس دسمبر کے اوائل میں کھولنے کا اعلان محسن نقوی کا اسلام آباد کے دو میگا پراجیکٹس دسمبر کے اوائل میں کھولنے کا اعلان طورخم سرحد غیرقانونی افغان شہریوں کی بے دخلی کیلئے 20 روز بعد کھول دی گئی چائنا میڈیا گروپ اور کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے اشتراک سے فکری و ثقافتی ہم آہنگی پر مبنی تقریب “انڈر اسٹینڈنگ شی زانگ ”... اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ، 27ویں ترمیم کی حمایت کردی پاکستان کو سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کیلئے کامیاب بولیاں موصول، ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری متوقع سہیل آفریدی کو وزیراعلی بننے پر مبارکباد، ملکر دہشت گردی کا مقابلہ کرینگے، وزیراعظم TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا میں اس وقت ایسی صورتحال نہیں کہ گورنر راج لگانا پڑے، فیصل کریم کنڈی
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • ہمارے بلدیاتی نمائندوں نے اختیارات سے بڑھ کر کام کرنے کا وعدہ پورا کیا‘ حافظ نعیم الرحمن
  • اسپینش فٹبال اسٹار لامین یامال ناقابل علاج انجری کا شکار
  • مجھے کبھی نہیں لگا کہ میں شاہ رُخ خان جیسا دکھائی دیتا ہوں، ساحر لودھی
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان
  • توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟
  • انصاف تک رسائی میں رکاوٹیں
  • کچے کے ڈاکو! پکے ہو گئے