Express News:
2025-09-18@13:53:01 GMT

’پُھو پھو‘ ایسی بھی ہوتی ہیں!

اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT

’’پُھو پھو‘‘ پر اکثر لوگ بہت لطیفے بناتے ہیں، شگوفے سناتے ہیں۔ عام طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ ’پُھوپھو‘ ہمارے خاندان کا ایسا کردار ہوتا ہے، جو آپ کی خوشیوں میں کبھی خوش نہیں ہوتا، آپ کے خلاف بے سر و پا باتیں بناتا ہے۔

 دوسروں سے خوب لگائی بُجھائی اور عیب جوئی کرتا ہے، بات کا بتنگڑ بناتا ہے اور نہ جانے آپ کی زندگی وبال بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا پھرتا۔ ہمیں نہیں پتا کسی کی پُھوپھیاں شاید ایسی بھی ہوتی ہوں گی، ہم نے اپنے ہاں تو ایسا نہیں دیکھا۔ پُھوپھو کے اِس منفی تصور کو ’نند بھاوج‘ کے جھگڑے کی ایک توسیع کہا جاتا ہے۔ یعنی ہماری مائیں نندوں سے اپنی اَن بَن ہونے کا انتقام اپنے بچوں کو پھوپھیوں سے متنفر کر کے لیتی ہیں۔ مگر ہم نے اپنی امی سے بھی پوچھا، انھوں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔

ہوا یوں کہ 19 اگست 2025ء کو ہمارے دَدھیال پر پُھوپھو کی صورت میں سایہ فگن ایک شجر سایہ دار ہم میں نہیں رہا۔۔۔! جیسے ایک درخت ہمارے ماحول سے مُضر کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے ہمیں تازہ ہوا میسر کرتا ہے، ہمارے لیے وہ بالکل ایسی ہی تھیں۔

ہمارے سارے دکھ درد، مسائل اور پریشانیاں لے کر ہمیں ذہنی آسودگی اور فرحت کا احساس پہنچاتیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے شکوہ کیا تھا کہ ’یاد ہے تمھیں، کتنے دن سے کوئی کال نہیں کی؟‘ بس اس کے بعد سے ہم تقریباً ہر اتوار ہی کو انھیں فون کرنے لگے، کبھی ہم نہیں کر پاتے، تو ان کا بھی فون آجاتا ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!‘‘ کہہ کر مکمل سلام کرنے کا کیا توانا اور بھرپور انداز ہوتا تھا۔ جوں ہی ہمارے کانوں میں یہ آواز گونجتی، بس ایک لمحے میں جیسے زندگی بھر کے ساری الجھنیں اور سارے درد کافور ہو جاتے، جیسے دل کی گہرائیوں میں ایک سکون اتر گیا اور مشکل زندگی بہت سہل ہوگئی۔۔۔

گذشتہ منگل کو جس وقت اُن کا انتقال ہوا، عین اس وقت آسمان کے ضبط کا بندھن بھی گویا ٹوٹ گیا اور پھر شہر بھر میں بہت زور شور سے مینھ برسا۔ ہر کوئی اس طویل عرصے بعد ہونے والی بارش پر اظہار مسرت کر رہا تھا، لیکن یہاں ہمارا بہت عجیب عالم تھا۔

ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ ہر اچھا موسم ہر ایک کے لیے اچھا ہو، یہ بالکل بھی ضروری نہیں۔۔۔! ابھی فقط چند منٹ پہلے ’آئی سی یو‘ میں ان کی خیریت اور بہتر ہوتی طبیعت کا پیغام پا کر ایک اطمینان ہوا تھا کہ اچانک ان کے رخصت کی خبر نے ہم سب کو دَھلا کر رکھ دیا! ہمارے ابو اور امی کی ’آپا‘ اور ہماری بہت عزیز پھوپھو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اب ننّھیال کے بعد دَدھیال میں بھی ’آپا‘ کہہ کر پکارے جانے والی کوئی بڑی شخصیت باقی نہیں رہی!

جب تک ہمارے سروں پر ہمارے بڑے سلامت ہوں، تو زندگی میں بہت سہارا رہتا ہے اور پھوپھو تو ہمارے بڑوں کی بھی بڑی تھیں۔ ہمارے ابو ان کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں اور ان کی گودوں کے پلے ہوئے۔ کبھی ابو ہماری کوئی بات نہیں مانتے تو ہم پھوپھو سے اپنے ابو کی ’شکایت‘ بھی کر دیا کرتے، اور پھوپھو جب ان سے کچھ کہتیں، تو ابو بالکل کسی فرماں بردار بچے کی طرح سر جھکا کر ان کی ساری باتیں سنتے اور مِن وعَن عمل کرتے۔

پُھوپھو بحریہ ٹاؤن، کراچی میں رہائش پذیر تھیں، ہم فون پر جب انھیں کہتے کہ ’’کراچی سے رضوان بات کر رہے ہیں!‘‘ تو وہ خوب ہنستیں کہ بھئی میں بھی تو کراچی میں ہی ہوں۔ پہلے پھوپھو کا گھر ہمارے پرانے گھر سے ہی متصل تھا، درمیان میں چند فٹ کی چھوٹی سی ایک دیوار تھی، اس لیے وہ صرف ’رضوان‘ کر کے آواز دے کر ہمارے ہاں بات کرلیا کرتیں، کبھی کوئی کام کہنا ہوتا، کبھی کچھ بتانا اور کبھی کچھ پوچھنا ہوتا۔ ہمیں اس چھوٹی سی دیوار کے پار سے ایک دوسرے کی خیر خبریں بھی خوب رہا کرتی تھیں۔ رمضانوں میں افطاری ہو یا کوئی لین دین، اکثر وہ درمیانی روشن دان سے ہی ہاتھ اوپر کر کے کر لیتیں۔

کبھی ہماری دوسری پھوپھیاں یا پھوپھو کی بیٹیاں آئی ہوئی ہوتیں، تو ہمارے ہاں آنے کے لیے بیچ کا دروازہ کھول لیتے تھے، اس طرح سے پھوپھو کا ساتھ ہمارے گھر سے کبھی الگ نہیں رہا تھا۔ ایک دوسرے کے گھر کے سرد وگرم اور تلخی وترشی سے بہت آگاہی رہی۔ ان کے ہاں کوئی بھی مہمان آتا، تو ہمارے گھر میں بھی خبر ہو جاتی، کبھی وہ مہمان اس کے بعد ہمارے ہاں بھی آنا ہوتا، تو کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا تھا۔

یہاں تک کہ امی ہم بچوں کو گھر میں اکیلے بھی چھوڑ جاتی تھیں، ہمیں بھی کبھی ڈر نہیں لگتا تھا کہ برابر میں پھوپھو تو موجود ہیں، بس ایک آواز دے کر بہت آرام سے بات کر سکتے ہیں۔ ہر ہفتے جب ان کی بچیاں اور نواسے نواسیاں ماشااللہ رونق لگاتے، تو ہم سائے میں پھیلی یہ مَسرت، ہنسی اور مُسکراہٹ جیسے ہمارے آنگن تک بھی چھا جاتی تھی۔ ہم ان کے نواسے نواسیوں کی عمروں کے تھے، تو اس اعتبار سے بھی ہمارا آنا جانا رہتا۔

چُھٹی والے دن جب ہم اپنی اَنگنائی میں کرکٹ کھیلتے، تو اکثر بال پھوپھو کے ہاں چلی جاتی، لیکن انھوں نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی۔

پُھوپھو ہمارے پانچ تایاؤں کے بعد دنیا میں آئی تھیں، ان سے بڑی ایک پُھوپھی کم عمری میں وفات پاگئی تھیں۔ پُھوپھو نے اُنھیں بھی دیکھا ہوا تھا۔ پھوپھو نے ایک مرتبہ ہمیں بتایا تھا کہ 1947ء میں جب قائداعظم کراچی آئے، تو انھوں نے بندر روڈ پر سے کسی کے گھر سے ان کا استقبالیہ جلوس بھی دیکھا تھا۔

پھوپھو نے اپنی زندگی کے بہت سے نشیب وفراز بہت وقار اور نہایت صبر مندی کے ساتھ گزارے۔ ہم نے ان کے لبوں پر ہر لمحہ شکر گزاری اور دعائیں دیکھیں۔ ہمیں جب بھی پرانی باتیں جاننی ہوتی تھیں، تو جَھٹ پھوپھو سے دریافت کر لیتے تھے، اب بھی بُہتیری باتیں تھیں، جو ہمیں پھوپھو سے پوچھنی تھیں۔ گئے وقتوں کے کئی تذکرے تھے جو اُن سے کرنے تھے۔ ابو تقریباً ان کے بچوں کی ہی عمر کے ہیں، اس لیے ہمارے لیے تو وہ ہماری دادی ہی تھیں، وہ دادی، جنھیں ہم نے کبھی نہیں دیکھا، ہمیں ان کی شبیہہ ان کی پرچھائیں اُن میں بہ خوبی دکھائی دے جاتی تھی۔

ہمیں پُھوپھو سے بات کر کے ایک ’پناہ گاہ‘ کا سا احساس ہوتا۔ ان کی شفقت بھری آواز روح کے زخموں پر کسی پُرتاثیر مرہم کی طرح اثر کرتی تھی۔ وہ ہمارے خاندان میں رشتوں کو نبھانے والی، باتوں کو درگزر کرنے والی ایک باہمت ہستی تھیں۔ اسپتال میں داخل ہونے سے کچھ روز پہلے جب ان سے فون پر آخری بار بات ہوئی تو آواز میں روایتی کھنک سن کر ہمیں ان کی صحت کے حوالے سے بہت اطمینان ہوا تھا۔ چوں کہ ہمارا گھر اوپر کا ہے، اس لیے ابو نے ان سے کہا تھا کہ میں بحریہ ٹاؤن تو نہیں آسکتا، لیکن تم جگنو (پھوپھو کی بیٹی) کے ہاں آؤ، تو مجھے بتا دینا، ان شا اللہ ہمت کر کے وہاں ضرور آجاؤں گا۔

اور دیکھیے، چند ہی دن میں انھوں نے اپنا ’وعدہ وفا‘ کیا۔۔۔ وہ جگنو باجی کے ہاں آئیں۔۔۔ مگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے جانے کے بعد۔۔۔! عجیب بات ہے کہ 20 اگست کی صبح جب ہم انھیں نمازِ جنازہ کے لیے لے جا رہے تھے، تو وہیں کچھ فاصلے پر ایک بہت بڑا اور گھنا برگد کا پیڑ گرا ہوا تھا، جس کے وسیع حجم نے پوری چوڑی گلی کو اپنے احاطے میں لے لیا تھا۔ ہمیں یہ منظر بالکل اپنے خاندان کا لگا، بالکل ایسے ہی ہمارے خاندان کے آنگن کا ایک بہت ہی گھنا اور سایہ دار درخت آج گر چکا تھا اور اب زندگی کی کڑی دھوپ براہ راست ہم پر پڑ رہی ہے!

بس بتانے کا مقصد فقط یہ تھا کہ پُھوپھو ایسی بھی ہوتی ہیں، جو مرتے دَم تک اپنے خاندان بھر کے چھوٹوں اور چھوٹوں کے چھوٹوں کو بھی کھلے دل سے اپنے سائے میں سمیٹے رہتی ہیں۔ ان کی فکر کرتی ہیں اور ان کے لیے دعاگو رہتی ہیں۔

’آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!‘

اور اب ہمارے پاس کیا رہ گیا ہے، بس یہی کچھ یادیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور ان کے بچوں اور نواسے، نواسیوں نے اِن کی جو خدمت کی سعادت حاصل کی، اسے قبول فرمائے۔ آمین!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انھوں نے میں بھی ہوا تھا تھا کہ کے بعد بات کر کے لیے بھی ہو کے ہاں

پڑھیں:

ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین

راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ کابینہ کا اجلاس یہاں نہیں کریں گے اس طرح اجلاس نہیں ہوتے، پنجاب حکومت کے بس میں کچھ نہیں وہ صرف راستہ روک سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ ملی، 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا اور عمران خان نے یہ ٹارگٹ دیا تھا۔ راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ کابینہ کا اجلاس یہاں نہیں کریں گے اس طرح اجلاس نہیں ہوتے، پنجاب حکومت کے بس میں کچھ نہیں وہ صرف راستہ روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے، 4، 5 گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کر رہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں، ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا، مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی۔ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ملاقات ہونے سے کلیئرٹی ہوتی ہے، یہ لوگ کلیئرٹی نہیں چاہتے، سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئیں، یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، ملاقات نہیں دیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں، میں چاہوں تو جیل جاسکتا ہوں لیکن جیل توڑنے سے کیا ہوگا۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پہاڑی تودے اور مٹی آئی تھی، بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا، ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے، متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے، ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، صوبے میں فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں لیکن کوئی خاطرخواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانا چاہیے تھی ،نہیں نبھائی، میں اس پر سیاست نہیں کرتا، ہمیں ان کی امداد کی ضرورت بھی نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھےاس لیے ملنے نہیں دے رہے ان کا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں، حکومت کی میں بات ہی نہیں کرتا، کیا آپ کو لگتا ہے یہ شہباز شریف کی یا مریم کی حکومت ہے، حکومت تو ان کی ہے نہیں۔

وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے دعویٰ کیا کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ ملی، 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا اور عمران خان نے یہ ٹارگٹ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ 4 اکتوبر کو بانی پی ٹی آئی نے کہا تھا سب نے آنا ہے، 4 اکتوبر کو پشاور سے نکلا اور 5 اکتوبر کو ٹارگٹ حاصل کرکے واپس لوٹا تھا، 24 سے 26 نومبر تک لڑائی لڑنا آسان نہیں تھا، 26 نومبر کو ہمارے لوگ گولیاں کھانے نہیں آئے تھے، حکومت نے شکست تسلیم کرکے گولیاں چلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • ن لیگ نے صوبائیت اورڈیم کارڈ کبھی نہیں کھیلا، عظمیٰ بخاری کا شرجیل میمن کے بیان پر ردعمل
  • ن لیگ نے صوبائیت اور ڈیم کارڈ کبھی نہیں کھیلا، عظمیٰ بخاری کا شرجیل میمن کے بیان پر ردعمل
  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  • امریکہ کی طرف جھکاؤ پاکستان کو چین جیسے دوست سے محروم کر دے گا،علامہ جواد نقوی
  • ’چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے‘
  • ’ایسی چیزیں قبول نہیں کروں گی‘، سیلاب زدگان کے لیے غیر معیاری سامان ملنے پر حدیقہ کیانی پھٹ پڑیں
  • زینت امان کو اپنا آپ کبھی خوبصورت کیوں نہ لگا؟ 70 کی دہائی کی گلیمر کوئین کا انکشاف
  • کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد شرمندگی اور خفت مٹانے کا طریقہ ہے: عطا تارڑ
  • ’ کیا میں ایسی عورت لگتی ہوں؟‘ تنوشری دتہ نے 1 کروڑ 65 لاکھ روپے کی بگ باس آفر فوراً  ٹھکرا دی
  • ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین