استقبالِ ربیع الاول، لاہور کی فضائیں 'مرحبا یا رسول اللہ ﷺ' کے نعروں سے معطر ہو گئیں
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
لاہور:
منہاج القرآن لاہور کے زیراہتمام استقبال ربیع الاول کا سالانہ مشعل بردار جلوس شالامار لنک روڈ پر شایانِ شان انداز میں نکالا گیا، جس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
جلوس کی قیادت ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، خرم نواز گنڈا پور، شہباز بھٹی، اقبال حسین باجوہ اور مفتی غلام اصغر صدیقی نے کی۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے جلوس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ولادتِ رسول ﷺ کی خوشی دنیا کی سب سے بڑی خوشی ہے، اور آپؐ سے سچی محبت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم آپؐ کی سیرت پر عمل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ نبی اکرم ﷺ کی آمد سے انسانیت کو امن، محبت اور اعتدال کا پیغام ملا۔
جلوس میں اونٹوں، بگھیوں اور گھوڑوں پر سوار عربی لباس میں ملبوس ننھے بچے درود و سلام پڑھتے رہے، جنہوں نے جلوس کو روح پرور منظر میں بدل دیا۔
شالامار لنک روڈ کے تاجروں نے جلوس کا شاندار استقبال کیا اور شرکاء پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔
جلوس میں انجینئر رفیق نجم، نوراللہ صدیقی، اقبال حسین باجوہ، ناظم علی رحمت سمیت دیگر رہنماؤں اور کارکنان نے بھرپور شرکت کی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
آفات کو اصلاح احوال کا موقع جانیں، پروفیسر ڈاکٹر حسن قادری
فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن کا کہنا تھا کہ جو سمندر حضرت موسیٰ کی اُمت کیلئے راستہ بنا فرعون اور حواری اسی میں غرق ہوئے، سچی توبہ کر لیں قدرت کاملہ سے یہی سیلاب اور بارشیں نفع بخش بن جائیں گی، آپؐ کی بعثت کا مقصد انسانوں کے اخلاق و کردار سنوارنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ایک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقدہ فکری نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آفات اور تکالیف کو اصلاح احوال کا موقع جانیں، سچی توبہ کر لیں قدرت کاملہ سے یہی سیلاب اور بارشیں نفع بخش بن جائیں گی، جو سمندر حضرت موسیٰ ؑاور ان کے فرمانبردار امتیوں کیلئے راستہ بنا فرعون اور اس کے حواری اسی سمندر میں غرق ہو گئے۔ آپؐ کی بعثت کا مقصد انسانوں کے اخلاق و کردار سنوارنا اور انہیں گناہوں کی زندگی سے تائب کرنا تھا۔ انہوں نے فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب اخلاق رذیلہ غلبہ پا لیں تو پھر آسمان سے آفات نازل ہوتی ہیں اور انسانی نظم و نسق، معیشت اور معاشرت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ آج عالم اسلام وسائل کی کثرت کے باوجود انجانے خوف، عدم استحکام، بے اطمینانی اورآفات سے دوچار ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج اُمت بدامنی، بیروزگاری، قدرتی آفات، غربت، بھوک، انجانے دشمن کی دہشت کے خوف میں مبتلا ہے مگر اس کے باوجود کوئی اصلاح احوال کی طرف متوجہ ہونے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپؐ نے زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے اخلاق کی ترغیب و تعلیم دی اور ہر اس عادت اور عمل سے منع فرمایا جو اللہ کی نافرمانی، فرائض و واجبات کی ادائیگی سے روکے اور دلوں کو فساد اور بگاڑ کا مسکن بنائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال سیلاب آتے ہیں، لاکھوں لوگوں کامال و اسباب پانی میں بہہ جاتا ہے، پل جھپکتے محلات والے سڑکوں پر آ بیٹھتے ہیں، مشکل کی گھڑی میں لوگ رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں مگر کتنے لوگ ہیں جو ان آزمائشوں کے بعد سچے دل کے ساتھ اصلاح احوال اور اللہ کی طرف لوٹ جانے کا مصمم عہد کرتے ہیں؟۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کی وبا آئی اور اس نے زندگی کا پہیہ جام کر دیا، لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو گئے، لوگ بیماریوں کی وجہ سے مرنے لگے، ہر طرف خوف اور یاس کا عالم تھا، سوال یہ ہے کہ وباء کے خاتمے پر من حیث الجموع کتنے لوگ تائب ہوئے اور انہوں نے گناہ کی زندگی کو ترک کرنے کا ارادہ کیا؟ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اللہ کی طرف نہیں لوٹیں گے، گناہوں سے تائب نہیں ہوں گے تو پھر قدرتی آفات اور سیلاب مسلط ہوتے رہیں گے اور دشمن کا خوف ہماری نیندوں کو اُڑائے رکھے گا۔