WE News:
2025-09-18@17:16:28 GMT

’فارسی کوریڈور‘

اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT

ہمارے ہاں یہ تو سب جانتے ہیں کہ ایران اور امریکا کے بیچ کشمکش ہے۔ اور اس کشمکش میں ایران کو چونکہ روس کی پشت پناہی بھی میسر ہے، سو ایران کے حوالے سے روس اور امریکا کے بیچ بھی ایک سرد سی صورتحال چلتی آرہی ہے۔ مگر جب موقع آتا ہے یہ سمجھنے کا آخر ایران عالمی طاقتوں کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟ وہ اسے اس کے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟ تو کوئی کہتا ہے، یہ کشمکش ایرانی انقلاب اور اس کے نتیجے میں تہران میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے ہے۔ اور کوئی کہتا ہے، ایران روس کے لیے دفاعی اہمیت رکھتا ہے سو امریکا کو ایران اسی حوالے سے درکار ہے۔ اور اگر کوئی ایسا مل جائے جس نے مذکورہ 2 مؤقف والوں سے سیاسی تاریخ تھوڑی زیادہ پڑھ رکھی ہو تو وہ معاملے کو محمد مصدق دور تک لے جاتا ہے۔ کم از کم ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی نے مصدق دور سے پیچھے جھانکنے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ آیئے جھانک کر دیکھتے ہیں کہ اس طرف کیا رکھا ہے؟

22 جون 1941 کو سوویت یونین پر نازی حملہ ہوا۔ حملے کی شدت کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ 35 لاکھ نازی سپاہ نے سوویت سرحد عبور کی تھی۔ یہ دوسری جنگ عظیم ہی تھی جس میں امریکا بڑے پیمانے پر ’جنگی تجارت‘ کے اس نشے کا عادی ہوا تھا جو اب وہ چھوڑنے پر کسی صورت بھی آمادہ نہیں۔ جنگ کے پہلے 2 سالوں میں اس نے یورپ کو ’لینڈ لیز پروگرام‘ کے تحت سپلائی شروع کر رکھی تھی۔ اس پروگرام کے تحت ضرورت کی جملہ اشیا ادھار یا کرائے پر فراہم کی جاتی تھیں۔ امریکا کے لیے یہ فراہمی یوں آسان تھی کہ وہ خود جنگ سے دور رہ کر بس مال بنانے کے چکر میں تھا۔ وہ تو آگے چل کر جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کردیا ورنہ امریکا نے اس جنگ میں بس دکان ہی چلانی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: الاسکا: جیت کس کی ہوئی؟

سوویت یونین پر حملہ ہوا تو صورتحال یہ تھی کہ اس کی ہیوی انڈسٹری جنگ زدہ علاقے میں تھی۔ فوری طور پر یہ انڈسٹریز اکھاڑ کر یورال کے اس پار منتقل کرنے کا آپریشن شروع ہوا۔ جس کا مطلب تھا کہ اب کچھ مدت کے لیے سوویت یونین کو سپلائی کی کمی کا سامنا رہے گا۔ چنانچہ سوویت حکام نے فوری طور پر امریکی دکان سے رابطہ کیا۔ اس دکان سے براستہ آرکٹک سپلائی شروع ہوئی تو یہ سپلائی لائن جرمن حملوں کی زد میں آگئی۔ یوں کسی محفوظ راستے کی تلاش شروع ہوئی۔

جلد ہی راستہ مل گیا۔ ایران کے راستے سپلائی دی جا سکتی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس دور کا ایران ایک نہایت پسماندہ ملک تھا۔ سڑکیں کسی کام کی نہ تھیں، ریلوے لائن بوسیدہ اور بندرگاہیں خستہ حال۔ سو صدر روزویلٹ اور وزیر اعظم چرچل کے مابین طے پایا کہ ایران کو جدید دور کے سب سے بڑے ٹرانس شپمنٹ حب میں تبدیل کیا جائے۔ مگر ایک مسئلہ تھا۔ ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے سیاسی طور پر مؤقف تو یہ اختیار کر رکھا تھا کہ وہ جنگ میں غیر جانبدار ہیں۔ مگر جرمن حکام سے ان کے روابط بھی کھلے عام موجود تھے۔ ایران میں جرمنوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور یہ سب ہٹلر کی طرف سے کسی نہ کسی مشن پر تھے۔ چنانچہ دوکاندار اور گاہک کے بیچ طے پاگیا کہ ایران کو گود لے لیا جائے۔

جب زمانہ جنگ کا ہو تو پھر گود لینے کی رسم ٹینکوں کی مدد سے انجام دی جاتی ہے۔ سو 25 اگست 1941ء کو ایران پر 2 جانب سے حملہ ہوگیا۔ شمال اور قفقاز کی سمت سے سوویت آرمی اور جنوب سے برٹش آرمی ایران میں داخل ہوگئی۔ اس آپریشن کا کوڈ نام ’آپریشن کاؤنٹینینس‘ تھا جو صرف 3 دن میں 28 اگست کو مکمل ہوگیا۔ بادشاہ سلامت سے صاف صاف کہہ دیا گیا کہ ساتھ دیجیے یا پرلوک سدھاریے۔ وہ شاید نازیوں سے کسی بڑی شراکت میں تھے سو ان کے لیے وفاداری بدلنا مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ یوں خود بادشاہ سلامت نے تیسری تجویز پیش کردی۔ جو منظور کرلی گئی۔ وہ تاج و تخت اپنے ولی عہد 22 سالہ محمد رضا شاہ پہلوی کے سپرد کرکے موریشس جلا وطن ہوگئے، جہاں سے وہ ساؤتھ افریقہ منتقل ہوئے اور وہیں فوت ہوئے۔ ان کا ولی عہد کیسا ثابت ہوا؟ اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ یہی آگے چل کر مشہور زمانہ ’شاہ ایران‘ کہلایا۔

یہ بھی پڑھیے: 14 اگست اور جبری تاریخ

راتوں رات امریکی انجینیئرز ہیوی مشینری سمیت ایران پہنچنے لگے۔ جلد ہی ان کی تعداد 10 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی۔ شط العرب پر واقع 2 ایرانی بندرگاہیں خرم شہر اور ابادان کی ہی ماڈرنائزیشن شروع نہ ہوئی۔ بلکہ ان بندرگاہوں کو کیسپئن سی سے براستہ روڈ و ریلوے جوڑنے کا منصوبہ بھی تیزی سے تعمیری مراحل طے کرنے لگا۔ یہ فاصلہ لگ بھگ 1400 کلومیٹر کا تھا۔ اس زمانے کی ایرانی ریلوے اس قدر از کار رفتہ تھی کہ یومیہ بس ایک ہزار ٹن مال ہی منتقل کرسکتی تھی۔ جبکہ سوویت یونین کو لاکھوں ٹن سپلائی درکار تھی۔ سو ماڈرن امریکی ریلوے استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا۔ جس کے لیے نئی پٹریاں بچھانے، نئی بوگیاں اور انجن ایران لانے کا منصوبہ بنا۔ دارالحکومت تہران کو جدید اور کشادہ سڑکوں کے ذریعے ہر سمت میں موجود اہم شہر سے جوڑا جانے لگا۔ اور وسیع و عریض گودام، ورکشاپس، اور طیاروں کی اسمبلی لائنز بننے لگیں۔

غیرت ایمانی تو ہر طرح کے مسلمان کی جاگتی ہے۔ مگر شیعہ کی کچھ زیادہ تیزی سے جاگ جاتی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے ایرانیوں کو جدید تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی شروع کردی گئی تاکہ وہ بھی خوش رہیں۔ اسی منصوبے کے تحت ہزاروں ایرانیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا بھی بھیجا گیا۔ جو آگے چل کر شاہ ایران کی بیوروکریسی بنے۔ جلد ہی ایران اس خطے کا سب سے بڑا لاجسٹک حب تھا۔ ’فارسی کوریڈور‘ تیار ہوگیا اور اس سے سپلائی بھی شروع ہوگئی۔ ساتھ ہی ایک اور منصوبہ بھی چپکے سے لانچ ہوگیا۔ ایران کو مغربی بنانے کی سکیم رو بعمل ہوگئی تھی۔ سنیما بن گئے اور ایرانی مغربی موویز کا لطف لینے لگے۔ ہر رنگ کی شراب ہی نہیں ڈانس کلب بھی آباد ہونے لگے۔ کچھ آیت اللہ اس پر سیخ پا ہوئے مگر ان سے بھی بڑے آیت اللہ موجود تھے۔ انہوں نے پاس بلا کر سمجھا دیا کہ جرمنوں سے اسلام کو شدید خطرہ ہے۔ لہذا جو چل رہا ہے وہ چلنے دو۔ چھوٹے آیت اللہ بات سمجھ گئے، یوں مغربیت کو فری ہینڈ مل گیا۔

سوویت یونین کو اس کوریڈور سے کل سپلائی کا صرف 27 فیصد گیا تھا۔ مگر ذیل کے اعداد و شمار سے اندازہ لگا لیجیے کہ وہ 27 فیصد کتنا تھا۔

475000  ٹرک

12،000  بکتر بند گاڑیاں

2،000 لوکوموٹیو (ریلوے انجن)

11،000 ریل کی بوگیاں

14،795  حربی طیارے (ایران میں اسمبل ہوتے)

7،000 سے زیادہ ٹینک

8،000  اینٹی ایئرکرافٹ گنز

3،800 اینٹی ٹینک گنز

4.

5  ملین ٹن خوراک

15  ملین جوڑے فوجی بوٹ

19 ملین ٹن اسٹیل

450،000  ٹن بارود

3 لاکھ کلومیٹر ٹیلیفون کیبل

تقریباً 2،000 ریڈیوسٹیشن

1،900 کلوٹن ایلومینیم

اور یہ سب مال اس زمانے کے ریٹ کے مطابق 11 ارب ڈالرز کا تھا۔

فارسی کوریڈور سے لاکھوں ایرانی بھی کسی نہ کسی درجے میں وابستہ ہوچکے تھے مگر اس کوریڈور کو فی الحقیقت ہزاروں امریکی چلا رہے تھے۔ جنگ ختم ہوئی تو امریکا اگلے 6 ماہ میں اپنی ورک فورس نکال لے گیا۔ برطانیہ اور سوویت یونین کی تو وہاں فوج موجود تھی۔ اب بھلا فوج بھی کوئی شوق سے نکالتا ہے؟ سو یہ تھوڑا کسمسائے۔ مگر جب عالمی دباؤ آیا تو پہلے برطانیہ اور پھر سوویت یونین نے بھی اپنی فوج نکال لی۔ سوویت یونین تو واقعی چلتا بنا۔ مگر برطانیہ اور امریکا کچھ عرصے بعد پچھلی گلی سے ایم آئی 6 اور سی آئی اے اہلکاروں کی شکل میں واپس آگئے۔ آگے آپ جانتے ہی ہیں کہ شاہ ایران اور اس کے سرپرستوں نے پھر وہاں کیا کچھ کیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کا عالمی قد کاٹھ

’اسلام کو جرمنوں سے خطرہ ہے‘ کے نام پر ایران سے اسلام ہی کوچ کرگیا تو پھر آیا آیت اللہی انقلاب۔ ظاہر ہے انقلاب کو امریکا اور برطانیہ سے خطرہ بھی تو تھا۔ مدد کہاں سے آئی؟ انہیں سے جن کے لیے فارسی کوریڈور بنا تھا۔ سوویت لوٹ آئے۔ اور جب سوویت نہ رہے تو روس نے جگہ لے لی جو آج بھی موجود ہے۔ امید ہے اب آپ کو سمجھ آگیا ہوگا کہ ایران قضیے کی بنیاد کیا ہے؟ اور اس کی جڑیں کہاں تک پھیلی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

امریکا ایران روس سابق سویت یونین شاہ ایران

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا ایران سابق سویت یونین شاہ ایران سوویت یونین شاہ ایران کہ ایران آیت اللہ ایران کو کے لیے اور اس

پڑھیں:

چارلی کرک کا قتل

رواں ستمبر کی 10 تاریخ کو امریکا میں ایک سیاسی قتل ہوا، چارلی کرک کا قتل۔ اس کیس میں ٹائلر رابنسن نام کا ایک 22 سالہ نوجوان پولیس کی تحویل میں ہے۔ اور قتل بظاہر سیاسی انتہا پسندی کا نتیجہ دکھتا ہے۔ ہم منتظر ہی رہ گئے کہ امریکا کے تعلیمی نصاب پر کب یہ کہہ کر حملہ کیا جائے گا؟

’انتہا پسندی تعلیمی نصاب کی وجہ سے فروغ پاتی ہے‘

مگر آہ! وہ فارمولہ صرف ہم پر مسلط کرنے کے لیے ہی گھڑا گیا تھا۔ امریکا میں وہ اس کے باوجود نظر انداز کردیا گیا کہ چارلی کا قتل ایک یونیورسٹی کے ہی سبزہ زار پر ہوا۔

سی این این پر ایک خاتون صحافی نے انتہا پسندی کی ذمہ داری ویڈیو گیمز کے سر تھوپنے کی کوشش کی مگر اسے بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ ویڈیو گیمز تو سب سے زیادہ جاپانی کھیلتے ہیں اور وہ انتہا پسند نہیں ہیں۔

ہم یہ سطور اس یقین کے ساتھ لکھ رہے ہیں کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ ذکر اسی امریکا کا چل رہا ہے جو ساری دنیا کو یہ باور کراتا تھا کہ ’اصلی والی جمہوریت‘ صرف ہماری دکان پر دستیاب ہے، اور آپ سب نے بس ہم سے ہی امپورٹ کرنی ہے۔ نہیں کریں گے تو ہم آپ کا جینا حرام کردیں گے۔

خود ہمارے ہاں بھی ان کے فرنچائزر دن رات یہ سودا بیچا کرتے کہ ہمیں مہذب اقوام سے سیکھنا چاہیے۔ صدشکر کہ ان لبرل دانشوروں کے انتقال پر ملال سے قبل ہی وہ گھڑیاں آگئیں جن میں امریکی اداروں کی سروے رپورٹس بتا رہی ہیں کہ 2016 سے 2024 کے دوران امریکا میں انتہا پسندی 360 فیصد اضافہ پاچکی۔ اور یہ اضافہ اس کے باوجود ہوا کہ نائن الیون کے بعد والے 20 برسوں میں امریکا نے دنیا بھر میں جو ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ اس میں ایک اہم ہدف انتہا پسندی کا خاتمہ بھی تھا۔

سو سوال تو بنتا ہے کہ آخر اسی جنگ کے دوران خود امریکا کیسے اس کی لپیٹ میں آگیا؟ اگر آپ یاد کریں تو امریکا میں سیاہ فاموں کو حقوق بیسویں صدی کے آخری حصے میں آکر ہی حاصل ہوئے تھے۔

بظاہر یوں لگتا تھا کہ یہ مسئلہ حل ہوا، اور نسلی تعصب مٹ گیا۔ مگر ایسا تھا نہیں۔ ہوا فقط اتنا تھا کہ جب مارٹن لوتھر کنگ مالکم ایکس کے قتل بھی سیاہ فاموں کی حقوق کی جدوجہد نہ روک سکے تو سفید فاموں نے ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت جانی۔ مگر دلوں میں تعصب وسیع پیمانے پر موجود رہا۔ اور یہ وقتاً فوقتاً اپنا اظہار کرتا تھا۔ مثلا 90 کی دہائی والا اوکلوہاما سٹی کا ہولناک دھماکا۔

نسلی تعصب کو پوری طاقت کے ساتھ پھر سے سر اٹھانے کا موقع تب ملا جب 2008 کے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی نے سیاہ فام باراک اوباما کو امیدوار نامزد کردیا۔

اوباما کی جیت میں اس چیز نے اہم کردار ادا کیا تھا کہ سیاہ فام اور ایشین ووٹ قریباً سارے ہی وہ لے اڑے تھے۔ اس معاملے میں سیاہ فام اتنے جذباتی تھے کہ بش دور کے سیاہ فام وزیر خارجہ جنرل کولن پاؤل، اوباما کی جیت پر اس کے باوجود فرط جذبات سے رو پڑے تھے کہ کولن پاؤل خود ریپبلکن تھے۔ کولن پاؤل نے اوباما کی جیت کو ناقابل یقین تاریخی لمحہ قرار دیا تھا۔

باراک اوباما نے اقتدار سنبھالا تو امریکی سینیٹ میں مشہور زمانہ سینیٹر جان مکین نے فلور پر کہا ’اب میرا ہر لمحہ اس صدر کو ناکام کرنے میں گزرے گا‘۔

اگر آپ بغور جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ اگلے 3 برس میں وائٹ سپرمیسی کی تحریک امریکا میں از سرنو نمایاں ہونا شروع ہوچکی تھی۔ مگر اس کا کوئی باضابطہ قائد نہ تھا۔ اس خلا کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یوں پر کرنا شروع کیا کہ ان کی جانب سے وقتاً فوقتاً تعصب بھرے بیانات سامنے آنے لگے اور جب ماحول بنتا نظر آیا تو برتھ سرٹیفیکیٹ والا معاملہ اٹھا کر باراک اوباما کو باقاعدہ نشانے پر رکھ لیا۔

امریکی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ تحریکوں کی مضبوط اور مستحکم بنیادیں ڈلنے میں کئی سال لگتے ہیں۔ سو ٹرمپ اور وائٹ سپرمیسی کی تحریک نے کوئی جلد بازی نہیں دکھائی۔ انہوں نے 2012 کے صدارتی انتخابات میں اوباما کو چیلنج نہیں کیا۔ ان کی توجہ اب بھی اپنی تحریک کو مضبوط کرنے پر رہی۔

یہ 2016 کا انتخاب تھا جس میں وائٹ سپرمیسی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ سامنے آئی۔ اگر آپ پرانے اخبارات نکال کر دیکھیں تو ٹرمپ کی نامزدگی کے ساتھ ہی ہمارے ہاں انہیں ایک انتہا پسند لیڈر کے طور پر رپورٹ کیا گیا تھا۔ اور اس لیڈر نے اپنی انتخابی مہم میں 2 کارڈ کھل کر استعمال کیے تھے۔ ایک مذہب کا کارڈ جس کا استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہاں تک کہا کہ وہ منتخب ہوا تو نعوذباللہ حرمین پر بمباری کروائے گا اور دوسرا ایمیگرنٹس کارڈ۔

اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی طرح کی پولیٹیکل کریکٹنس پر یقین نہیں رکھتے لیکن یہ ایمیگرنٹس والی اصطلاح ہے ایک طرح کی پولیٹیکل کریکٹنس ہے۔ سیاہ فاموں کا تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ انہیں امریکا میں صدیاں بیت گئیں۔ سو نسلی تعصب کے اظہار کے لیے ایمیگرنٹس کی اصطلاح ہی واحد آپشن بچتی ہے۔

ایمیگرنٹس کون ہیں؟ یہ امریکا آنے والے غیر سفید فام لوگ ہی تو ہیں۔ جن میں مسلمان، لاطینی اور چائنیز بطور خاص ٹرمپ کا ہدف رہے ہیں۔ یاد ہے ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں 7 مسلم ممالک کے شہریوں کے داخلے پر بھی پابندی لگائی تھی؟ ان کے 2 مشیر سٹیو بینن اور سٹیون ملر تب بھی اور آج بھی بطور خاص مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔

سٹیو بینن کے تعصب کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اس نے پچھلے ہفتے ہی ایک پوڈکاسٹ میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنا زہر یوں اگلا ’بینجمن نیتن یاہو اسرائیل کو نقصان پہنچا رہا ہے، وہ اسرائیل کو یہودیوں کا پاکستان بنا رہا ہے‘۔

اس انتہا پسند سیاست کا ایک اہم موڑ وہ تھا جب 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ نے شکست ماننے سے انکار کردیا۔ وہ ماحول کو اس اسٹیج تک لے گئے جہاں کیپٹل ہل پر ہی حملہ ہوگیا۔

سمجھنے والا نکتہ یہ ہے کہ جب ٹرمپ اپنے پہلے دور اقتدار کا حلف اٹھا رہے تھے تو عین اسی دن امریکا میں لبرلز نے بھی بہت پرتشدد ہنگامہ آرائی کی تھی۔ تب بھی صورتحال پر قابو پانے کے لیے نیشنل گارڈز کو طلب کرنا پڑ گیا تھا۔ یہ انتہا پسندی کا وہ جن تھا جو گویا ہر امریکی بوتل سے نکلا تھا۔

بات کیپٹل ہل والے حملے پر کہاں رکی۔ بائیڈن کی قیادت میں ڈیموکریٹک پارٹی نے امریکی سیاسی روایات روندتے ہوئے ٹرمپ کے خلاف اپنے سیاسی انتقام کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح عدالتوں کا استعمال شروع کردیا۔

ٹرمپ کے گھر پر چھاپا مار کر اس انداز سے تلاشی لی گئی کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق خاتون اول میلانیہ ٹرمپ کے زیر جامے بھی لہرا لہرا کر ان پر تبصرے کیے گئے۔ انتخابی جلسے میں قاتلانہ حملے کا تڑکا بھی لگ گیا۔

یوں گویا 2011 میں انتہا پسندی کا آغاز بیشک ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے حامیوں نے کیا تھا مگر اس تالی کے لیے اب انہیں ڈیموکریٹس کا ہاتھ بھی میسر تھا۔

اس پورے پس منظر کے ساتھ آج کی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری ٹرم کے پہلے سال میں ہیں۔ اپنے انتخابی وعدوں بلکہ دعوؤں پر انہیں بڑی سبکی کا سامنا ہے۔ جان ایف کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ قتل کیسز کی رپورٹس وہ پبلک نہیں کرپائے۔ ایپسٹین فائلز کی وہ موجودگی سے ہی انکاری ہوچکے۔

جو 2 جنگیں انہوں نے 24 گھنٹوں میں بند کروانی تھیں وہ ان کے اقتدار کے 9ویں مہینے میں بھی گھن گرج کے ساتھ جاری ہیں۔ اور تو اور ان کا ٹیرف کارڈ کی بھی کسی راشن کارڈ جتنی وقعت باقی نہیں رہی لیکن وہ جنگ پورے زوروں پر ہے جسے لڑنے کے لیے انہوں نے ٰیوٹیوبرز کی پوری فوج تیار کر رکھی ہے۔ چارلی کرک ان کی اسی فوج کا ایک اہم ترین کمانڈر تھا۔

جواب میں لبرلز بھی اسی طرح کی فورس رکھتے ہیں۔ جانبین کی ان فورسز نے ہی تو انتہا پسندی کو پورے عروج تک پہنچایا ہے، اس کی شدت کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ چارلی کرک کے قتل کے لیے ’ڈسپلے اساسنیشن‘ کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔

گویا اسے محض قتل کرنا مقصود نہ تھا بلکہ اس کے کیمپ کے باقی یوٹیوبرز کے لیے ڈراؤنی مثال بنانا بھی پلان میں شامل تھا۔ ردعمل کیا آیا؟ امریکی سوشل میڈیا ان ویڈیوز سے بھر گیا جن میں لبرلز نوجوان اس قتل کی خوشی میں رقص کرتے نظر آئے۔

جواب میں سرکار نے دھمکی دی کہ ان لوگوں کے پاسپورٹ کینسل کیے جائیں گے۔ یہاں تک وارننگ جاری کی گئی کہ اگر کسی نے چارلی کرک کے طرز عمل پر تنقیدی گفتگو کی تو اس کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کردیا جائے گا۔ اور ہزاروں کے اکاؤنٹس حکومت کے کہنے پر بند ہو بھی چکے۔

ٹرمپ کا کیمپ اقتدار میں ہوکر بھی طبل جنگ بجا رہا ہے۔ ایک عجیب ٹرینڈ یہ نظر آیا کہ ٹرمپ کے اہم وزیر اور مشیر ایک تواتر کے ساتھ کچھ اس طرح کے دعوؤں کے ساتھ سامنے آگئے ’اس نے موت سے قبل مجھے جو آخری میسج کیا تھا اس میں فلاں خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ہم اس کی یہ خواہش پوری کریں گے‘۔

قابل غور پہلو یہ ہے کہ ایک مردے کی جانب منسوب ہر خواہش لبرلز پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی ہی کوئی نہ کوئی اسکیم ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ اب ٹرمپ کو اپنے کسی بھی انتہا پسند اقدام کے لیے بطور جواز بس اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ یہ چارلی کرک کی آخری خواہش تھی۔

اس پورے معاملے کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب اس امریکا میں ہو رہا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے۔ جو 36 کھرب ڈالرز کے قرضے تلے ڈوبتی سلطنت ہے، جس کا لگ بھگ ہر شہری مسلح ہے۔

سو اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا کہ جب یہ سلطنت خانہ جنگی کا شکار ہوگی تو اس کے مناظر و نتائج کتنے تباہ کن ہوں گے۔ کیا اقبال کا یہ مصرع منظر ہونے کو ہے ؟ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

اوباما ٹائلر رابنسن ٹرمپ چارلی کرک

متعلقہ مضامین

  • چارلی کرک کا قتل
  •  وزیرِ تجارت جام کمال کی تہران میںایران کے اول نائب صدر سے ملاقات
  • ایران: رہائشی عمارت میں گیس لیک ہونے سے دھماکا‘6 افراد ہلاک
  • ایران: رہائشی عمارت میں گیس دھماکے سے 6 افراد ہلاک
  • ایران: رہائشی عمارت میں گیس دھماکے سے 6 افراد جاں بحق
  • امریکا کا بڑا اقدام: ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد
  • امریکا کی  ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں ، افراد اور کمپنیوں کی فہرست جاری
  • امریکا نے ایران پر مزید پابندیاں لگا دیں،افراد اور کمپنیوں کی فہرست جاری
  • امریکا نے ایران کے مالیاتی نیٹ ورک پر نئی پابندیاں عائد کردیں 
  • شہباز شریف کی ایرانی صدر سے ملاقات