’امریکی شاید آمر کو پسند کرتے ہیں‘ صدر ٹرمپ کا متنازع بیان
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک تقریب میں کہا ہے کہ ’بہت سے امریکی شاید ایک آمر کو پسند کرتے ہیں‘۔ انہوں نے یہ بات پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں 80 منٹ طویل گفتگو کے دوران کہی، جس میں انہوں نے ناقدین اور میڈیا پر سخت تنقید کی۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ کہتے ہیں، ہمیں آزادی چاہیے، ہمیں اس کی ضرورت نہیں، وہ آمر ہے۔ لیکن بہت سے لوگ کہتے ہیں شاید ہم آمر کو پسند کرتے ہیں۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ وہ خود کو آمر نہیں سمجھتے بلکہ عام فہم رکھنے والا اور سمجھدار شخص ہوں۔
صدر ٹرمپ نے اس موقع پر ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر بھی دستخط کیا جس کے تحت امریکی پرچم جلانے والوں کو ایک سال قید کی سزا دی جائے گی، حالانکہ امریکی سپریم کورٹ 1989 میں اس عمل کو اظہارِ رائے کی آزادی کے دائرے میں قرار دے چکی ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت ریکارڈ حد تک گر گئی
ٹرمپ نے واشنگٹن میں سیکیورٹی سخت کرنے کے لیے نیشنل گارڈ کے تحت ایک خصوصی یونٹ قائم کرنے اور کیش لیس ضمانت ختم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وزارتِ دفاع کا نام بدل کر دوبارہ وزارتِ جنگ (Department of War) رکھا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے ڈیموکریٹ رہنماؤں پر بھی کڑی تنقید کی، خصوصاً ایلی نوائے کے گورنر جے بی پرٹزکر کو ہدف بناتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ بیمار ہیں۔ انہوں نے شکاگو اور بالٹیمور میں فوج بھیجنے کی دھمکی بھی دی۔
مزید پڑھیں: یوکرینی صدر کی 5 ماہ میں ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں دوسری ملاقات، اس بار کیا ہوا؟
تقریب کے دوران ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں اور دوبارہ ملاقات کے خواہاں ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی صوابدیدی اختیارات کو آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے استعمال کر رہے ہیں، تاہم ٹرمپ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف امریکا کے مفاد میں فیصلے کر رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آمر امریکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ڈونلڈ ٹرمپ انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
نیویارک میئر شپ کے امیدوار زہران ممدانی کی حمایت میں سابق امریکی صدر سامنے آ گئے
نیو یارک:نیویارک سٹی کی میئرشپ کی دوڑ میں ایک نیا موڑ آگیا ہے، جب سابق امریکی صدر بارک اوباما نے ڈیموکریٹک امیدوار زہران ممدانی کی بھرپور حمایت کا اعلان کردیا۔
اوباما نے زہران ممدانی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اُن کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں اور جیت کی صورت میں اُن کا ہر ممکن ساتھ دیں گے۔
زہران ممدانی نے اوباما کے اظہارِ اعتماد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے لیے یہ صرف سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی حوصلہ افزائی ہے۔
ممدانی کا کہنا تھا کہ اہمیت اس بات کی ہے کہ نیویارک میں ایک نئی، منصفانہ اور سب کے لیے مساوی مواقع پر مبنی سیاسی فضا قائم کی جائے۔
برونکس کی ایک مسجد کے باہر جذباتی خطاب کرتے ہوئے زہران ممدانی نے کہا کہ اُن کے مخالفین نے انہیں ’جہاد کا حامی‘ اور دہشت گرد ظاہر کرنے کی کوشش کی، مگر وہ نفرت کے جواب میں اتحاد اور بھائی چارے کا پیغام لے کر میدان میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد امریکا میں مسلمانوں کے لیے حالات بدل گئے حتیٰ کہ اُن کی خالہ بھی اُس وقت حجاب میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی تھیں۔
تازہ ترین سروے کے مطابق زہران ممدانی 43 فیصد عوامی حمایت کے ساتھ واضح برتری حاصل کیے ہوئے ہیں جبکہ اُن کا مقابلہ سابق گورنر اینڈریو کومو اور ری پبلکن امیدوار ریٹس سلوا سے ہے۔
دوسری جانب پاکستانی امریکن کمیونٹی نے بھی اُن کے حق میں بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ بروکلین کے علاقے کونی آئی لینڈ ایونیو جسے لٹل پاکستان کہا جاتا ہے میں زہران ممدانی کی حمایت میں درجنوں گاڑیوں پر مشتمل شاندار کار ریلی نکالی گئی۔ ریلی کا مقصد چار نومبر کو ہونے والے میئر الیکشن سے قبل پاکستانی ووٹرز کو متحرک کرنا تھا۔
کمیونٹی رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زہران ممدانی ایک ایسے افورڈیبل نیویارک کے خواہاں ہیں جہاں ہر شخص، چاہے وہ کسی بھی نسل یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو، باعزت زندگی گزار سکے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق بارک اوباما کی حمایت کے بعد زہران ممدانی کی انتخابی مہم کو زبردست تقویت ملی ہے اور وہ ممکنہ طور پر نیویارک کے پہلے جنوبی ایشیائی مسلم میئر بن سکتے ہیں۔