Express News:
2025-09-17@20:48:41 GMT

ماحولیاتی تبدیلی اور بھارتی آبی جارحیت

اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT

وزیراعظم محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے، حالیہ سیلاب سے پوری پوری بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، ہم اس چیلنج سے تنہا نہیں نمٹ سکتے۔

دوسری جانب بھارت کی جانب سے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کے بعد پنجاب کے دریاؤں میں سیلابی صورتحال سنگین رخ اختیار کر گئی ہے، ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ ساڑھے 9 لاکھ کیوسک سے تجاوز کرچکا ہے، جب کہ آبپاشی اسٹرکچر کو بچانے کے لیے چناب میں ہیڈ قادر آباد بند دھماکے سے اڑا دیا گیا ہے۔

 سائنسی اعتبار سے سیلاب آنے کی وجہ گلوبل وارننگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں گلیشیئر کے پھٹنے یا پگھلنے سے سیلاب آتے ہیں، اس کے علاوہ شدید اور غیر رسمی بارشیں بھی سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔ بھارتی آبی جارحیت کے بعد پنجاب کے دریاؤں میں طغیانی سے سیکڑوں ایکڑ اراضی زیر آب آ چکی ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر اب ایک خیالی خطرہ نہیں رہا، بلکہ ایک ٹھوس، واضح اور تباہ کن حقیقت بن چکا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک اس کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن پاکستان ان گنت وجوہات کی بنیاد پر ان چند ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو ماحولیاتی بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ہماری جغرافیائی پوزیشن، معیشتی مشکلات، ناقص حکمرانی، بڑھتی آبادی اور ماحولیاتی بے حسی نے ہمیں ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں محض بیان بازی یا وقتی امداد سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان میں آنے والے شدید بارشوں اور بھارتی آبی جارحیت کے بعد پنجاب کے دریاؤں میں جو طغیانی آئی، اس نے نہ صرف کئی ہزار ایکڑ زرعی اراضی کو نگل لیا بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیوں، گھروں اور مستقبل کے خوابوں کو بھی بہا کر لے گیا۔

یہ صورتحال کوئی نئی نہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ ہر بار یہی مناظر دہرائے جاتے ہیں اور ہر بار حکومت، ادارے اور عوام ایک دوسرے پر الزامات دھرنے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں۔ جو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، وہ ہمیشہ غریب کسان، مزدور، دیہی علاقوں کا مقامی فرد یا کم آمدنی والا شہری ہوتا ہے، جو نہ صرف بے گھر ہوتا ہے بلکہ امداد کی راہ بھی تکتے تکتے تھک جاتا ہے۔

بھارت کی جانب سے آبی جارحیت ایک سنگین اور مسلسل جاری مسئلہ ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں، خاص طور پر سندھ طاس معاہدے کی روح کو پامال کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑنے یا روکنے جیسے اقدامات ایک نہایت غیر ذمے دارانہ طرز عمل ہیں۔

جب بھارت اچانک اپنے ڈیموں کے دروازے کھول کر لاکھوں کیوسک پانی چھوڑتا ہے تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان کے ان علاقوں پر پڑتا ہے جہاں انفرا اسٹرکچر پہلے ہی نہایت کمزور یا پرانا ہے۔ پنجاب میں دریائے ستلج، راوی، چناب اور جہلم کے اطراف کی زمینیں ہر سال اس ناگہانی طغیانی کا شکار ہوتی ہیں۔ بھارت کی جانب سے یک طرفہ طور پر پانی چھوڑنے کی پالیسی ایک سیاسی ہتھیار بن چکی ہے اور پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اس ایشو کو سنجیدگی سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔

ادھر داخلی حالات پر نظر دوڑائیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہمارے پاس نہ موثر فلڈ مینجمنٹ ہے، نہ واٹر ریزرویشن کا کوئی منظم نظام۔ برسوں سے ڈیموں کی تعمیر کا معاملہ صرف بیان بازی یا سیاسی وعدوں تک محدود رہا ہے۔

جب بھی سیلاب آتا ہے، تو پرانے بیانات دوبارہ سامنے لائے جاتے ہیں کہ فلاں منصوبہ جلد شروع کیا جائے گا، ڈیم بنانا قومی ضرورت ہے یا منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، لیکن عملاً کچھ نہیں ہوتا۔ کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے سیاسی اختلافات کی نذر ہوگئے اور چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کو ہمیشہ ثانوی اہمیت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب پانی کی ضرورت ہو تو ہمارے ذخائر خالی ہوتے ہیں اور جب طغیانی آئے تو پانی روکنے کا کوئی بندوبست موجود نہیں ہوتا۔

سیلاب سے نمٹنے کے لیے ہمارا ادارہ جاتی نظام بھی نہایت کمزور اور سست روی کا شکار ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) ہو یا صوبائی ادارے، بلدیاتی مشینری ہو یا ریلیف کے ذمے دار ادارے، سب ہی وقت پر ردعمل دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ جب پانی گھروں میں داخل ہو چکا ہوتا ہے، جب سڑکیں بہہ چکی ہوتی ہیں، جب کھانے پینے کی اشیاء نایاب ہو جاتی ہیں، تب کہیں جا کر حکام حرکت میں آتے ہیں۔

یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں نہ صرف فوری ردعمل کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے بلکہ قبل از وقت تیاری، موسمی پیش گوئیوں پر عمل اور مقامی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی اہلیت بڑھانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔دیہی علاقوں کی صورتحال خصوصاً تشویشناک ہے۔ وہاں بنیادی سہولیات کا پہلے ہی فقدان ہوتا ہے۔ جب سیلاب آتا ہے تو یہ علاقہ مکمل طور پر باقی ملک سے کٹ جاتا ہے۔ نہ وہاں ایمبولینس پہنچتی ہے، نہ ڈاکٹر، نہ راشن، نہ صاف پانی۔ بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں، بچے اور بزرگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور بعض اوقات مرنے والوں کی لاشیں کئی دنوں تک پانی میں تیرتی رہتی ہیں۔ ایسی بے بسی اور بے حسی شاید ہی کسی اور جگہ دیکھی جائے۔ یہ المیہ صرف قدرتی نہیں، انسانی غفلت، ناقص حکمرانی اور ترجیحات کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستان کے شہری علاقوں میں بھی حالات کچھ بہتر نہیں۔ بڑے شہروں میں نکاسی آب کا نظام بوسیدہ ہے۔ چند گھنٹوں کی بارش کے بعد ہی گلیاں، سڑکیں اور انڈر پاسز جھیلوں میں بدل جاتے ہیں۔ لاہور، کراچی، راولپنڈی، پشاور جیسے بڑے شہروں میں اگر نالوں کی صفائی بروقت نہ ہو یا تجاوزات کو ہٹانے کی مہم محض رسمی ہو، تو عوام کو ہر سال اسی عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم نے دیکھا کہ بارش کے دوران بجلی کے تاروں میں کرنٹ آ جانے سے کئی قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔

کوئی ادارہ،کوئی اہلکار، کوئی نمایندہ اس کا ذمے دار نہیں ٹھہرتا۔ سانحات کے بعد کمیٹیاں بنتی ہیں، رپورٹس تیار ہوتی ہیں، میڈیا شور مچاتا ہے اور پھر سب کچھ خاموش ہو جاتا ہے۔ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ہر سال آنے والے سیلاب کو روکنا شاید ممکن نہ ہو، لیکن اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کو کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں طویل المدتی حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی۔

ہمیں ایسی شہری منصوبہ بندی درکار ہے جو ماحولیاتی تغیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جائے۔ نئی ہاؤسنگ اسکیمز، سڑکیں، پل اور نکاسی کے نظام ایسے بننے چاہئیں جو شدید بارشوں اور سیلاب کا سامنا کر سکیں۔ محکمہ موسمیات کو جدید ٹیکنالوجی اور تربیت سے آراستہ کرنا ہو گا تاکہ درست پیش گوئیاں وقت پر کی جا سکیں۔ تعلیمی اداروں میں ماحولیاتی تبدیلی، آفات سے بچاؤ اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت دی جائے تاکہ نئی نسل ان خطرات کا شعور رکھتی ہو۔ کسانوں کے لیے انشورنس اسکیمز ہونی چاہئیں تاکہ فصل کے ضیاع کی صورت میں وہ مکمل طور پر برباد نہ ہوں۔ متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر فوڈ سیکیورٹی، طبی امداد، رہائش اور تعلیمی نظام کی بحالی کے لیے ایک مربوط نظام قائم کیا جائے۔

یہ سب کچھ محض امدادی کارروائی نہیں، بلکہ ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے۔ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.

7 ملین ایکڑ فٹ پانی بچایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضایع ہوجاتا ہے۔ جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے تین اور ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اب تک ایسے ڈیم نہیں بنائے جا سکے ہیں، نتیجتاً! خشک سالی اور سیلاب ہمارا مقدر بنے ہوئے ہیں، دوسری جانب پچھلے پچاس برس سے بھارت ڈیم پہ ڈیم تعمیر کیے جا رہا ہے جب کہ پاکستان نے پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی تک نہیں کی۔

مختصر المیعاد پالیسی کے طور پر بھارت کے ساتھ دریائی پانی کے جملہ مسائل کے حل کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنا ہو گا۔ ہر سال پانی کی ایک بہت بڑی مقدار سمندر میں بہہ جاتی ہے۔ برف پگھلنے سے اور مون سون کے موسم میں بارشوں سے سیلاب آتے ہیں۔ یہ پانی ضایع ہونے سے بچانا ہو گا۔ مطلب یہ کہ اس کے زیر زمین پہنچانے کا رستہ مہیا کرنا ہو گا تاکہ زیر زمین آبی وسائل کی سطح بحال ہو سکے۔ پاکستان میں ٹیوب ویلوں کا مسلسل استعمال زیرِ زمین پانی کی سطح کی کمی کا سبب بن رہا ہے اور پانی کے زیرِ زمین ذخیرے کی دوبارہ بھرائی کا بھی کوئی انتظام موجود نہیں۔

 خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں اپنی کوتاہیوں سے سبق سیکھنا ہوگا، اگر ہم ہر سال ایک ہی طرح کی غفلت، نااہلی، لاپرواہی اور سیاسی کھیل تماشہ دہراتے رہے تو تباہی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم صرف شکوہ نہ کریں، بلکہ خود احتسابی کریں، اگر کوئی ادارہ ناکام رہا ہے، تو اسے سزا ملنی چاہیے، اگر کسی وزیر یا افسر نے فرائض میں غفلت برتی ہے تو اسے جوابدہ بنایا جائے۔ یہ ملک ہم سب کا ہے اور اسے بچانے کے لیے ہم سب کو مل کر خلوص نیت سے کام کرنا ہوگا، کیونکہ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو شاید کل ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ بچے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بھارت کی جانب سے پاکستان میں دریاؤں میں کرنا ہو گا بی جارحیت کی ضرورت ضرورت ہے جاتے ہیں ہر سال ا ا تے ہیں سیلاب ا جاتا ہے پانی کی ہوتا ہے رہا ہے کے لیے ہے اور کے بعد

پڑھیں:

پی سی بی نے ایشیا کپ کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا، ترجمان

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے ایشیا کپ کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔

ترجمان پی سی بی عامر میر کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایشیا کپ کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ اس حوالے سے مشاورت جاری ہے اور کل تک حتمی فیصلہ کر لیا جائے گا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ فیصلہ پاکستان کے مفاد کو مدنظر رکھ کے کیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • بارشوں اور سیلاب سے بھارتی پنجاب میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان
  • میچ ریفری کی تبدیلی: ایشیا کپ کھیلنے کا حتمی فیصلہ آج ہو گا: ترجمان پی سی بی
  • سیلاب
  • پی سی بی نے ایشیا کپ کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا، ترجمان
  • ایشیا کپ: آئی سی سی نے اینڈی پائیکرافٹ کی تبدیلی کا مطالبہ مسترد کردیا، بھارتی میڈیا
  • جنگی جرائم پر اسرائیل کو کوئی رعایت نہں دی جائے؛ قطراجلاس میں مسلم ممالک کا مطالبہ
  • ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 300 یومیہ منصوبہ
  • اسرائیل کو کھلی جارحیت اور مجرمانہ اقدامات پر کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی: ترک صدر
  • ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 300 یومیہ منصوبہ