Express News:
2025-11-03@16:55:01 GMT

انڈیا خبردار،یہ1971والا پاکستان نہیں

اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT

قوموں کی زندگی عروج و زوال سے عبارت ہوتی ہے۔اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔جاندار قومیں مشکلات پر قابو پا کر دوبارہ اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کر کے رہتی ہیں۔ ہمارے خطے یعنی برصغیر میں ہندوستان ایک بڑی اکائی ہے۔اگر اس کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو عین ممکن ہے اگلے تیس سال میں یہ آبادی کے لحاظ سے چین کو پیچھے چھوڑ جائے۔ہندوستان صنعت و حرفت میں بھی بہت پیش رفت کر چکا ہے۔

اس ملک کا رقبہ بھی بہت زیادہ ہے۔دنیا کے کئی ممالک اس میں سما سکتے ہیں۔یہ ملک ایک بڑی فوج رکھتا ہے۔اس کی فضائیہ کے پاس چند جدید ترین طیاروں کے ساتھ کوئی ایک ہزار بمبار اور لڑاکا طیارے ہیں۔اس کی بحریہ کے پاس نیوکلیئر سب میرین اور طیارہ بردار جہاز ہیں۔

اس ملک نے انگریز راج کے خاتمے پر ایک جاندار سیاسی نظام،اچھی بیوروکریسی اور جنگی طور پر آزمودہ افواج ورثے میں پائیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہاں بسنے والوں کی اکثریت نے نسل در نسل غالب اقوام کے سامنے ہاتھ ہی جوڑے تھے۔انھوں نے پچھلے دو ہزار سال سے کبھی حکومت نہیں کی تھی۔ اسی لیے یہ ملک یہ نہیں جان پایا کہ پڑوسی بہت اہم ہوتے ہیں اور اڑوس پڑوس کے ممالک کے ساتھ کس طرح رہا جاتا ہے۔انڈیا کے سارے پڑوسی اس سے تنگ ہیں۔

 1971 میں ہمارے پاکستان کی نا اہل قیادت نے ہندوستان کو موقع فراہم کیا کہ وہ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے شرپسندوں و جنگجوؤں کے ساتھ مل کر پاکستان کو توڑ دے۔سقوطِ ڈھاکہ کے ساتھ انڈین تکبر آسمان کو چھونے لگا۔پاکستان کے سوا خطے کا کوئی دوسرا ملک ہندوستان کے آگے سینہ سپر ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں جب پاکستان ناکام ہوا تو ہندوستان خطے کا چوہدری بن بیٹھا۔اس وقتی کامیابی نے ہندوستان کو علاقے کی برتر اور غالب قوت ہونے کی بدہضمی میں مبتلا کر دیا۔آپے سے باہرہندوستان پاکستان کو بار بار للکارنے لگا۔

1980 کی دہائی میں جنرل سندر جی ہندوستان کے آرمی چیف بنے۔وہ ایک انتہائیAmbitious فرد تھے۔انھوں نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ ایکسرسائز براس ٹیک کے بہانے ہندوستانی افواج لگا دیں۔جنرل سندر جی کا پلان یہ تھا کہ اچانک حملہ کر کے سندھ کو پاکستانی پنجاب سے کاٹ دے۔ایسے میں جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کے بہانے راجیو گاندھی کو باور کرایا کہ جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ یعنی ایٹم بم ہمارے پاس بھی ہے۔اس پر1971کے بعد پہلی بار ہندوستان کو احساس ہوا کہ پاکستان کوئی تر نوالہ نہیں۔اسلم بیگ جب آرمی چیف بنے تو انھوں نے پاکستانی فوج کی ڈپلائے منٹ یوں کی کہ دو ریزرو کور کھڑی ہو گئیں اور ہندوستان کی فوجی برتری بہت حد تک ختم ہو گئی۔ مئی 1998میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے رہی سہی کسر نکال دی۔

پاکستان نے اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے ڈیلیوری سسٹم میں بھی خود کفالت حاصل کی۔پاکستان کا میزائل پروگرام ایک انتہائی جدید اور جاندار پروگرام ہے جو بہت کامیابی اور تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔پاکستان ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار ہیں۔

پاکستان کے ان کامیاب دفاعی اقدامات سے ہندوستان کو سمجھ آ جانی چاہیے تھی کہ پاکستان ایک مضبوط قوت ہے لیکن ہندوستان 1971کی وقتی کامیابی کے غرور سے باہر آنے اور پاکستان کو بار بار للکارنے سے باز نہیں آ رہا۔فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے تحقیق و تفتیش اور اقوامِ متحدہ کو انوالو Involve کیے بغیر پاکستان کی بین الاقوامی سرحد پر فوجیں لے آنا اس کا وطیرہ بن گیا۔جناب من موہن سنگھ کی بہترین معاشی پالیسیوں کی بدولت ہندوستانی معیشت میں بہت بڑھوتی ہوئی تو ہندوستانی غرور و تکبر مزید بڑھا۔

نائن الیون کے فوراً بعد ہندوستان نے امریکا کو اپنے اڈے اور زمینی راہداری آفر کرنے کے ساتھ مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی یوں ہندوستان نے امریکا کی مریدی کر لی۔مغرب نے بھی مس کیلکولیٹ کیا اور سمجھ لیا کہ ہندوستان بہت طاقتور اور کام کا ملک ہے اور یہی وہ واحد ملک ہے جو چین کی روز افزوں معاشی و فوجی قوت کے آگے بند باندھ سکتا ہے۔یوں ہندوستان امریکا، یورپ، آسٹریلیا و جاپان کا منظورِ نظر بن گیا۔ ہندوستان کی ہر بڑے فورم پر پذیرائی شروع ہو گئی ۔ بس پھر کیا تھا یہ ملک آپے سے باہر ہو گیا۔

 غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہو کر رہتا ہے۔ہندوستان نے فرانس سے جدید ترن رافیل طیارے حاصل کر کے سمجھ لیا کہ اب خطے کے ہر ملک کو اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے چاہیئیں۔اسی غلط فہمی میں پہلگام فالس فلیگ آپریشن رچا کر ہندوستان نے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا اور چڑھائی کرنے کی دھمکیاں دینے لگا۔ بھارتی فضائیہ نے پہلا حملہ2مئی کو کرنے کی کوشش کی لیکن پاک فضائیہ کو الرٹ پا کر سارے طیارے جلدی سے سری نگر ایئر بیس پر اتار دیے۔6اور 7مئی کی رات ایک بجے کے قریب 70سے اوپر ہندوستانی طیارے دوبارہ حرکت میں آئے لیکن پاک فضائیہ کے مستعد شاہینوں نے ان کی خوب درگت بنائی۔

ہندوستان کے 5سے7 طیارے کھیت ہوئے جس کے بعد ہندوستانی فضائیہ گراؤنڈ کر دی گئی۔اگلے تین دن ہندوستان ڈرون حملے کرتا رہا لیکن کہتے ہیں کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ 9  مئی کی رات جب ہندوستان نے پاک فضائیہ کی ایئر بیسز کو نشانہ بنایا تو پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اگلے تین سے چار گھنٹوں میں ایسا بھرپور جوابی حملہ کیا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔دنیا کے بہترین فضائی دفاعی نظام ایس 400کی دو بیٹریاں، کئی ایئر بیسز اور کشمیر میں بھارتی چوکیوں کو اڑا دیا۔پاکستانی حملے کی تاب نہ لاکر ہندوستان امریکی نائب صدر کے ذریعے سیز فائر کی تمنا کرنے لگا۔

 ہندوستان کی صاف جنگی ناکامی نے اس کے ایک بڑی قوت اور چین کا مدِ مقابل ہونے کا سارا بھرم توڑ دیا۔امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو سمجھ آ گئی کہ ہم نے ایک غلط گھوڑے پر بازی لگائی ہے۔ جو ملک پاکستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا وہ چین جیسی بڑی معاشی ، تہذیبی اورفوجی قوت کے آگے کیسے کھڑا ہو گا۔اس realizationکے ہوتے ہی امریکا نے اپنا رُخ تبدیل کر لیا۔صدر ٹرمپ روزانہ کی بنیاد پر ہندوستان اور مودی کی بے عزتی کر رہے ہیں۔

بورس جانسن نے بھی ٹرمپ رویے کو سراہا ہے۔ٹیرف تو لگتے ہی رہتے ہیں،اصل بات ہندوستان اور جناب مودی کا مہا بھارت کا خواب اور ویشوا گرو کا بت پاش پاش ہونا ہے۔عسکری امور کے ماہر ایک ہندوستانی کے بقول چار روزہ جنگ نے پاکستان اور خاص کر پاکستانی افواج کی پروفائل بہت جاندار بنا دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی واشنگٹن اور مغربی دارالحکومتوں میں خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔

ہندوستانی میڈیا جو جنگ سے پہلے اور جنگ کے دوران سنبھالا نہیں جا رہا تھا اسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ ایران جو پاکستان کا مشکل ہمسایہ تھا،اس نے بھی جان لیا ہے کہ پاکستان سے اچھی ہمسائیگی کتنی اہم ہے البتہ افغانستان دردِ سر بنا رہے گا۔ہندوستان زخم چاٹ رہا ہے اوراپنی خفت مٹانے کے درپے ہے۔ انڈیا کی زبان بند اور اس کے نیتا گنگ ہیں۔ایسے میں وہ کوئی بھی مس ایڈونچر کرنے کی بے وقوفی کر سکتا ہے۔پاکستانی افواج عزمِ صمیم کے ساتھ چوکس ہیں۔ہم ہندوستان کے ہر حملے کو روک سکتے ہیں۔ بس ہمیں سیاسی خلفشار سے بچنا اور بنیانِ مرصوص بننا ہے۔ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے۔اب 1971کو نہیں دہرایا جا سکتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہندوستان نے ہندوستان کے ہندوستان کو پاکستان کو پاکستان کے نے پاکستان کے ساتھ

پڑھیں:

افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ

امید ہے 6 نومبر کو افغان طالبان کیساتھ مذاکرات کے اگلے دور کا نتیجہ مثبت نکلے گا،ترجمان
پاکستان خودمختاری اور عوام کے تحفظ کیلئے ہر اقدام اٹھائے گا،طاہر اندرابی کی ہفتہ وار بریفنگ

ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا ہے کہ پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دور کا نتیجہ مثبت نکلے گا۔پاکستان افغانستان کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا، دراندازی بند کی جائے۔پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر اقدام اٹھائے گا، جمعہ کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان مصالحتی عمل میں اپنا کردار جاری رکھے گا اور 6 نومبر کے مذاکرات سے مثبت نتائج کی امید رکھتا ہے۔انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور جمعرات کی شام استنبول میں ثالثوں کی موجودگی میں اختتام کو پہنچا۔ترجمان کے مطابق پاکستان نے 25 اکتوبر سے شروع ہونے والے استنبول مذاکرات میں خوش دلی اور مثبت نیت کے ساتھ شرکت کی۔انہوں نے بتایا کہ مذاکرات ابتدائی طور پر دو دن کے لیے طے کیے گئے تھے، تاہم طالبان حکومت کے ساتھ باہمی اتفاقِ رائے سے معاہدے تک پہنچنے کی سنجیدہ کوشش میں پاکستان نے بات چیت کو 4 دن تک جاری رکھا۔

متعلقہ مضامین

  • وینزویلا صدر کے دن گنے جاچکے، ٹرمپ نے سخت الفاظ میں خبردار کردیا
  • جامعہ ملیہ اسلامیہ میں "کلچرل کنیکٹس اور ڈپلومیٹک ڈائیلاگ" پر ورکشاپ منعقد
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • تاریخ کی نئی سمت
  •  افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے تک سب کچھ معطل رہےگا
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
  • بھارت پاکستان میں بدامنی پھیلانے کیلئے دہشتگردوں کے بیانیہ کو فروغ دینے میں مصروف
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • پاکستان مخالف بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹا پروپیگنڈا بے نقاب
  • پاکستان دشمنی میں مبتلا بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹ بے نقاب، وزارتِ اطلاعات نے “انڈیا ٹوڈے” کا گمراہ کن پروپیگنڈا بےنقاب کر دیا