Express News:
2025-09-17@22:46:02 GMT

انڈیا خبردار،یہ1971والا پاکستان نہیں

اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT

قوموں کی زندگی عروج و زوال سے عبارت ہوتی ہے۔اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔جاندار قومیں مشکلات پر قابو پا کر دوبارہ اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کر کے رہتی ہیں۔ ہمارے خطے یعنی برصغیر میں ہندوستان ایک بڑی اکائی ہے۔اگر اس کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو عین ممکن ہے اگلے تیس سال میں یہ آبادی کے لحاظ سے چین کو پیچھے چھوڑ جائے۔ہندوستان صنعت و حرفت میں بھی بہت پیش رفت کر چکا ہے۔

اس ملک کا رقبہ بھی بہت زیادہ ہے۔دنیا کے کئی ممالک اس میں سما سکتے ہیں۔یہ ملک ایک بڑی فوج رکھتا ہے۔اس کی فضائیہ کے پاس چند جدید ترین طیاروں کے ساتھ کوئی ایک ہزار بمبار اور لڑاکا طیارے ہیں۔اس کی بحریہ کے پاس نیوکلیئر سب میرین اور طیارہ بردار جہاز ہیں۔

اس ملک نے انگریز راج کے خاتمے پر ایک جاندار سیاسی نظام،اچھی بیوروکریسی اور جنگی طور پر آزمودہ افواج ورثے میں پائیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہاں بسنے والوں کی اکثریت نے نسل در نسل غالب اقوام کے سامنے ہاتھ ہی جوڑے تھے۔انھوں نے پچھلے دو ہزار سال سے کبھی حکومت نہیں کی تھی۔ اسی لیے یہ ملک یہ نہیں جان پایا کہ پڑوسی بہت اہم ہوتے ہیں اور اڑوس پڑوس کے ممالک کے ساتھ کس طرح رہا جاتا ہے۔انڈیا کے سارے پڑوسی اس سے تنگ ہیں۔

 1971 میں ہمارے پاکستان کی نا اہل قیادت نے ہندوستان کو موقع فراہم کیا کہ وہ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے شرپسندوں و جنگجوؤں کے ساتھ مل کر پاکستان کو توڑ دے۔سقوطِ ڈھاکہ کے ساتھ انڈین تکبر آسمان کو چھونے لگا۔پاکستان کے سوا خطے کا کوئی دوسرا ملک ہندوستان کے آگے سینہ سپر ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں جب پاکستان ناکام ہوا تو ہندوستان خطے کا چوہدری بن بیٹھا۔اس وقتی کامیابی نے ہندوستان کو علاقے کی برتر اور غالب قوت ہونے کی بدہضمی میں مبتلا کر دیا۔آپے سے باہرہندوستان پاکستان کو بار بار للکارنے لگا۔

1980 کی دہائی میں جنرل سندر جی ہندوستان کے آرمی چیف بنے۔وہ ایک انتہائیAmbitious فرد تھے۔انھوں نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ ایکسرسائز براس ٹیک کے بہانے ہندوستانی افواج لگا دیں۔جنرل سندر جی کا پلان یہ تھا کہ اچانک حملہ کر کے سندھ کو پاکستانی پنجاب سے کاٹ دے۔ایسے میں جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کے بہانے راجیو گاندھی کو باور کرایا کہ جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ یعنی ایٹم بم ہمارے پاس بھی ہے۔اس پر1971کے بعد پہلی بار ہندوستان کو احساس ہوا کہ پاکستان کوئی تر نوالہ نہیں۔اسلم بیگ جب آرمی چیف بنے تو انھوں نے پاکستانی فوج کی ڈپلائے منٹ یوں کی کہ دو ریزرو کور کھڑی ہو گئیں اور ہندوستان کی فوجی برتری بہت حد تک ختم ہو گئی۔ مئی 1998میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے رہی سہی کسر نکال دی۔

پاکستان نے اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے ڈیلیوری سسٹم میں بھی خود کفالت حاصل کی۔پاکستان کا میزائل پروگرام ایک انتہائی جدید اور جاندار پروگرام ہے جو بہت کامیابی اور تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔پاکستان ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار ہیں۔

پاکستان کے ان کامیاب دفاعی اقدامات سے ہندوستان کو سمجھ آ جانی چاہیے تھی کہ پاکستان ایک مضبوط قوت ہے لیکن ہندوستان 1971کی وقتی کامیابی کے غرور سے باہر آنے اور پاکستان کو بار بار للکارنے سے باز نہیں آ رہا۔فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے تحقیق و تفتیش اور اقوامِ متحدہ کو انوالو Involve کیے بغیر پاکستان کی بین الاقوامی سرحد پر فوجیں لے آنا اس کا وطیرہ بن گیا۔جناب من موہن سنگھ کی بہترین معاشی پالیسیوں کی بدولت ہندوستانی معیشت میں بہت بڑھوتی ہوئی تو ہندوستانی غرور و تکبر مزید بڑھا۔

نائن الیون کے فوراً بعد ہندوستان نے امریکا کو اپنے اڈے اور زمینی راہداری آفر کرنے کے ساتھ مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی یوں ہندوستان نے امریکا کی مریدی کر لی۔مغرب نے بھی مس کیلکولیٹ کیا اور سمجھ لیا کہ ہندوستان بہت طاقتور اور کام کا ملک ہے اور یہی وہ واحد ملک ہے جو چین کی روز افزوں معاشی و فوجی قوت کے آگے بند باندھ سکتا ہے۔یوں ہندوستان امریکا، یورپ، آسٹریلیا و جاپان کا منظورِ نظر بن گیا۔ ہندوستان کی ہر بڑے فورم پر پذیرائی شروع ہو گئی ۔ بس پھر کیا تھا یہ ملک آپے سے باہر ہو گیا۔

 غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہو کر رہتا ہے۔ہندوستان نے فرانس سے جدید ترن رافیل طیارے حاصل کر کے سمجھ لیا کہ اب خطے کے ہر ملک کو اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے چاہیئیں۔اسی غلط فہمی میں پہلگام فالس فلیگ آپریشن رچا کر ہندوستان نے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا اور چڑھائی کرنے کی دھمکیاں دینے لگا۔ بھارتی فضائیہ نے پہلا حملہ2مئی کو کرنے کی کوشش کی لیکن پاک فضائیہ کو الرٹ پا کر سارے طیارے جلدی سے سری نگر ایئر بیس پر اتار دیے۔6اور 7مئی کی رات ایک بجے کے قریب 70سے اوپر ہندوستانی طیارے دوبارہ حرکت میں آئے لیکن پاک فضائیہ کے مستعد شاہینوں نے ان کی خوب درگت بنائی۔

ہندوستان کے 5سے7 طیارے کھیت ہوئے جس کے بعد ہندوستانی فضائیہ گراؤنڈ کر دی گئی۔اگلے تین دن ہندوستان ڈرون حملے کرتا رہا لیکن کہتے ہیں کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ 9  مئی کی رات جب ہندوستان نے پاک فضائیہ کی ایئر بیسز کو نشانہ بنایا تو پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اگلے تین سے چار گھنٹوں میں ایسا بھرپور جوابی حملہ کیا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔دنیا کے بہترین فضائی دفاعی نظام ایس 400کی دو بیٹریاں، کئی ایئر بیسز اور کشمیر میں بھارتی چوکیوں کو اڑا دیا۔پاکستانی حملے کی تاب نہ لاکر ہندوستان امریکی نائب صدر کے ذریعے سیز فائر کی تمنا کرنے لگا۔

 ہندوستان کی صاف جنگی ناکامی نے اس کے ایک بڑی قوت اور چین کا مدِ مقابل ہونے کا سارا بھرم توڑ دیا۔امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو سمجھ آ گئی کہ ہم نے ایک غلط گھوڑے پر بازی لگائی ہے۔ جو ملک پاکستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا وہ چین جیسی بڑی معاشی ، تہذیبی اورفوجی قوت کے آگے کیسے کھڑا ہو گا۔اس realizationکے ہوتے ہی امریکا نے اپنا رُخ تبدیل کر لیا۔صدر ٹرمپ روزانہ کی بنیاد پر ہندوستان اور مودی کی بے عزتی کر رہے ہیں۔

بورس جانسن نے بھی ٹرمپ رویے کو سراہا ہے۔ٹیرف تو لگتے ہی رہتے ہیں،اصل بات ہندوستان اور جناب مودی کا مہا بھارت کا خواب اور ویشوا گرو کا بت پاش پاش ہونا ہے۔عسکری امور کے ماہر ایک ہندوستانی کے بقول چار روزہ جنگ نے پاکستان اور خاص کر پاکستانی افواج کی پروفائل بہت جاندار بنا دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی واشنگٹن اور مغربی دارالحکومتوں میں خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔

ہندوستانی میڈیا جو جنگ سے پہلے اور جنگ کے دوران سنبھالا نہیں جا رہا تھا اسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ ایران جو پاکستان کا مشکل ہمسایہ تھا،اس نے بھی جان لیا ہے کہ پاکستان سے اچھی ہمسائیگی کتنی اہم ہے البتہ افغانستان دردِ سر بنا رہے گا۔ہندوستان زخم چاٹ رہا ہے اوراپنی خفت مٹانے کے درپے ہے۔ انڈیا کی زبان بند اور اس کے نیتا گنگ ہیں۔ایسے میں وہ کوئی بھی مس ایڈونچر کرنے کی بے وقوفی کر سکتا ہے۔پاکستانی افواج عزمِ صمیم کے ساتھ چوکس ہیں۔ہم ہندوستان کے ہر حملے کو روک سکتے ہیں۔ بس ہمیں سیاسی خلفشار سے بچنا اور بنیانِ مرصوص بننا ہے۔ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے۔اب 1971کو نہیں دہرایا جا سکتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہندوستان نے ہندوستان کے ہندوستان کو پاکستان کو پاکستان کے نے پاکستان کے ساتھ

پڑھیں:

دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی

کراچی میں بارشوں کا موسم آتے ہی ایک ہڑبونگ مچ جاتی ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر ہر طرف بس اس ہی سے متعلق خبریں نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر خوف اور واویلا بپا ہوتا ہے کہ شہر ڈوب رہا ہے، قیامت آگئی ہے، سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، ہر بار یہی منظر نامہ دہرایا جاتا ہے۔ میں یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوں کہ کیا بارش اور دریا واقعی آفت ہیں؟ یا آفت وہ ہے جو ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے پیدا کی ہے؟

میں نے اس موضوع پر پہلے بھی لکھا ہے۔ جب لاہور میں دریائے راوی کو بلڈرز اور طاقتور طبقوں نے اپنے مفاد کی خاطر نوچ ڈالا، اس کے کنارے پر پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائیں اور دریا سے بہنے کا حق چھین لینے کی کوشش کی تو میں نے تب بھی دل گرفتہ ہو کر قلم اٹھایا تھا۔ آج جب کراچی کے لوگوں کو ملیر اور لیاری ندیوں کے بہاؤ سے خوفزدہ دیکھتی ہوں تو دل اور زیادہ اداس ہوتا ہے۔ یہ اداسی اس وقت اور گہری ہو جاتی ہے جب میں اپنے ہی شہر کے باسیوں کی بے بسی اور بے خبری دیکھتی ہوں۔

کراچی کے بزرگوں سے پوچھیے تو وہ بتائیں گے کہ ملیر اور لیاری موسمی دریا صدیوں سے اس خطے کے دھڑکتے ہوئے دل تھے۔ یہ وہ ندیاں ہیں جنھوں نے اس شہر کے وجود کو سنوارا۔ جب برسات کے موسم میں بادل کھل کر برستے تھے تو یہ ندیاں زندگی کا گیت گاتی ہوئی بہتی تھیں، ان کا شور تباہی نہیں بلکہ حیات کی ایک نغمگی تھی۔ مچھیرے،کاشتکار، عام شہری سب ان ندیوں کے ساتھ جیتے تھے، ان سے ڈرتے نہیں تھے بلکہ ان کے بہاؤ کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے تھے۔

میں نے اپنی آنکھوں سے ملیر کی ندیاں بہتی دیکھی ہیں۔ مول (Mol) تھڈو (Thaddo) سکن (Sukhan)، لنگیجی (Langheji) یہ سب برسات کے دنوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہتی تھیں، ان کا شور افراتفری نہیں تھا بلکہ فطرت کا سنگیت تھا۔

پھر ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ان ندیوں کو کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا، ان کے کنارے پر پارکنگ پلازہ بنا دیے، ہم نے ان کے راستے میں کنکریٹ کے جنگل اگا دیے۔ ہم نے یہ سوچے بغیر زمین بیچ ڈالی کہ پانی بھی اپنی راہ چاہتا ہے۔یہی اصل آفت ہے۔ بارش آفت نہیں، دریا آفت نہیں، آفت وہ بے حسی ہے جو ہم میں سرایت کرگئی ہے۔ ہم نے فطرت کے ساتھ دشمنی مول لی ہے اور اب جب فطرت اپنا راستہ تلاش کرتی ہے تو ہم چیخ اٹھتے ہیں کہ تباہی آگئی۔

مجھے یاد ہے کہ لاہورکے راوی کے ساتھ بھی یہی ظلم ہوا۔ بلڈرز نے خواب بیچنے کے نام پر دریا کی سانس روک دی۔ لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کرگھر بنانے گئے اور آج وہ سیلاب کا شکار ہیں۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا، دریا کو بہنے دو، کیونکہ اگر ہم دریا کا راستہ روکیں گے تو وہ ایک دن اپنی پرانی پگڈنڈی ڈھونڈ لے گا، فطرت کی یاد داشت انسان سے کہیں زیادہ گہری ہے۔

کراچی کی ملیر اور لیاری ندیاں بھی یہی پیغام دے رہی ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلا رہی ہیں کہ شہرکی بنیادیں فطرت کی شرائط پر رکھی گئی تھیں، ہمارے لالچ اور بدنظمی پر نہیں۔ آج یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دے رہی ہیں کہ تم چاہے کتنے ہی اونچے پل، فلائی اوور یا ہاؤسنگ اسکیمیں بنا لو، پانی اپنا راستہ ڈھونڈ لیتا ہے۔

لیاری ندی کے کنارے کبھی بستیاں تھیں، ماہی گیروں کے گاؤں تھے۔ بچے ان کے پانی میں کھیلتے تھے، آج وہی لیاری ندی کچرے، گندگی اور زہریلے پانی سے بھرا ایک خوفناک نالہ بن چکا ہے اور جب بارش کے دنوں میں یہ اپنے پرانے جلال کے ساتھ بہنے لگتی ہے تو شہری چیخنے لگتے ہیں کہ شہر ڈوب رہا ہے۔ نہیں شہر ڈوب نہیں رہا شہر کو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے غرق کیا ہے۔میں جب یہ سب دیکھتی ہوں تو دل پر بوجھ سا بڑھ جاتا ہے۔ لکھنے کو دل چاہتا ہے اور ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کتنی بار لکھوں کسے جھنجھوڑوں؟ لیکن پھر بھی قلم اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ خاموش رہنا ممکن نہیں۔

یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ فطرت دشمن نہیں ہے۔ دشمن وہ نظام ہے جس نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زمین کو بیچ ڈالو، پانی کے راستے پر قبضہ کر لو، ہر چیز کو منافع میں تول دو۔ اسی نظام نے ہمارے شہروں کو قبرستان بنا دیا ہے۔

کراچی کے لوگ بارش سے ڈرتے ہیں۔ وہ لیاری اور ملیر کے بہاؤ سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اصل ڈر ان حکمرانوں سے ہونا چاہیے جنھوں نے اس شہر کا سانس گھونٹ دیا ہے۔ اصل ڈر ان بلڈرز اور لینڈ مافیا سے ہونا چاہیے جنھوں نے دریا کی زمین کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اصل ڈر اس اندھے ترقی کے تصور سے ہونا چاہیے جو فطرت کو روند کر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔

ملیر اور لیاری کی ندیاں ہمارے خلاف نہیں، ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کی بقا کے لیے فطرت کے ساتھ چلنا ہوگا، اس کے خلاف نہیں۔ بارش ہو یا دریا کا بہاؤ یہ آفت نہیں یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی لالچ، بدنظمی اور کوتاہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں بار بار سمجھاتی ہیں کہ تم نے اگر اپنے راستے درست نہ کیے تو ایک دن تمہاری بستیاں، تمہاری عمارتیں اور تمہاری سڑکیں سب پانی کی لپیٹ میں آجائیں گی۔

یہ دریا ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی شہری منصوبہ بندی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ ہمیں کچرے کے ڈھیروں کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ندیاں ہماری دشمن نہیں بلکہ ہماری زندگی کی ضامن ہیں۔ میں آج پھر یہی دہرا رہی ہوں یہ کوئی تباہی نہیں ہے، یہ فطرت کی یاد دہانی ہے۔ یہ وہ دستک ہے جو ہمیں جگا رہی ہے۔ کاش کہ ہم جاگ جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

متعلقہ مضامین

  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • غفلت اور لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرنے والے ڈرائیورز ہوجہائیں خبردار
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • ڈکی بھائی کی طرح انڈیا کے نامور اداکار اور سابق کرکٹرز بھی آن لائن جوئے کی تشہیر پر گرفت میں آگئے
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار
  • اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
  • افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان
  • صدر ٹرمپ کی واشنگٹن ڈی سی میں قومی ایمرجنسی نافذ کرنے کی دھمکی