Express News:
2025-11-03@16:22:31 GMT

Witness to History

اشاعت کی تاریخ: 30th, August 2025 GMT

شمشاد احمد خان صاحب سے پہلی ملاقات ‘ دس برس پہلے ہوئی تھی۔ اسٹاف کالج میں ایک معلم کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ شمشاد صاحب نے کوئی ایک گھنٹہ لیکچر دیا‘ جو سچائی ‘ حقیقت اور وطن دوستی سے معمور تھا۔بہت کم لوگوں کو دل سے بولتے سنا ہے۔ خان صاحب اسی قافلہ کے شاندار مسافر ہیں۔

ان کی باتوں سے پہلی بار‘ کارگل جنگ کی سچائی سننے کو ملی۔ وہ عوام کو سنائی گئی طوطا کہانی سے بالکل متضاد تھی۔ بہر حال ‘ مجموعی طور پر شمشاد احمد ایک سحر انگیز گفتگو کرکے واپس گئے۔ کئی بار مجھے یوں لگا کہ ملک سے عشق ان کی روح میں ایسے گندھا ہوا ہے۔ جس کا ثبوت ان کی آنکھوں سے برسات کی جھڑی سے معلوم پڑتا تھا۔ ابتدائی زندگی پر نظر ڈالنا اس لیے ضروری ہے کہ ان کی شخصیت اور جذبات کو سمجھنا قدرے آسان رہے۔ 1965کے پر آشوب دور میں‘ فارن سروس میں مقابلے کے امتحان کے ذریعے آئے۔

سفارتی زندگی کا یہ سفر دشوار گزار گھاٹیوں سے ہوتا ہوا اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے اختتام پذیر ہوا۔ ان سے نسبت کوئی تین برس قبل شروع ہوئی۔ جب بالمشافہ ‘ متعدد جگہ پر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان کی بے لاگ گفتگو ہر بار‘ دل میں گھر کرجاتی تھی۔ ساتھ ساتھ ‘ ان سے تعلق ذاتی نوعیت کا بھی ترتیب ہوتا چلا گیا۔ ٹیلی فون پر بھی بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جو آج تک قائم ہے۔ ایک دن بتانے لگے کہ ایک تحقیقی کتاب لکھ رہا ہوں۔ جس میں پاکستان میںہونے والے اہم ترین واقعات کا صرف تلخ سچ ہو گا۔ جذباتیت سے دور‘ یہ تحریر لوگوں کو ایک شعور دینے کا ذریعہ بنے گی جنھیں ملکی سنجیدہ معاملات کا اصل علم کبھی ہو ہی نہیں پاتا۔ بہرحال‘ چند ہفتے پہلے‘ ان کی جانب سے ایک ضخیم نسخہ موصول ہوا۔ جس کا عنوان تھا۔ Withess to history ۔664صفحات پر مبنی یہ کتاب اپنے سرورق کی طرح مکمل طور پر نایاب معلوم پڑی۔ کتاب ملنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے فون کیا۔ تو حکم ملا کہ‘ اس کی تقریب رونمائی میں بھی آنا ہے۔

اب ‘ پڑھے بغیر ‘ تو اس تقریب میں جایا نہیں جا سکتا تھا۔لہٰذا ‘ تین دن میں کتاب پڑھ ڈالی ۔ یقین فرمائیے۔ حد درجہ پر لطف اور زرخیز معاملہ رہا۔انگریزی زبان میں ویسے بھی ہمارے ملک میں کتاب لکھنے کا بہت کم رواج ہے۔ مگر شمشاد صاحب نے تو انگریزی لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ الفاظ کیا ہیں، ہیرے موتی جڑے محسوس ہوتے ہیں۔

اہم ترین مسئلوں میں سفارت کاری کی پختگی ‘ تحریر کا لطف دوبالا کر ڈالتی ہے۔ بدقسمتی سے‘ تقریب میںنہ جا سکا۔ وجہ حد درجہ معقول تھی۔ موسم کے بدلنے سے دودن ‘ بدن دکھتا رہا۔ ایسے لگتا تھا کہ بخار میں ہوں۔ مگر بخار نہیں تھا۔ ناساز طبیعت کی وجہ سے‘ اس مجلس میں جاہی نہیںپایا‘جہاں اس نسخہ کو باقاعدہ لوگوں کے روبرو پیش کیا جا رہا تھا۔ امید ہے کہ شمشاد صاحب‘ میری غیر حاضری کو جائز عذر کی وجہ سے معاف فرما دیں گے۔ کتاب کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتا ہوں۔

ویسے تو اس کتاب کاہر باب ‘ ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے ۔مگر ان معاملات کوآپ کے سامنے رکھوںگا جوآپ کی دلچسپی کا باعث بن سکے۔ ’’کارگل کی لڑائی کے دوران حیرت انگیز معاملات نمودار ہوتے رہے۔ 2 جولائی1999کوڈیفنس کمیٹی کی ایک میٹنگ وقوع پذیر ہوئی جس میں بطور سیکریٹری خارجہ ‘ میں نے اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مشرف نے بریفنگز دی۔وزارت خارجہ کاموقف بڑا واضح تھا کہ جنگ کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔ مگر جنرل مشرف اس میٹنگ میں کسی قسم کا فیصلہ نہ ہونا چاہتے تھے۔ انھیں پتا تھا کہ نواز شریف خفیہ طور پر صدر کلنٹن سے رابطے میں ہیں۔ جنرل مشرف بھی اپنے ذرایع کے ذریعے واشنگٹن سے قریبی رابطے میں تھے۔مگر دونوں یہ بات ایک دوسرے سے خفیہ رکھ رہے تھے‘‘۔

شمشاد صاحب بلیئر ہاؤس کی میٹنگ کے متعلق آگے لکھتے ہیں ۔ ’’ امریکی حکام کاکہنا تھاکہ سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد کو کسی بھی اہم میٹنگ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے ۔

اس لیے کہ یہ وزیراعظم نواز شریف کو کسی قسم کی مراعات دینے سے روک سکتے ہیں‘‘۔ ’’بلیئر ہاؤس سمٹ کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے کلنٹن کو کہاکہ وہ ایک معتدل مزاج انسان ہیں۔ اور امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ ہندوستان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرے ۔نواز شریف کی آواز میں کسی قسم کا کوئی اعتماد نہیںتھا‘‘۔ 12اکتوبر 1999کے فوجی ٹیک آور کے مطلق شمشاد صاحب لکھتے ہیں۔’’کہ اس دن صبح سے یہ اندازہ ہو رہا تھاکہ کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہے ۔ پانچ بجے شام کو میں آفس میں بیٹھا تھا جب سبز سرکاری فون پر نواز شریف نے کال کی اور کہا کہ شمشاد صاحب یہ لوگ آ چکے ہیں ‘‘۔

’’ رات گئے جی ایچ کیو سے جنرل عزیز سی جی ایس کا فون آیا کہ آ پ نے صبح سات بجے جی ایچ کیو پہنچنا ہے۔ اور آپ جنرل مشرف سے ملنے والے پہلے فیڈرل سیکریٹری ہوں گے۔ شمشاد صاحب کے بقول جب وہ صبح سات بجے جی ایچ کیو پہنچے تووہاں امریکی سفیر ویلم میلام اور ملیحہ لودھی پہلے سے موجود تھیں۔ میں نے ہمیشہ یہ گمان رکھا ہے کہ سویلین قیادت اپنی نا اہلی کی بدولت ریاستی اداروں کو جگہ فراہم کرتی ہے جہاں وہ ملک پر بڑے آرام سے قابض ہوجاتے ہیں۔ جنرل مشرف نے اپنے آپ کو ایک رحم دل ڈکٹیٹر کے طور پر متعارف کروایا اور اس نے مارشل لاء لگانے سے انکار کر دیا‘‘۔

’’مشرف ‘ چیف ایگزیکٹو بننے کے بعد 25 اکتوبر کو ریاض پہنچے ۔ کنگ فہد اور ان کی ٹیم نے جنرل مشرف کو حددرجہ عزت و احترام دیا۔ ایک دن بعد ولی عہد عبداللہ سے یانبو شہر میں مشرف کی ملاقات ہوئی ۔ پرویز مشرف نے ولی عہد کو پاکستان کی صورت حال سے مکمل طور پر آگاہ کیا۔ رات کے کھانے کے بعد تقریباً کئی گھنٹے کی علیحدہ ملاقات ہوئی۔ جس کے بعد ولی عہد اور مشرف باہر نکلے تو ان کے ہاتھوں میں رقص کرنے والی تلواریں تھیں۔انھیں ناچتا دیکھ کر تمام سعودی بھی اس میں شامل ہو گئے۔ یہ اس چیز کی طرف واضح اشارہ تھا کہ سعودی حکومت نے مشرف کی حکومت کو تسلیم کر لیا ہے‘‘۔

25مارچ 2002 امریکی صدر ہندوستان سے اسلام آباد آئے۔کلنٹن صرف چھ گھنٹے کے لیے اسلام آباد رکے اور وہ ایک ایسے جہاز میں آئے جس کے اوپر کسی قسم کے نشانات نہیںتھے ۔ صدر کلنٹن کو جنرل مشرف کے پاس لے جایاگیا جہاں ان قائدین کی طویل ملاقات ہوئی مگر اس میٹنگ کا کوئی نتیجہ نہیںنکلا۔ صدر کلنٹن نے پرویز مشرف کو یہ ضرور کہا کہ نواز شریف کو پھانسی نہیں لگنی چاہیے۔ بعد میں امریکی صدر کلنٹن نے جنرل مشرف کو مجبور کیا کہ وہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے لیے معافی کا اعلان کریں۔اور اس کے بعد انھیں سعودی عرب روانہ کر دیا جائے‘‘۔

’’اپریل 2000 میں کیوبا میں جی77 کی میٹنگ ہوئی۔ اس میں جنر ل مشرف بھی شامل تھے۔یہ اپریل 12سے لے کر 14تک رہی ۔ پہلے دن یاسر عرفات جو پی ایل او کے چیئرمین تھے‘ ان کے ساتھ مشرف کی میٹنگ ہوئی۔ اس ملاقات کی خاص بات یہ تھی کہ یاسر عرفات نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا ۔ کہا کہ تمام عرب دنیا فلسطین کے معاملے کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔اگر پاکستان بھی اس معاملے میں مثبت کردار ادا نہیں کرتا ‘ تو فلسطین کا ایشو ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ اسامہ بن لادن کے متعلق دلچسپ جملے درج کیے گئے ہیں۔

9/11 کی تباہی کو اسامہ بن لادن سے جوڑا گیا ۔ مگر پروفیسر برہان الدین ربانی نے بار بار کہا کہ اتنا مربوط ‘ تکنیکی طور پر حد درجہ پروفیشنل آپریشن کرنا طالبان اور اسامہ بن لادن کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے متعلق شمشاد احمد لکھتے ہیں کہ ان کے پاس پی ایم ن کے رہنما احسن اقبال آئے۔ اورمسلم لیگ ن میں شمولیت کی دعوت دی۔ جومیں نے رد کردی۔بالکل اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو نے جہانگیر بدر کو بھیجاکہ میں پیپلز پارٹی میں آ جاؤں۔ مگر میں نے پھر انکار کر دیا۔

2013میں شہباز شریف نے دعوت دی کہ میں سیاسی حکومت کے لیے کوئی ایساایجنڈا ترتیب کروں جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ جب میٹنگ شروع ہوئی تو میں نے نظام کی تبدیلی کے متعلق طویل تجاویز دیں۔ چوہدری نثار علی خان نے برجستہ کہا کہ شمشاد صاحب نظام کو تبدیل نہیں کرنا۔ اس کے بعد میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ صدمے اور غصے کی حالت میں میٹنگ سے اٹھ کر واپس آ گیا ۔ کتاب کے آخر میں احمد ندیم قاسمی صاحب کا ایک قطعہ بھی درج ہے۔

کیا اپنا سراغ خودنہیں پاؤ گے؟

کیا پھرکوئی اجنبی بلا لاؤ گے؟

یہ راہ تو اس موڑ پہ مڑ جائے گی

اے اہل وطن! کہو‘ کہاں جاؤ گے

 سنجیدہ رائے ہے کہ پاکستان کے معاملات پر اتنی سبق آموز اور حقائق پر مبنی کتاب شاید اب تک نہیں لکھی گئی۔ یہ عظیم کام شمشاد صاحب کے ذمے آن پڑا تھا جسے انھوں نے حد درجہ ایمان داری اور خوبصورتی سے سرانجام دیا۔ پاکستان کے ہر سنجیدہ انسان کے پاس یہ کتاب ہونی چاہیے ۔ تاکہ ہم لوگ اصل اور نقل کا فیصلہ کر سکیں۔ اور شاید ہمارا مستقبل بہتر ہو سکے۔جس کی مجھے قطعاً کوئی امید نہیںہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نواز شریف صدر کلنٹن کے متعلق کے بعد تھا کہ کہا کہ کر دیا

پڑھیں:

بابا گورونانک کا 556ویں جنم دن، ننکانہ صاحب کے تعلیمی اداروں میں 3 روزہ تعطیل

بابا گورونانک دیو جی کے 556ویں جنم دن کی تقریبات کے سلسلے میں ننکانہ صاحب میں تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق 4 سے 6 نومبر تک تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند رہیں گے، جب کہ بابا گورونانک یونیورسٹی میں بھی 3 سے 6 نومبر تک تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں گی۔

ترجمان ضلعی انتظامیہ نے بتایا کہ تقریبات کے پیشِ نظر شہر کے کالجز بھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چیف ایگزیکٹو ایجوکیشن شازیہ بانو اور یونیورسٹی انتظامیہ نے تعلیمی ادارے بند رکھنے کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ننکانہ صاحب: سکھ جوڑے کی شادی کا اندراج ’سکھ میرج ایکٹ‘ کے تحت کردیا گیا

واضح رہے کہ بابا گورونانک دیو جی کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے بھارت سمیت دنیا بھر سے ہزاروں سکھ یاتری ننکانہ صاحب پہنچیں گے۔ پاکستان ہائی کمیشن نئی دہلی نے دو روز قبل بھارت سے تعلق رکھنے والے 2100 سکھ یاتریوں کو ان تقریبات میں شرکت کے لیے ویزے جاری کیے تھے۔

دورے کے دوران سکھ یاتری ننکانہ صاحب میں گوردوارہ جنم استھان، حسن ابدال میں گوردوارہ پنجہ صاحب اور نارووال میں گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور پر حاضری دیں گے۔

چارج ڈی افیئرز سعد احمد وڑائچ نے سکھ یاتریوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان سکھ برادری کے مقدس مذہبی مقامات کے دوروں میں سہولت فراہم کرنے اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے پُرعزم ہے۔

یہ بھی پڑھیے: مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی: مختلف ممالک سے سکھ یاتری ننکانہ صاحب پہنچ گئے

یہ ویزے 1974 کے باہمی پروٹوکول برائے مذہبی مقامات کے دورے کے تحت جاری کیے گئے ہیں، جس کے ذریعے دونوں ممالک کے شہری ایک دوسرے کے مقدس مذہبی مقامات کی زیارت کر سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بابا گرونانک تعطیل سکھ یاتری ننکانہ صاحب

متعلقہ مضامین

  • بابا گورونانک کے جنم دن کی تقریبات کا آغاز، سکھ یاتریوں کی آمد کا سلسلہ جاری
  • وزیرِاعظم کا شاندار انتخاب، خواجہ آصف کا مشرف زیدی کی تقرری کا خیرمقدم
  • بابا گورو نانک کا 556واں جنم دن، گوردوارہ جنم استھان کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا
  • خرابات فرنگ
  • بُک شیلف
  • کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی
  • مشرف علی زیدی وزیر اعظم کے ترجمان برائے غیرملکی میڈیا مقرر
  • مشرف زیدی وزیراعظم کے ترجمان مقرر
  • دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب
  • بابا گورونانک کا 556ویں جنم دن، ننکانہ صاحب کے تعلیمی اداروں میں 3 روزہ تعطیل