شمشاد احمد خان صاحب سے پہلی ملاقات ‘ دس برس پہلے ہوئی تھی۔ اسٹاف کالج میں ایک معلم کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ شمشاد صاحب نے کوئی ایک گھنٹہ لیکچر دیا‘ جو سچائی ‘ حقیقت اور وطن دوستی سے معمور تھا۔بہت کم لوگوں کو دل سے بولتے سنا ہے۔ خان صاحب اسی قافلہ کے شاندار مسافر ہیں۔
ان کی باتوں سے پہلی بار‘ کارگل جنگ کی سچائی سننے کو ملی۔ وہ عوام کو سنائی گئی طوطا کہانی سے بالکل متضاد تھی۔ بہر حال ‘ مجموعی طور پر شمشاد احمد ایک سحر انگیز گفتگو کرکے واپس گئے۔ کئی بار مجھے یوں لگا کہ ملک سے عشق ان کی روح میں ایسے گندھا ہوا ہے۔ جس کا ثبوت ان کی آنکھوں سے برسات کی جھڑی سے معلوم پڑتا تھا۔ ابتدائی زندگی پر نظر ڈالنا اس لیے ضروری ہے کہ ان کی شخصیت اور جذبات کو سمجھنا قدرے آسان رہے۔ 1965کے پر آشوب دور میں‘ فارن سروس میں مقابلے کے امتحان کے ذریعے آئے۔
سفارتی زندگی کا یہ سفر دشوار گزار گھاٹیوں سے ہوتا ہوا اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے اختتام پذیر ہوا۔ ان سے نسبت کوئی تین برس قبل شروع ہوئی۔ جب بالمشافہ ‘ متعدد جگہ پر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان کی بے لاگ گفتگو ہر بار‘ دل میں گھر کرجاتی تھی۔ ساتھ ساتھ ‘ ان سے تعلق ذاتی نوعیت کا بھی ترتیب ہوتا چلا گیا۔ ٹیلی فون پر بھی بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جو آج تک قائم ہے۔ ایک دن بتانے لگے کہ ایک تحقیقی کتاب لکھ رہا ہوں۔ جس میں پاکستان میںہونے والے اہم ترین واقعات کا صرف تلخ سچ ہو گا۔ جذباتیت سے دور‘ یہ تحریر لوگوں کو ایک شعور دینے کا ذریعہ بنے گی جنھیں ملکی سنجیدہ معاملات کا اصل علم کبھی ہو ہی نہیں پاتا۔ بہرحال‘ چند ہفتے پہلے‘ ان کی جانب سے ایک ضخیم نسخہ موصول ہوا۔ جس کا عنوان تھا۔ Withess to history ۔664صفحات پر مبنی یہ کتاب اپنے سرورق کی طرح مکمل طور پر نایاب معلوم پڑی۔ کتاب ملنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے فون کیا۔ تو حکم ملا کہ‘ اس کی تقریب رونمائی میں بھی آنا ہے۔
اب ‘ پڑھے بغیر ‘ تو اس تقریب میں جایا نہیں جا سکتا تھا۔لہٰذا ‘ تین دن میں کتاب پڑھ ڈالی ۔ یقین فرمائیے۔ حد درجہ پر لطف اور زرخیز معاملہ رہا۔انگریزی زبان میں ویسے بھی ہمارے ملک میں کتاب لکھنے کا بہت کم رواج ہے۔ مگر شمشاد صاحب نے تو انگریزی لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ الفاظ کیا ہیں، ہیرے موتی جڑے محسوس ہوتے ہیں۔
اہم ترین مسئلوں میں سفارت کاری کی پختگی ‘ تحریر کا لطف دوبالا کر ڈالتی ہے۔ بدقسمتی سے‘ تقریب میںنہ جا سکا۔ وجہ حد درجہ معقول تھی۔ موسم کے بدلنے سے دودن ‘ بدن دکھتا رہا۔ ایسے لگتا تھا کہ بخار میں ہوں۔ مگر بخار نہیں تھا۔ ناساز طبیعت کی وجہ سے‘ اس مجلس میں جاہی نہیںپایا‘جہاں اس نسخہ کو باقاعدہ لوگوں کے روبرو پیش کیا جا رہا تھا۔ امید ہے کہ شمشاد صاحب‘ میری غیر حاضری کو جائز عذر کی وجہ سے معاف فرما دیں گے۔ کتاب کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتا ہوں۔
ویسے تو اس کتاب کاہر باب ‘ ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے ۔مگر ان معاملات کوآپ کے سامنے رکھوںگا جوآپ کی دلچسپی کا باعث بن سکے۔ ’’کارگل کی لڑائی کے دوران حیرت انگیز معاملات نمودار ہوتے رہے۔ 2 جولائی1999کوڈیفنس کمیٹی کی ایک میٹنگ وقوع پذیر ہوئی جس میں بطور سیکریٹری خارجہ ‘ میں نے اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مشرف نے بریفنگز دی۔وزارت خارجہ کاموقف بڑا واضح تھا کہ جنگ کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔ مگر جنرل مشرف اس میٹنگ میں کسی قسم کا فیصلہ نہ ہونا چاہتے تھے۔ انھیں پتا تھا کہ نواز شریف خفیہ طور پر صدر کلنٹن سے رابطے میں ہیں۔ جنرل مشرف بھی اپنے ذرایع کے ذریعے واشنگٹن سے قریبی رابطے میں تھے۔مگر دونوں یہ بات ایک دوسرے سے خفیہ رکھ رہے تھے‘‘۔
شمشاد صاحب بلیئر ہاؤس کی میٹنگ کے متعلق آگے لکھتے ہیں ۔ ’’ امریکی حکام کاکہنا تھاکہ سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد کو کسی بھی اہم میٹنگ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے ۔
اس لیے کہ یہ وزیراعظم نواز شریف کو کسی قسم کی مراعات دینے سے روک سکتے ہیں‘‘۔ ’’بلیئر ہاؤس سمٹ کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے کلنٹن کو کہاکہ وہ ایک معتدل مزاج انسان ہیں۔ اور امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ ہندوستان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرے ۔نواز شریف کی آواز میں کسی قسم کا کوئی اعتماد نہیںتھا‘‘۔ 12اکتوبر 1999کے فوجی ٹیک آور کے مطلق شمشاد صاحب لکھتے ہیں۔’’کہ اس دن صبح سے یہ اندازہ ہو رہا تھاکہ کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہے ۔ پانچ بجے شام کو میں آفس میں بیٹھا تھا جب سبز سرکاری فون پر نواز شریف نے کال کی اور کہا کہ شمشاد صاحب یہ لوگ آ چکے ہیں ‘‘۔
’’ رات گئے جی ایچ کیو سے جنرل عزیز سی جی ایس کا فون آیا کہ آ پ نے صبح سات بجے جی ایچ کیو پہنچنا ہے۔ اور آپ جنرل مشرف سے ملنے والے پہلے فیڈرل سیکریٹری ہوں گے۔ شمشاد صاحب کے بقول جب وہ صبح سات بجے جی ایچ کیو پہنچے تووہاں امریکی سفیر ویلم میلام اور ملیحہ لودھی پہلے سے موجود تھیں۔ میں نے ہمیشہ یہ گمان رکھا ہے کہ سویلین قیادت اپنی نا اہلی کی بدولت ریاستی اداروں کو جگہ فراہم کرتی ہے جہاں وہ ملک پر بڑے آرام سے قابض ہوجاتے ہیں۔ جنرل مشرف نے اپنے آپ کو ایک رحم دل ڈکٹیٹر کے طور پر متعارف کروایا اور اس نے مارشل لاء لگانے سے انکار کر دیا‘‘۔
’’مشرف ‘ چیف ایگزیکٹو بننے کے بعد 25 اکتوبر کو ریاض پہنچے ۔ کنگ فہد اور ان کی ٹیم نے جنرل مشرف کو حددرجہ عزت و احترام دیا۔ ایک دن بعد ولی عہد عبداللہ سے یانبو شہر میں مشرف کی ملاقات ہوئی ۔ پرویز مشرف نے ولی عہد کو پاکستان کی صورت حال سے مکمل طور پر آگاہ کیا۔ رات کے کھانے کے بعد تقریباً کئی گھنٹے کی علیحدہ ملاقات ہوئی۔ جس کے بعد ولی عہد اور مشرف باہر نکلے تو ان کے ہاتھوں میں رقص کرنے والی تلواریں تھیں۔انھیں ناچتا دیکھ کر تمام سعودی بھی اس میں شامل ہو گئے۔ یہ اس چیز کی طرف واضح اشارہ تھا کہ سعودی حکومت نے مشرف کی حکومت کو تسلیم کر لیا ہے‘‘۔
25مارچ 2002 امریکی صدر ہندوستان سے اسلام آباد آئے۔کلنٹن صرف چھ گھنٹے کے لیے اسلام آباد رکے اور وہ ایک ایسے جہاز میں آئے جس کے اوپر کسی قسم کے نشانات نہیںتھے ۔ صدر کلنٹن کو جنرل مشرف کے پاس لے جایاگیا جہاں ان قائدین کی طویل ملاقات ہوئی مگر اس میٹنگ کا کوئی نتیجہ نہیںنکلا۔ صدر کلنٹن نے پرویز مشرف کو یہ ضرور کہا کہ نواز شریف کو پھانسی نہیں لگنی چاہیے۔ بعد میں امریکی صدر کلنٹن نے جنرل مشرف کو مجبور کیا کہ وہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے لیے معافی کا اعلان کریں۔اور اس کے بعد انھیں سعودی عرب روانہ کر دیا جائے‘‘۔
’’اپریل 2000 میں کیوبا میں جی77 کی میٹنگ ہوئی۔ اس میں جنر ل مشرف بھی شامل تھے۔یہ اپریل 12سے لے کر 14تک رہی ۔ پہلے دن یاسر عرفات جو پی ایل او کے چیئرمین تھے‘ ان کے ساتھ مشرف کی میٹنگ ہوئی۔ اس ملاقات کی خاص بات یہ تھی کہ یاسر عرفات نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا ۔ کہا کہ تمام عرب دنیا فلسطین کے معاملے کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔اگر پاکستان بھی اس معاملے میں مثبت کردار ادا نہیں کرتا ‘ تو فلسطین کا ایشو ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ اسامہ بن لادن کے متعلق دلچسپ جملے درج کیے گئے ہیں۔
9/11 کی تباہی کو اسامہ بن لادن سے جوڑا گیا ۔ مگر پروفیسر برہان الدین ربانی نے بار بار کہا کہ اتنا مربوط ‘ تکنیکی طور پر حد درجہ پروفیشنل آپریشن کرنا طالبان اور اسامہ بن لادن کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے متعلق شمشاد احمد لکھتے ہیں کہ ان کے پاس پی ایم ن کے رہنما احسن اقبال آئے۔ اورمسلم لیگ ن میں شمولیت کی دعوت دی۔ جومیں نے رد کردی۔بالکل اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو نے جہانگیر بدر کو بھیجاکہ میں پیپلز پارٹی میں آ جاؤں۔ مگر میں نے پھر انکار کر دیا۔
2013میں شہباز شریف نے دعوت دی کہ میں سیاسی حکومت کے لیے کوئی ایساایجنڈا ترتیب کروں جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ جب میٹنگ شروع ہوئی تو میں نے نظام کی تبدیلی کے متعلق طویل تجاویز دیں۔ چوہدری نثار علی خان نے برجستہ کہا کہ شمشاد صاحب نظام کو تبدیل نہیں کرنا۔ اس کے بعد میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ صدمے اور غصے کی حالت میں میٹنگ سے اٹھ کر واپس آ گیا ۔ کتاب کے آخر میں احمد ندیم قاسمی صاحب کا ایک قطعہ بھی درج ہے۔
کیا اپنا سراغ خودنہیں پاؤ گے؟
کیا پھرکوئی اجنبی بلا لاؤ گے؟
یہ راہ تو اس موڑ پہ مڑ جائے گی
اے اہل وطن! کہو‘ کہاں جاؤ گے
سنجیدہ رائے ہے کہ پاکستان کے معاملات پر اتنی سبق آموز اور حقائق پر مبنی کتاب شاید اب تک نہیں لکھی گئی۔ یہ عظیم کام شمشاد صاحب کے ذمے آن پڑا تھا جسے انھوں نے حد درجہ ایمان داری اور خوبصورتی سے سرانجام دیا۔ پاکستان کے ہر سنجیدہ انسان کے پاس یہ کتاب ہونی چاہیے ۔ تاکہ ہم لوگ اصل اور نقل کا فیصلہ کر سکیں۔ اور شاید ہمارا مستقبل بہتر ہو سکے۔جس کی مجھے قطعاً کوئی امید نہیںہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نواز شریف صدر کلنٹن کے متعلق کے بعد تھا کہ کہا کہ کر دیا
پڑھیں:
ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔
انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔
عالمی تحقیق اور ابتدا
ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔
پاکستان میں ضرورت
پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔
مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔
سماجی اور مذہبی رکاوٹیں
پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔
اسلامی ممالک اور علما کا موقف
کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔
اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔
مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔
یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔