Express News:
2025-11-03@14:40:20 GMT

بارشوں سے تباہی : اسباب اور سدباب

اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT

1970 میں سائنسدانوں نے انکشاف کیا کہ انسان کی ماحول خراب کرنیوالی سرگرمیوں سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ 1974 میں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ صنعتی کارخانوں سے کئی طرح کی زہریلی گیسز نکل کر اس اوزون کی سطح کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

ساتھ ہی خبر دار بھی کیا گیا کہ اگر اس عمل کو نہ روکا گیا تو آنیوالے 75 برسوں میں اس تہہ کا مکمل خاتمہ بھی ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں انتہائی خطرناک سمندری طوفان اور سیلابوں کے آنے کا بھی خطرہ ہے، نیز دنیا بھر کا درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔

جے۔ ڈائیمنڈ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ جنگلات کو گزشتہ پچاس برسوں میں اتنا نقصان نہیں پہنچایا گیا جتنا کہ موجودہ جدید دور میں پہنچایا گیا، اگر جنگلات اسی طرح کاٹے جاتے رہے تو آیندہ پچاس برسوں میں جنگلات کا مزید ایک چوتھائی حصہ ختم ہوجائے گا اور پھر اس کا خمیازہ تمام دنیا کو بھگتنا ہوگا۔

بارشوں میں کمی ہوگی یا پھر طوفانی ہوں گی، زمین کی زرخیزی ختم ہوجائے گی، درجہ حرارت بڑھنے سے سخت گرمی پڑے گی، پانی کے ذخائر اور پیداوار ختم ہوتی چلی جائی گی، خشک سالی میں اضافہ ہوگا۔ غرض ڈائیمنڈ نے آیندہ ہونے والے نقصانات کی ایک بڑی تفصیل بیان کی ہے، جو باتیں اس نے بیان کی ہیں، ان کا اظہار دنیا بھر میں بھرپور طریقے سے شروع ہوچکا ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والی ترقیاتی سرگرمیوں کے نتیجے میں پاکستان مشکلات میں گھرگیا ہے اور وقفے وقفے سے مختلف قسم کے طوفانوں سے تباہی پر تباہی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے پاکستان کے مسائل میں سخت قسم کا اضافہ ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں مسلسل جو تباہی کے واقعات سامنے آرہے ہیں، کیا اس میں ہم پاکستانیوں کا بھی کچھ ہاتھ ہے؟ غورکریں تو اس تناظر میں ہمارا قصور بھی بہت بڑا ہے۔

مثلاً درختوں کی کٹائی تو دنیا بھر میں جاری ہے مگر ہم اپنی ہی گھر میں خود یہ کام بہت تیزی سے کر رہے ہیں اور یہ کام صرف کراچی جیسے شہروں میں ترقی کے نام پر نہیں ہو رہا ہے بلکہ شمالی علاقہ جات میں بھی ہو رہا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں قیمتی زمین حاصل کرنے کے لیے پانی گزرنے کے قدرتی راستوں کو بند کیا گیا اور اس ملک کے شمالی علاقہ جات میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا وہ وہاں سیاحوں سے پیسہ حاصل کرنے کے لیے آبی گزرگاہوں پر ہوٹل بنائے گئے۔

اسی طرح ان علاقوں سے درختوں کی کٹائی سے بھی خوب کمائی کی گئی اور یہ عمل پورے ملک میں تاحال جاری ہے۔ یہ تو ’’ کامن سینس‘‘ کی بات ہے کہ جب کسی آبی گزرگاہ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا تو پانی اپنا راستہ کہیں نہ کہیں سے تو بنائے گا۔ یوں عالمی ماحولیاتی مسائل کے سبب جب بارشوں اور سمندروں میں شدت پیدا ہوئی تو انھوں نے اپنا راستہ خود بنایا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ کراچی سے لے کر شمالی علاقہ جات،کشمیر تک کیا کچھ تباہی ہوئی اور یہ تو ابھی آغاز ہے۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم ان آنے والی تباہیوں کے اسباب کو سمجھیں کیونکہ اس کے اسباب سمجھ کر ہی ان کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔ عموماً یہ سمجھا جا رہا ہے کہ صرف درختوں کی کٹائی ہی اس کا سبب ہے جب کہ ایسا قطعی نہیں ہے، یہ صرف ایک سبب ہے۔ ہمیں قدرتی عمل میں جو بھی رکاوٹیں ہیں، ان کو بھی سمجھنا چاہیے۔

مثلاً قدرتی آبی گزرگاہوں کے راستوں کو نہ صرف کھلا رکھنا چاہیے، یعنی محض پیسہ کمانے کے لیے ان کے راستے بند نہیں کرنا چاہیے، نیز اب ان راستوں کو اور وسیع اور رواں کرنا چاہیے کیوں کہ آنیوالے وقتوں میں اس قسم کے سیلابوں وغیرہ کے واقعات اور شدت دونوں میں اضافہ ہوگا۔

ہماری قومی ترقی والی پالیسیوں میں یہ خرابی بھی ہے کہ ہم ترقی کے لیے قدرتی چیزوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں یہ بہت خطرناک عمل ہے مثلاً قیمتی زمین دیکھ کر کنکریٹ کی عمارتیں، سڑکیں وغیرہ بنا دیتے ہیں اور بڑا احسان کرتے ہیں تو ازالے کے طور پرکہیں اور درخت، سبزہ وغیرہ لگا دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ قدرتی چیزیں قدرتی ہی ہوتی ہیں۔

کراچی جیسے شہر میں پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر آبادیاں قائم کردی گئیں، حالانکہ یہ پہاڑیاں قدرت کے سسٹم کا ایک حصہ تھیں۔ اسی طرح ایک عام آدمی میں یہ شعور تو آگیا ہے کہ درخت لگائے جائیں مگر یہ شعور ابھی تک نہیں آیا کہ اشیاء کا استعمال کم سے کم کیا جائے اور سادگی اپنائی جائے،کیونکہ اشیاء جتنا زیادہ استعمال ہوں گی، اتنا ہی ماحولیات کے مسائل جنم لیں گے۔

آج کا انسان ہر لمحے نئی سے نئی شئے حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے دن رات تگ و دو میں لگا رہتا ہے، اگر پیدل ہے تو موٹر سائیکل، موٹر سائیکل ہے تو کار،کار ہے تو لگژری کار حاصل کرنا چاہتا ہے، ایک جوڑا پہننے کو ہے تو کئی جوڑے خریدنا چاہتا ہے، مگر اس کے اس عمل سے اس کرہ ارض کو کیا نقصان پہنچے گا، اس کا احساس نہیں، مثلاً ایک شخص کے پاس پہننے کو دو جوڑے جوتے ہیں مگر وہ تیسرا جوڑا خریدتا ہے اور اپنے اس عمل سے سمجھتا ہے کہ اس کائنات کو اس کے ایک جوتے جوڑے سے کیا نقصان پہنچے گا؟

لیکن یہی سوچ کر اگر اس دنیا کے محض ایک ارب انسان جوتے کا جوڑا خریدیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ کارخانوں میں ایک ارب جوتے تیار ہوئے، ظاہر ہے کہ جب ایک ارب جوتے تیار ہونگے تو کس قدر وقت مشینیں چلی ہوں گی اورکس قدر توانائی خرچ ہوئی ہوگی اور اس کے نتیجے میں کس قدر کاربن خارج ہوکر فضا میں شامل ہوئی ہوگی؟

آج ہم ہر موقعے پر کپڑے کا نیا جوڑا اور نئے جوتے پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں،گھر میں اور باہر استعمال کی ہر اشیاء بالکل نئے ماڈل کی چاہتے ہیں اور پرانی کو پھینکے کا سوچتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے استعمال کی ہر شئے ہی کسی مشین پر،کسی کارخانے میں بنتی ہے اور اس عمل سے ماحول میں کاربن شامل ہوتی ہے اور ہماری کائنات کو نقصان پہنچتا ہے، وہ بھی ایسا نقصان کہ جس سے طوفان آتے ہیں، درجہ حرارت بڑھتا ہے اور زندگی جہنم بننے لگتی ہے۔

کتنی عجیب سی بات ہے کہ آج ہم وہ اشیاء بھی استعمال کرنے کے لیے تڑپتے ہیں کہ جو ہماری بنیادی ضرورت نہیں اور ہم اس کے بغیر بھی گزارا کرسکتے ہیں۔ ایک پرانا موبائل ہمیں رابطہ رکھنے کو سہولت دیتا ہے مگر ہم موبائل کے ہر نئے آنیوالے ورجن یا ماڈل کو حاصل کرنا چاہتے ہیں،گھر میں ٹی وی ہے مگر ایل ای ڈی لانا چاہتے ہیں،گاڑی ہے مگر نئے ماڈل کی مہنگی گاڑی چاہتے ہیں۔

ہم تو گھر سے باسکٹ یا تھیلا لے جا کر سودا خریدنے کی بھی زحمت نہیںکرتے، ہرکوئی بازارکے شاپر میں اشیاء خرید کر لاتا ہے اور پھر یہی شاپرگلی، محلے اور سڑکوں کے ساتھ قائم برساتی نالوں کو بھی بند کردیتے ہیں جس سے تھوڑی سی بارش ہونے پر بھی شہروں میں ’’ اربن فلڈ ‘‘ کا سما ہوجاتا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ شہری بھی اپنی ذمے داریوں کو محسوس کریں، ماحولیات کے مسائل کو سمجھیں اور حکومت وقت بھی ماحولیات مسائل کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائے اور خاص کر ایمرجنسی میں عالمی معیار کی سہولیات کا انتظام کرے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرنے کے لیے چاہتے ہیں دنیا بھر ہیں اور ہے اور ہے مگر اور یہ اور اس رہا ہے

پڑھیں:

تجدید وتجدّْد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

 

3

مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔

متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔

تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)

آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔

الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔

غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • محکمہ موسمیات کی کل سے پنجاب کے بیشتر اضلاع میں بارشوں کی پیشگوئی
  • محکمہ موسمیات کی کل سے پنجاب کے بیشتر اضلاع میں بارشوں کی پیشگوئی
  • 4، 5 نومبر کو ہلکی بارشوں اور پہاڑی علاقوں میں برف باری کی پیشگوئی، پی ڈی ایم اے نے الرٹ جاری کردیا
  • تجدید وتجدّْ
  • پنجاب بڑی تباہی سے بچ گیا، 18 دہشت گرد گرفتار
  • سمندری طوفان نے کیوبا، جمیکا اور ہیٹی میں تباہی مچا دی؛ ہلاکتوں کی تعداد 60 ہوگئی
  • پنجاب بڑی تباہی سے بچ گیا، خطرناک دہشتگرد تنظیم کے اہم رکن سمیت 18دہشتگرد گرفتار
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • نیویارک میں موسلادھار بارش سے تباہی‘ 2افراد ہلاک
  • تجدید وتجدّْد