سیاہ فام امریکی کھلاڑی کو ‘ان پڑھ’ کہنے پر فرنچ ٹینس اسٹار نے معافی مانگ لی
اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT
فرانسیسی ٹینس اسٹار اور سابق اوپن چیمپئن یلینا اوسٹا پینکو نے امریکی ٹینس کھلاڑی ٹیلر ٹاؤن سینڈ سے ان پڑھ کہنے پر معافی مانگ لی ہے۔
یو ایس اوپن کے دوسرے راؤنڈ میں ٹاؤن سینڈ نے اوسٹا پینکو کو 5-7، 1-6 سے شکست دی تھی۔ میچ کے اختتام پر دونوں کھلاڑیوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جب اوسٹا پینکو نے حریف کے لیے نیٹ کورڈ شاٹ پر معافی نہ مانگنے پر ‘ان پڑھ’ اور ‘بغیر حیثیت’ کے الفاظ استعمال کیے۔
ٹاؤن سینڈ نے بعد میں بتایا کہ وہ اوسٹا پینکو کے ان ریمارکس سے دکھی ہوئیں لیکن انہیں نسلی رنگ دینے سے گریز کیا۔ تاہم سابق عالمی نمبر ون نائومی اوساکا نے کہا کہ ایک سیاہ فام کھلاڑی کو ان پڑھ کہنا سب سے تکلیف دہ جملوں میں سے ایک ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ٹینس کوئین مونیکا سیلیس کو نایاب بیماری کا سامنا
اوسٹا پینکو نے انسٹاگرام پر وضاحت دی کہ انگریزی ان کی مادری زبان نہیں ہے اور ‘ایجوکیشن’ سے مراد دراصل ٹینس کے آداب تھے مگر انہیں اندازہ ہے کہ ان الفاظ سے کئی لوگوں کو دکھ پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک کھلاڑی اور انسان کے طور پر سیکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ٹاؤن سینڈ نے کہا کہ انہیں اوسٹا پینکو کی ذاتی معافی موصول نہیں ہوئی لیکن عوامی معافی خوش آئند ہے۔ ان کے مطابق اوسٹا پینکو نے اپنی توقعات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی اور جب انہیں اپنی مرضی کے ردعمل نہ ملا تو وہ غصے میں آ گئیں۔
میچ کے بعد اوسٹا پینکو کو کورٹ سے جاتے وقت ناظرین نے بُوؤ کیا جبکہ ٹاؤن سینڈ نے مداحوں کے ساتھ بھرپور جشن منایا۔ اوسٹا پینکو نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی نسل پرست نہیں رہیں اور سب قوموں کا احترام کرتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
تنازع ٹینس کھیل معافی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹینس کھیل معافی اوسٹا پینکو نے ٹاؤن سینڈ نے ان پڑھ کہا کہ
پڑھیں:
یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
بھارت میں یکم نومبر 1984 وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم ہوئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتلِ عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے، جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔
یکم نومبر 1984 بھارت کی سیاہ تاریخ کا وہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا، جس دوران ہزاروں سکھ مارے گئے جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ جریدہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کی شناخت اور پتوں کی معلومات حاصل کیں اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔
شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔
انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں کی نشاندہی کرتے، اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوکر سکھ مکینوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے۔ یہ خونیں سلسلہ تین دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔
1984 کے سانحے سے قبل اور بعد میں بھی سکھوں کے خلاف بھارتی ریاستی ظلم کا سلسلہ تھما نہیں۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر، اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی فسادات کے دوران سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہی نہیں، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے سمندر پار مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔
18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔
ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے، جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔