قومی سلامتی اور دہشت گردی کا چیلنج
اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT
پاکستان کی قومی سلامتی کا ایک بنیادی نقطہ یہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کیسے کرنا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی ایک بڑا قومی مسئلہ ہے جو کئی دہائیوں سے درپیش ہے ۔
دہشت گردی کے معاملات کا تعلق داخلی ، علاقائی اور عالمی سیاست سے بھی جڑا نظر آتا ہے ۔دہشت گردی کے معاملات کو قومی ،علاقائی اور گلوبل فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
ریاست اور حکومت کئی برسوں سے اس اہم نقطہ پر زور دے رہی ہیں کہ بھارت اور افغانستان سے پاکستان کے خلاف نہ صرف پراکسی جنگ لڑی جا رہی ہے بلکہ جو بھی دہشت گرد تنظیمیں ہیں، ان کی سرپرستی اور سہولت کاری بھی ان ممالک سے ہو رہی ہے۔ ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں اور اس جنگ کے خاتمہ میں کافی کامیابیاں بھی ملی ہیں مگر یہ چیلنج بدستور موجود ہے اور ختم نہیں ہو رہا ۔
حالیہ کچھ عرصہ میں صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے تواتر سے ہونے والے واقعات نے ایک بار پھر اس مسئلہ کی سنگینی کو اجاگر کیا ہے۔ ریاست کی رٹ کو جس انداز سے ان دونوں صوبوں میں دہشت گردوں نے چیلنج کیا وہ واقعی ایک بڑے خطرے کی نشان دہی کرتا ہے۔ دہشت گردی کے تناظر میں کچھ داخلی وجوہات ہیں ۔
ان میں حکومتی اداروں کی غیرفعالیت اور عدم صلاحیت، صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور جوابدہی کا نظام نہ ہونا ، عدالتی نظام کی کمزوری اور سیاسی اتفاق رائے میں کمی جیسے اہم مسائل موجود ہیں۔اس لیے ہم دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اپنے داخلی مسائل کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔
یہ جو ہم نے نیشنل ایکشن پلان اور قومی سیکیورٹی پالیسی بھی تشکیل دی ہوئی ہے اور معاملات کی نگرانی اور فیصلوں کی شفافیت کے لیے قومی،صوبائی اور ضلعی سطح پر اپیکس کمیٹیاں تشکیل دی ہوئی ہے جس کی سربراہی وفاق اور صوبوں کی سطح پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اور ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ جس میں سول اور عسکری اداروں کے سربراہان شامل ہوتے ہیں لیکن ان کی فعالیت اور فوری فیصلوں سمیت عملدرآمد کے نظام میں بہت سی خامیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
اس وقت بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گرد جدید ہتھیاروں سمیت نئی ٹیکنالوجی بشمول ڈرون کو بھی استعمال کررہے ہیں یعنی اب دہشت گردوں کے پاس بھی ڈرون ٹیکنالوجی موجود ہے ۔وہ اسے دہشت گردی میں اب کھل کر استعمال کررہے ہیں۔یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردوں کی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی صلاحیت بڑھی ہے اور اس نے ہماری ریاست کے لیے نئی مشکلات پیدا کی ہیں۔مقامی آبادی میں خوف کی فضا طاری ہے اور مقامی آبادی کو لگتا ہے کہ ان کے لیے غیر یقینی صورتحال میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی جانب سے حملوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جن میں ہمارے جوان ،سیکیورٹی فورسز اور مقامی لوگوں کی شہادتیں بھی ہوئی ہیں۔اس لیے دہشت گردی کے واقعات اوراس میں سامنے آنے والے نئے رجحانات چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔ اسی طرح مسئلہ محض ٹی ٹی پی ہی نہیں بلکہ نئے اور گروپس بھی مختلف ناموں کے ساتھ میدان میں موجود ہیں جو ریاست کی رٹ کو مختلف انداز میں چیلنج کررہے ہیں۔ یہ ہی صورتحال بلوچستان کی بھی ہے جہاں مقامی سہولت کاری کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔وفاقی حکومت اور دونوں صوبائی خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں کی درمیان بھی رابطہ کاری اور حکمت عملی میں تضاد نظر آتا ہے ۔
باجوڑ آپریشن پر بھی صوبائی حکومت کی ڈھلمل پالیسی اور صوبائی سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی میں تضاد ہے۔ حالیہ عوامی نیشنل پارٹی سمیت پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی مشترکہ کانفرنس یا جرگوں کی سطح پر جاری ہونے والے اعلامیہ میں بھی صوبہ میں آپریشن کی مخالفت کی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور مذہبی قیادت دہشت گردی اور انتہاپسندی کے ایشوز کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہیں، خود مولانا فضل الرحمن بھی آپریشن کی مخالفت کررہے ہیں۔
ایک بات تو یہ سمجھنی ہوگی کہ دہشت گردی صوبائی مسئلہ نہیں، یہ ایک قومی مسئلہ ہے، دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ کرنا وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتوں کا آئینی و قانونی فرض ہے کیونکہ اگر اس طرز کی دہشت گردی جاری رہتی ہے یا اس میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو اس کا براہ راست اثر مجموعی طور پر پورے پاکستان پر پڑے گا۔ ان ملکوں کی مداخلت کا مقابلہ کرنا اور ان سے نمٹنا اصل چیلنج کے زمرے میں آتا ہے۔حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ حکام کے درمیان ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں، بعض حلقے ان ملاقاتوں کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ بہتری کے اشارے قرار دیتے ہیں ، یہ حلقے یہ دعوے بھی کرتے ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے یقین دلایا ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ٹی ٹی پی کی دہشت گردی پر مبنی جو بھی کارروائیاں ہورہی ہیں، ان کو روکنے میں مدد ملے گی۔اس لیے افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری آنا جہاں دونوں ممالک کے فائدے میں ہے وہیں خطہ کی سیاست میں بھی استحکام دیکھنے کو ملے گا۔ ان خوش گمان حلقوں کی باتیں یا رائے اس وقت ہی درست قرار دی جاسکتی ہے ، جب افغانستان کے طالبان حکمران اپنے دعوؤں اور وعدوں کو عملی شکل دے کر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا صوبائی حکومت دہشت گردی کے دیکھنے کو کررہے ہیں رہی ہیں ہے اور
پڑھیں:
پنجاب اسمبلی میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی دہشت گردی کیخلاف قرارداد منظور
پنجاب اسمبلی میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ہے۔
پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں قرارداد حکومتی رکن اسمبلی رانا محمد ارشد نے پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان فلسطین ، خصوصاً غزہ میں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں معصوم بچوں کے قتل عام ،نسل کشی، بھوک، علاج اور پناہ سے محرومی کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ درجنوں بچے روزانہ شہید ہو رہے ہیں اور ہزاروں بھوک، زخم اور خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہ ایوان قرار دیتا ہے کہ یہ ظلم بین الا قوامی قوانین، اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنونشن اور بنیادی انسانی اقدار کی صریح خلاف ورزی ہے۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان فوری اور مؤثر سفارتی اقدامات کرے تا کہ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم میں جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
اس کے علاوہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو جنگی جرائم پر جوابدہ ٹھہرائے، انسانی ہمدردی کی تنظیمیں فوری طور پر فلسطینی بچوں کو خوراک، علاج اور پناہ فراہم کریں۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان فلسطین کے مظلوم عوام اور معصوم بچوں کے ساتھ بھر پور یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور اُن کی آزادی اور انسانی حقوق کی جدوجہد کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔