تقریبا ًآدھا پاکستان اس وقت زیر آب ہے۔ ایسا لگتا ہے، اس قوم نے گزشتہ پون صدی میں تنکا تنکا جوڑ کر جو آشیانہ بنایا تھا، پانی وہ سب بہا لے جائے گا۔ فوری اور تازہ ترین مسئلہ تو یہی لیکن دوسری طرف بھارت کی آبی جارحیت ہے۔ مئی کے معرکے میں شکست کھا جانے کے بعد بھارت نے پہلے انڈس واٹر ٹریٹی سے نکل جانے کا اعلان کیا پھر بارشوں کی وجہ سے اس کے ڈیم بھر گئے تو اس نے روکا ہوا پانی بہ مع بارشوں کے پانی کے پاکستان پر واٹربم چلا دیا ۔ اس سے پہلے خیبر پختون خوا ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بارشیں اور گلیشیرز کے پگھلنے سے تباہی مچ چکی تھی جس میں سینکڑوں قیمتی جانوں کے ساتھ بھاری مالی نقصان پہنچ چکا تھا ۔ اسی سبب سے پہلے سے اقتصادی مسائل کے شکار پاکستان پر معاشی بوجھ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے پاکستان کے لیے مستقل نقصان کا باعث بننے والے اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
اس سوال کا ایک آسان جواب تو یہ ہے کہ کبھی پانی کی کمی اور کبھی بے قابو سیلابی ریلے ہمیں بار بار یہ احساس دلاتے ہیں کہ پاکستان پانی ذخیرہ کرنے کسی مؤثر نظام سے محروم ہے۔بڑے ڈیم بنانے کی بات ہمیشہ ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں بدقسمتی سے یہ معاملہ متنازع ہو چکا ہے۔دوسرے بڑے ڈیموں کی تعمیر وقت طلب اور مہنگا معاملہ ہے،ایسی صورت میں فوری اور متبادل راستہ کیا ہو؟
پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز (PCRWR) کی تحقیق کے مطابق اس سوال کا جواب چھوٹے ڈیم فراہم کر سکتے ہیں۔ چھوٹے ڈیم بڑے ڈیموں کی جگہ نہیں لے سکتے لیکن ان کی کچھ خوبیاں بھی ہیں۔انھیں گاؤں دیہات اور مخصوص علاقوں کی ضرورت کے مطابق بنایا جاتا ہے۔یوں یہ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور زمینی حالات سے مطابقت رکھتے ہوئے اور فوری ، کم لاگت اور مؤثر حل پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں چند مقامات کو ہدف بنا کر کام کیا جائے تو اچھے نتائج میسر آسکتے ہیں جیسے پوٹھوہار۔
پوٹھوہاربارانی خطہ ہے۔ یہاں بارش خوب ہوتی ہے لیکن یہ پانی فوراً ہی دریاؤں میں جا گرتا ہے جس کی وجہ سے یہ خطہ مستقل طور پر پانی کی کمی کا شکار رہتا ہے۔ اگر یہاں بارانی پانی جمع کرنے والے چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں تو نہ صرف زراعت ترقی کرے گی بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بلند ہو جائے گی۔ ڈاکٹر پرویز عامر جیسے ماہرین اس خطے کو بارش کے پانی کو سنبھالنے کے لیے سب سے زیادہ موزوں قرار دیتے ہیں۔
کوہِ سلیمان کے دامن میں بسنے والے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اچانک آنے والے سیلابی ریلے کس طرح بستیاں اجاڑ دیتے ہیں۔ ہر سال یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ہم کچھ کر نہیں پاتے۔ اگر یہاں چھوٹے حفاظتی ڈیم بنادیے جائیں تو یہ ریلے قابو میں آ سکتے ہیں۔ نہ صرف انسانی جانیں اور فصلیں بچ سکتی ہیں بلکہ یہ پانی بعد میں کھیتی باڑی اور چراگاہوں کے لیے بھی کارآمد ہو سکتا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کی رپورٹیں اس جانب توجہ مبذول کراچکی ہیں۔
کوہاٹ کی وادی اپنی زرخیزی کے باوجود پانی کی کمی کا شکار رہتی ہے۔ چھوٹے ڈیم یہاں زندگی بدل سکتے ہیں۔ زرعی زمینوں کو سیراب کرنے والے یہ ڈیم مقامی زراعت کو نئی زندگی بخش سکتے ہیں بلکہ مقامی آبادی کے لیے پینے کا پانی بھی فراہمی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ یوں ایک چھوٹا سا منصوبہ بڑے معاشی اثرات کو ممکن بنا سکتا ہے۔
بلوچستان کے وسیع اور بلند علاقے بارش کی کمی کے باعث خشک سالی کا شکار رہتے ہیں۔ لیکن جب بارش ہوتی ہے تو پوٹھو ہار کی طرح پانی بہہ کر فوراً ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ چیک ڈیم اور بارش کا پانی ذخیرہ کرنے والے ڈیم اس خطے کی ضرورت ہیں۔ یہ ڈیم زیرِ زمین پانی کی سطح بلند کرنے میں بھی مددگار بننے کے علاوہ خشک سالی میں بھی کمی لا سکتے ہیں۔ عالمی بینک (World Bank) اور International Water Management Institute (IWMI) کی رپورٹوںمیں بھی بلوچستان کے لیے ایسے منصوبوں کی سفارش کی گئی ہے۔
چترال اور گلگت بلتستان کے لوگ گلیشیئر پگھلنے اور اچانک پھٹنے سے بننے والی جھیلیں بن جانے جیسے مسائل کا ہمیشہ شکار رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہنستی بستی بستیاںدیکھتے ہی دیکھتے لقمۂ اجل بن جاتی ہیں۔ محکمہ موسمیات کے ایک سابق افسر اعلیٰ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق شمالی علاقہ جات کا یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ایسے خطوںمیں چھوٹے حفاظتی ڈیم زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ بڑھاسکتے ہیں۔ ایسے ڈیموں کی مدد سے نہ صرف اچانک آنے والے ریلوں کو روکا جا سکتا ہے بلکہ پانی کو محفوظ طریقے سے پانی کو ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔
بڑے آبی ذخائر اور بڑے ڈیموں کو طویل المعیاد منصوبہ قرار دے کر مسئلے کے فوری حل پر توجہ دی جائے تو چھوٹے ڈیم مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق چھوٹے ڈیموں کے تین بڑے فوائد ہو سکتے ہیں:
١۔ مقامی سطح پر فوری آبی تحفظ۔
٢۔ زیرِ زمین پانی کی سطح میں بہتری۔
٣۔کم لاگت اور کم وقت میں فوری نتائج۔
لہٰذا ناگزیر ہے کہ پوٹھوہار، ڈیرہ غازی خان، کوہاٹ، بلوچستان اور شمالی علاقہ جات کو ہدف بنا کر فوری طور پر اقدامات کیے جائیں تو اس کے نتیجے میں پانی کے نئے ذخائر میسر آجانے کے علاوہ زیر زمین پانی کی سطح میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور مستقل طور پر سیلابوں کا نشانہ بننے والے علاقے اس خطرے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سفارشات بھی ان تجاویز کی تائید کرتی ہیں۔
حرفِ آخر یہ کہ پاکستان کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ہمارے پاس پانی کم ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں جو پانی میسر ہے اسے سنبھالنے کا انتظام ہم نہیں رکھتے۔ اس پر مستزاد بھارت کا مکارانہ طرز عمل ہے لیکن اگر ہم ان اور ان جیسے دیگر اقدامات کر لیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں بھارت سے آنے والے سیلابی ریلوں کوبھی سنبھالا جا سکتا ہے۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف سیلابوں کے خطرے سے نمٹا جا سکتا ہے بلکہ پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سوشل میڈیا اسٹار احمد شاہ کے چھوٹے بھائی انتقال کرگئے
پاکستان کے معروف ننھے سوشل میڈیا اسٹار احمد شاہ کے چھوٹے بھائی عمر شاہ انتقال کرگئے۔
یہ افسوسناک خبر احمد شاہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کرتے ہوئے مداحوں کو اطلاع دی۔ پوسٹ میں لکھا گیا ’’ہمارے خاندان کا ننھا چمکتا ستارہ عمر شاہ خالقِ حقیقی سے جا ملا۔‘‘ ساتھ ہی مداحوں سے ان کی مغفرت اور اہلِ خانہ کے لیے صبر کی دعا کی درخواست بھی کی گئی۔
عمر شاہ اپنی معصوم مسکراہٹ اور شرارتی طبیعت کے باعث مداحوں میں بے حد مقبول تھے۔ وہ اکثر اپنے بڑے بھائی احمد شاہ کے ساتھ ویڈیوز اور ٹی وی پروگرامز میں دکھائی دیتے تھے، خصوصاً رمضان ٹرانسمیشن کے دوران ان کی موجودگی ناظرین کو بہت پسند آتی تھی۔
پیر کی صبح احمد شاہ کے تصدیق شدہ فیس بک اکاؤنٹ سے بھی ان کے انتقال کی خبر دی گئی، تاہم موت کی وجہ بیان نہیں کی گئی۔
https://www.facebook.com/share/p/163hfwxr4g/
واضح رہے کہ گزشتہ برس جولائی میں عمر شاہ کی آنکھوں کی موتیا سرجری ہوئی تھی، تاہم ان کے انتقال کی اصل وجہ سامنے نہیں آ سکی۔ اچانک وفات کی یہ خبر احمد شاہ کے خاندان کے ساتھ ساتھ ان کے لاکھوں چاہنے والوں کے لیے بھی صدمے کا باعث بنی ہے۔