Express News:
2025-11-02@23:18:44 GMT

آبی آفات کا فوری علاج

اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT

           تقریبا ًآدھا پاکستان اس وقت زیر آب ہے۔ ایسا لگتا ہے، اس قوم نے گزشتہ پون صدی میں تنکا تنکا جوڑ کر جو آشیانہ بنایا تھا، پانی وہ سب بہا لے جائے گا۔ فوری اور تازہ ترین مسئلہ تو یہی لیکن دوسری طرف بھارت کی آبی جارحیت ہے۔ مئی کے معرکے میں شکست کھا جانے کے بعد بھارت نے پہلے انڈس واٹر ٹریٹی سے نکل جانے کا اعلان کیا پھر بارشوں کی وجہ سے اس کے ڈیم بھر گئے تو اس نے روکا ہوا پانی بہ مع بارشوں کے پانی کے پاکستان پر واٹربم چلا دیا ۔ اس سے پہلے خیبر پختون خوا ، گلگت  بلتستان اور آزاد کشمیر میں بارشیں اور گلیشیرز کے پگھلنے سے تباہی مچ چکی تھی جس میں سینکڑوں قیمتی جانوں کے ساتھ بھاری مالی نقصان پہنچ چکا تھا ۔ اسی سبب سے پہلے سے اقتصادی مسائل کے شکار پاکستان پر معاشی بوجھ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے پاکستان کے لیے مستقل نقصان کا باعث بننے والے اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

            اس سوال کا ایک آسان جواب تو یہ ہے کہ کبھی پانی کی کمی اور کبھی بے قابو سیلابی ریلے ہمیں بار بار یہ احساس دلاتے ہیں کہ پاکستان پانی ذخیرہ کرنے کسی مؤثر نظام سے محروم ہے۔بڑے ڈیم بنانے کی بات ہمیشہ ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں بدقسمتی سے یہ معاملہ متنازع ہو چکا ہے۔دوسرے بڑے ڈیموں کی تعمیر وقت طلب اور مہنگا معاملہ ہے،ایسی صورت میں فوری اور متبادل راستہ کیا ہو؟

            پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز (PCRWR)  کی تحقیق کے مطابق اس سوال کا جواب چھوٹے ڈیم فراہم کر سکتے ہیں۔ چھوٹے ڈیم بڑے ڈیموں کی جگہ نہیں لے سکتے لیکن ان کی کچھ خوبیاں بھی ہیں۔انھیں گاؤں دیہات اور مخصوص علاقوں کی ضرورت کے مطابق بنایا جاتا ہے۔یوں یہ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور زمینی حالات سے مطابقت رکھتے ہوئے اور فوری ، کم لاگت اور مؤثر حل پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں چند مقامات کو ہدف بنا کر کام کیا جائے تو اچھے نتائج میسر آسکتے ہیں جیسے پوٹھوہار۔

            پوٹھوہاربارانی خطہ ہے۔ یہاں بارش خوب ہوتی ہے لیکن یہ پانی فوراً ہی دریاؤں میں جا گرتا ہے جس کی وجہ سے یہ خطہ مستقل طور پر پانی کی کمی کا شکار رہتا ہے۔ اگر یہاں بارانی پانی جمع کرنے والے چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں تو نہ صرف زراعت ترقی کرے گی بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بلند ہو جائے گی۔ ڈاکٹر پرویز عامر جیسے ماہرین اس خطے کو بارش کے پانی کو سنبھالنے کے لیے سب سے زیادہ موزوں قرار دیتے ہیں۔

            کوہِ سلیمان کے دامن میں بسنے والے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اچانک آنے والے سیلابی ریلے کس طرح بستیاں اجاڑ دیتے ہیں۔ ہر سال یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ہم کچھ کر نہیں پاتے۔ اگر یہاں چھوٹے حفاظتی ڈیم بنادیے جائیں تو یہ ریلے قابو میں آ سکتے ہیں۔ نہ صرف انسانی جانیں اور فصلیں بچ سکتی ہیں بلکہ یہ پانی بعد میں کھیتی باڑی اور چراگاہوں کے لیے بھی کارآمد ہو سکتا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کی رپورٹیں اس جانب توجہ مبذول کراچکی ہیں۔

            کوہاٹ کی وادی اپنی زرخیزی کے باوجود پانی کی کمی کا شکار رہتی ہے۔ چھوٹے ڈیم یہاں زندگی بدل سکتے ہیں۔ زرعی زمینوں کو سیراب کرنے والے یہ ڈیم مقامی زراعت کو نئی زندگی بخش سکتے ہیں بلکہ مقامی آبادی کے لیے پینے کا پانی بھی فراہمی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ یوں ایک چھوٹا سا منصوبہ بڑے معاشی اثرات کو ممکن بنا سکتا ہے۔

            بلوچستان کے وسیع اور بلند علاقے بارش کی کمی کے باعث خشک سالی کا شکار رہتے ہیں۔ لیکن جب بارش ہوتی ہے تو پوٹھو ہار کی طرح پانی بہہ کر فوراً ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ چیک ڈیم اور بارش کا پانی ذخیرہ کرنے والے ڈیم اس خطے کی ضرورت ہیں۔ یہ ڈیم زیرِ زمین پانی کی سطح بلند کرنے میں بھی مددگار بننے کے علاوہ خشک سالی میں بھی کمی لا سکتے ہیں۔ عالمی بینک (World Bank) اور International Water Management Institute (IWMI) کی رپورٹوںمیں بھی بلوچستان کے لیے ایسے منصوبوں کی سفارش کی گئی ہے۔

            چترال اور گلگت  بلتستان کے لوگ گلیشیئر پگھلنے اور اچانک پھٹنے سے بننے والی جھیلیں بن جانے جیسے مسائل کا ہمیشہ شکار رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہنستی بستی بستیاںدیکھتے ہی دیکھتے لقمۂ اجل بن جاتی ہیں۔ محکمہ موسمیات کے ایک سابق افسر اعلیٰ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق شمالی علاقہ جات کا یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ایسے خطوںمیں چھوٹے حفاظتی ڈیم زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ بڑھاسکتے ہیں۔ ایسے ڈیموں کی مدد سے نہ صرف اچانک آنے والے ریلوں کو روکا جا سکتا ہے بلکہ پانی کو محفوظ طریقے سے پانی کو ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔

            بڑے آبی ذخائر اور بڑے ڈیموں کو طویل المعیاد منصوبہ قرار دے کر مسئلے کے فوری حل پر توجہ دی جائے تو چھوٹے ڈیم مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق چھوٹے ڈیموں کے تین بڑے فوائد ہو سکتے ہیں:

١۔ مقامی سطح پر فوری آبی تحفظ۔

٢۔ زیرِ زمین پانی کی سطح میں بہتری۔

٣۔کم لاگت اور کم وقت میں فوری نتائج۔

            لہٰذا ناگزیر ہے کہ پوٹھوہار، ڈیرہ غازی خان، کوہاٹ، بلوچستان اور شمالی علاقہ جات کو ہدف بنا کر فوری طور پر اقدامات کیے جائیں  تو اس کے نتیجے میں پانی کے نئے ذخائر میسر آجانے کے علاوہ زیر زمین پانی کی سطح میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور مستقل طور پر سیلابوں کا نشانہ بننے والے علاقے اس خطرے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سفارشات بھی ان تجاویز کی تائید کرتی ہیں۔

            حرفِ آخر یہ کہ پاکستان کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ہمارے پاس پانی کم ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں جو پانی میسر ہے اسے سنبھالنے کا انتظام ہم نہیں رکھتے۔ اس پر مستزاد بھارت کا مکارانہ طرز عمل ہے لیکن اگر ہم ان اور ان جیسے دیگر اقدامات کر لیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں بھارت سے آنے والے سیلابی ریلوں کوبھی سنبھالا جا سکتا ہے۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف سیلابوں کے خطرے سے نمٹا جا سکتا ہے بلکہ پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی

پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہمارے وقت میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے۔

حال ہی میں اداکار نے ایک پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔

انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی چند عادتوں کا ذکر کیا جو بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے والد سے اپنائیں۔

انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ بچے وقت پر سو جایا کریں، باہر کا کھانا نہ کھائیں یا کم کھائیں۔ ایک وقت تھا میرے والد بھی مجھے ان چیزوں سے روکا کرتے تھے اور اب میں اپنے بچوں کو منع کرتا ہوں تاکہ ان میں نظم و ضبط قائم رہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد صرف منع نہیں کرتے تھے بلکہ مارتے بھی تھے، ہمارے وقتوں میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے، آج آپ اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے اور مارنا چاہیے بھی نہیں کیونکہ آج کے بچے برداشت نہیں کرسکتے۔

عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ بچوں کو سکھانے کے لیے ایک یا دو تھپڑ تو ٹھیک ہیں لیکن مارنا نہیں چاہیے۔ بچوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی چیز کو لے کر والدین سے جھوٹ کہہ رہے ہیں تو وہ غلط کام کر رہے ہیں، والدین سے چیزوں کو نہ چھپائیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وقتوں میں بچوں اور والدین کے درمیان فاصلہ ہوا کرتا تھا بات نہیں ہوتی تھی لیکن آج کے بچے والدین سے کھل کر بات کرتے ہیں اور ہم بھی یہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ گئے ہیں کہ مارنے کے بجائے بات کرنا زیادہ ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ جگر کی 1000 پیوندکاریاں کر کے دنیا کے صف اول کے اسپتالوں میں شامل
  • ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا
  • پاکستان میں صحت کے شعبے میں تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • افغان وفدنے دہشت گردوںکی حوالگی کی پیشکش نہیں کی‘پاکستان
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
  • خیبر ٹیچنگ اسپتال پشاور میں صحت کارڈ پر مفت علاج معطل
  • غزہ میں 20 ہزار ناکارہ بم موجود ہیں
  • رواں سال 22لاکھ ایکڑ اراضی پر گندم کی کاشت کی جائے گی: وزیراعلیٰ سندھ
  • پاکستان کی سوڈان میں مظالم کی شدید مذمت، فوری جنگ بندی، سیاسی حل پر زور