پشاور ہائیکورٹ: افغان مہاجرین کو سہولیات نہ دینے پر وفاقی حکومت، وزارت داخلہ اور نادرا سے جواب طلب
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
پشاور ہائی کورٹ نے افغان مہاجرین کو شہریت نہ ملنے اور ان کے مسائل حل نہ ہونے کے خلاف 100 سے زائد درخواستوں پر وفاقی حکومت، وزارت داخلہ اور نادرا سے جواب طلب کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں افغان مہاجرین کی جانب سے دائر 100 درخواستوں پر سماعت ہوئی جو کہ جسٹس وقار احمد اور جسٹس اعجاز خان کے روبرو ہوئی۔ڈپٹی اٹارنی جنرل، ڈی جی نادرا، ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ داخلہ عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پاکستانی شہریت کے حامل افغانیوں کے لئے کوئی طریقہ کار موجود نہیں، افغان مہاجرین کے مسائل کا حل سیفران کے پاس موجود نہیں ہے۔
ڈائریکٹر نادرا نے کہا کہ افغان مہاجرین کے مسائل حل کرنے کے لئے زونل ویری فکیشن بورڈ قائم کیا ہے، اے سی سی اور پی او آر ہم سیفران کی ہدایت پر کینسل کرتے ہیں، ایک بندے کا ریکارڈ چیک کرتے ہیں تو 25 مزید ریکارڈ میں نکل آتے ہیں۔
نادرا کے ڈائریکٹر نے کہا کہ زونل سطح پر ہم نے ابھی ایک بورڈ قائم کیا، تمام اسٹیک ہولڈرز سے رابطے میں ہیں، جس کے پاس 1979ء کے پاسپورٹ یا دیگر مستند دستاویز ہو انہیں ہم شہریت دیتے ہیں، ہم ون ونڈو آپریشن کررہے ہیں، یہاں سے کیس کنفرم کر کے سیفران بھیجتے ہیں۔
جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ لوگوں کو سہولیات فراہم کریں، ہزاروں لوگ عدالت آرہے ہیں، ٹیکنالوجی کا استعمال کریں آسانی پیدا کریں، لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائیں، جہاں نادرا اہلکار بیٹھے ہوں وہاں سیفران کے بندے بھی بٹھائیں، لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے، ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں، سسٹم کو مزید پیچیدہ نہ بنائیں، نادرا اچھا کام کر رہا ہے، لیکن لوگوں کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔
جسٹس وقار احمد نے کہا کہ محکمہ داخلہ کے پاس ان سب کو مینیج کرنے کے لیے طریقہ کار نہیں تھا، ابھی معاملہ نادرا کے پاس آگیا تو اسٹریم لائن ہوا، جو ٹھیک نہیں ان کو بے شک ریلیف نہ دیں لیکن حق دار کو اس کا حق دیں۔
عدالت نے صوبائی اور وفاقی حکومت، محکمہ داخلہ اور نادرا سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغان مہاجرین نے کہا کہ کے پاس
پڑھیں:
کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کی درخواست پر جواب طلب
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک بھی والدین ایسی ہی رسائی رکھتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اس پر کیا کہیں گے؟ جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ انہوں نے پٹیشن میں فریق ہی غلط بنایا ہے، حکومت پاکستان کو فریق بنانا چاہیے تھا۔ اسلام ٹائمز۔ لاہور ہائیکورٹ نے کم عمر بچوں کے فیس بُک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی کیلئے دائر درخواست پر پی ٹی اے سمیت دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم نے شہری اعظم بٹ کی درخواست پر سماعت کی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ بچے فیس بک اور ٹک ٹاک پر نامناسب مواد دیکھتے ہیں جس سے بچوں کی تعلیمی اور اخلاقی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوشل میڈیا پر سسٹم موجود ہے کہ بچوں کی رسائی کو محدود کر سکتے ہیں، والدین بچوں کے سوشل میڈیا تک رسائی کو چیک کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک بھی والدین ایسی ہی رسائی رکھتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اس پر کیا کہیں گے؟ جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ انہوں نے پٹیشن میں فریق ہی غلط بنایا ہے، حکومت پاکستان کو فریق بنانا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر انہوں نے پی ٹی اے کو درخواست دی ہے تو ان سے پتا کر کے عدالت کو آگاہ کریں، کمیشن کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کے معاملات کو حل کرنے کیلئے ان سے رابطہ کر سکیں۔ بعدازاں ہائیکورٹ نے کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی کی درخواست پر پی ٹی اے سمیت دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا اور سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔