زرمبادلہ ذخائر 14.3 ارب ڈالر، ترسیلات زر 38 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں، گورنر اسٹیٹ بینک
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
پاکستان ٹیکسٹائل کونسل کے سالانہ اجلاس میں ملکی معیشت، برآمدات، کاروباری لاگت اور زرمبادلہ ذخائر جیسے اہم معاشی موضوعات پر تفصیل سے غور کیا گیا۔ اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد، ٹیکسٹائل سیکٹر کے نمایاں صنعتکاروں اور کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔
معیشت میں مثبت پیشرفت
گورنر اسٹیٹ بینک نے اجلاس سے خطاب میں بتایا کہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر 14.
انہوں نے مزید بتایا کہ جون 2025 میں افراط زر کی شرح گھٹ کر 3.2 فیصد رہ گئی ہے، جب کہ پالیسی ریٹ بھی کم ہو کر 11 فیصد پر آ چکا ہے، جو کاروباری طبقے کے لیے ایک بڑی سہولت ہے۔”
صنعتکاروں کے تحفظات اور مطالبات
اجلاس میں ٹیکسٹائل کونسل کے چیئرمین نے کاروباری لاگت کو “غیر مسابقتی” قرار دیتے ہوئے فوری اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ توانائی، خام مال اور اجرت کی بلند لاگت ہمارے عالمی مقابلوں میں پیچھے رہ جانے کی بڑی وجہ ہے۔
ٹیکسٹائل سیکٹر کی جانب سے پیش کیے گئے اہم مطالبات میں شامل تھے
برآمدی خام مال پر تمام ڈیوٹیز کا خاتمہ
سیلز ٹیکس کی شرح 3 سے 5 فیصد کے درمیان مقرر کی جائے
یکساں 1 فیصد ڈیوٹی ڈرا بیک اسکیم نافذ کی جائے
توانائی اور اجرتی لاگت کے لیے سبسڈی پر مبنی فنانسنگ سہولت فراہم کی جائے
ٹیکسٹائل کونسل کا کہنا تھا کہ اگر یہ اقدامات بروقت کیے جائیں تو ٹیکسٹائل سیکٹر پاکستان کی معاشی بحالی کا مرکزی ستون بن سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ارب ڈالر
پڑھیں:
اسٹیٹ بینک کے فیصلے پر صدر ایف پی سی سی آئی کا شدید ردعمل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-6
کراچی (کامرس رپورٹر)صدرایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شر ح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو ”ناقابلِ فہم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کاروباری ماحول، سرمایہ کاری اور مجموعی قومی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ موجودہ معاشی حقائق، خصوصاً مہنگائی میں نمایاں کمی، شرح سود میں فوری کمی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کے مطابق:”جب اگست 2025 میں حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح صرف 3 فیصد تک آ گئی ہے تو پالیسی ریٹ کو کم کر کے اصولی طور پر 6 سے 7 فیصد کے درمیان لایا جانا چاہیے تھا؛ تاکہ معیشت کو سہارا مل سکے ”۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر شرح سود میں کمی کی جاتی تو حکومت کا قرضوں کا بوجھ تقریباً 3,500 ارب روپے تک کم ہو سکتا تھا؛ جوکہ، مالیاتی دباؤ میں کمی کے لیے نہایت اہم ہے۔سینئر نائب صدر، ایف پی سی سی آئی، ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ بلند شرح سود پیداواری لاگت کو بڑھاتی ہے ؛جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ سنگل ڈیجٹ شرح سود کے ذریعے اشیاء سستی ہوں گی؛ عوام کو ریلیف ملے گا اور معیشت میں بہتری آئے گی۔انہوں نے کہا کہ بلند شرح سود کرنسی کی گردش کو بھی محدود کرتی ہے؛ جس سے معاشی سرگرمیوں میں جمود پیدا ہوتا ہے۔ثاقب فیاض مگوں نے مزید کہا کہ شرح سود کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنا بزنس کانفیڈنس کو بری طرح متاثر کرے گا؛ سرمایہ کاری میں کمی لائے گا اور معیشت کی بحالی کی رفتار کو سست کر دے گا۔انہوں نے اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور ایسی پالیسی اپنائے جوکاروبار دوست ہو؛قرضوں کی لاگت کو کم کرے؛صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دے اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔نائب صدر و ریجنل چیئرمین سندھ، ایف پی سی سی آئی،عبدالمہیمن خان نے مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک شرح سود کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ میں لائے ؛نجی شعبے کے لیے قرضوں کی رسائی آسان بنائے اورکاروباری برادری کو پالیسی سازی میں شامل کرے۔ عبدالمہیمن خان نے واضح کیاکہ کاروباری برادری پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کے لیے ایک مثبت، کاروبار دوست اور حقیقت پسندانہ مالیاتی پالیسی ناگزیر ہے۔ اسٹیٹ بینک کو اب معیشت کی ضرورت کے مطابق فیصلے کرنا ہوں گے ۔