ٹیسٹ کرکٹ قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ، کونسی تبدیلیوں پر زور دیا جارہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
انگلینڈ کے سابق کپتان ایلسٹر کک اور مائیکل وان نے ٹیسٹ کرکٹ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نئی تجاویز پیش کی ہیں، جن میں نئی گیند کے استعمال میں لچک اور متبادل کھلاڑیوں کے قوانین میں توسیع شامل ہے تاکہ بیٹ اور بال کے درمیان مقابلہ مزید متوازن بنایا جا سکے۔
ایک پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ایلسٹر کک نے تجویز دی کہ کپتانوں کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ ایک مقررہ اوورز کے اندر کسی بھی وقت نیا گیند لے سکیں، بجائے اس کے کہ موجودہ اصول کے مطابق 80 اوورز تک انتظار کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: کرکٹ میں نئے قوانین متعارف، آئی سی سی نے پلیئنگ کنڈیشنز میں کیا تبدیلیاں کی ہیں؟
ایلسٹر کک کا کہنا تھا ’میری تجویز یہ ہوگی کہ 160 اوورز کے اندر آپ نئی گیند جب چاہیں استعمال کر سکیں۔ آپ کے پاس 2 نئے گیندیں ہوں گی، اور اگر آپ چاہیں تو دوسری گیند 30 اوورز بعد بھی لے سکتے ہیں۔ اس سے حکمت عملی میں نیا پہلو آئے گا اور بولرز کو وکٹیں حاصل کرنے کا زیادہ موقع ملے گا۔‘
مائیکل وان نے اس خیال کی حمایت کرتے ہوئے مزید ایک تبدیلی تجویز کی کہ سنجیدہ انجری کی صورت میں کھلاڑی کو ’لائک فار لائک‘ سبسٹیٹیوٹ کے ذریعے بدلا جا سکے، جیسا کہ پہلے ہی کنکشن سبسٹیٹیوشن کے قوانین موجود ہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہاکہ اگر رشبھ پنت پہلی اننگز میں ہاتھ زخمی کر لیتے ہیں اور بیٹنگ کر سکتے ہیں لیکن وکٹ کیپنگ نہیں، تو موجودہ قوانین کے تحت بھارت انہیں دھروو جریئل جیسے کھلاڑی سے نہیں بدل سکتا جب تک کہ یہ کنکشن کے تحت نہ ہو۔
مائیکل وان نے نیتھن لیون کی لارڈز ایشیز ٹیسٹ کے دوران پنڈلی کی انجری یاد دلاتے ہوئے کہاکہ اس واقعے کے بعد آسٹریلیا کو بقیہ میچ میں صرف 10 کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا: ’اس سے کھیل کا معیار بہتر نہیں ہوتا۔ دیگر کھیلوں میں سبسٹیٹیوشن کی اجازت ہے تاکہ مقابلہ متوازن رہے، کرکٹ میں بھی یہی ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے زور دیا کہ اس نظام کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت اصول ہونے چاہییں، جیسے آزاد میڈیکل رپورٹ اور سنگین انجری کا ثبوت۔ ان کے مطابق: ’یہ معمولی چوٹ نہیں بلکہ کوئی بڑی تکلیف ہونی چاہیے، جیسے فریکچر یا اسکین سے ثابت شدہ انجری۔ ہم پہلے ہی کنکشن سبس مان چکے ہیں تو یہیں کیوں رکا جائے؟‘
یہ بھی پڑھیں: آئی سی سی نے تمام فارمیٹس کے لیے نئے قوانین کا اعلان کردیا
دونوں سابق کپتانوں کا ماننا ہے کہ ایسی اصلاحات سے طویل فارمیٹ کو نئی جان ملے گی اور کھیل کی دیانتداری برقرار رکھتے ہوئے بیٹ اور بال کے درمیان توازن پیدا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews ایلسٹر کک تبدیلیاں ٹیسٹ کرکٹ قوانین میں تبدیلی مائیکل وان وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: تبدیلیاں ٹیسٹ کرکٹ قوانین میں تبدیلی مائیکل وان وی نیوز مائیکل وان کے لیے
پڑھیں:
پختونخوا میں جو امن قائم کیا وہ ہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے، سابق وزیراعلیٰ گنڈاپور
سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’’جب میں اقتدار میں آیا تھا، دہشتگردی صوبے کے بیشتر حصوں میں کھلے عام گھومتے تھے، لیکن میرے دور میں ان میں زیادہ تر علاقوں کو کلیئر کیا گیا۔‘‘ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کے دور میں فوج، پولیس اور عوام کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں صوبے کے بیشتر حصوں میں دہشتگردی پر قابو پا لیا گیا تھا۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ بحیثیت وزیراعلیٰ اُن کے دور میں سکیورٹی فورسز اور مقامی آبادی کی مربوط حکمت عملی کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر دہشتگرد گروپس کو کمزور کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’جب میں اقتدار میں آیا تھا، دہشتگردی صوبے کے بیشتر حصوں میں کھلے عام گھومتے تھے، لیکن میرے دور میں ان میں زیادہ تر علاقوں کو کلیئر کیا گیا۔‘‘ سابق وزیراعلیٰ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ صوبے کے کچھ علاقوں میں سکیورٹی صورتحال خراب ہونا شروع ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ علاقوں میں حالات بدتر ہو رہے ہیں، لیکن بروقت اور مشترکہ کوششوں سے امن کو ایک مرتبہ پھر بحال کیا جا سکتا ہے۔ گنڈاپور نے یاد دلایا کہ اُن کی حکومت جب شروع ہوئی تھی تو زیادہ تر لوگ، اور کچھ معاملات میں پولیس والے بھی، فوج کی واپسی کی بات کر رہے تھے۔ تاہم، ان کی حکومت کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے عوام نے فوج کی حمایت شروع کی، اور فوج، پولیس اور شہریوں نے مل کر دہشت گردوں کیخلاف اتحاد بنایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے دور سے قبل پہلے کبھی اتنی بڑی تعداد میں دہشتگردوں کا خاتمہ نہیں کیا گیا تھا۔ گنڈاپور نے مزید کہا کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان، باجوڑ اور تیراہ کے سوائے سابق فاٹا کے زیادہ تر علاقہ جات سمیت تمام اضلاع کو دہشت گردوں سے پاک کیا گیا۔ سابق وزیراعلیٰ نے فوج، پولیس اور قبائلی علاقوں کے درمیان تعاون اور اعتماد کی بحالی کا کریڈٹ بھی لیا اور کہا کہ مقامی کمیونٹی بالخصوص ضم شدہ اضلاع نے سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر دہشتگردوں سے لڑائی کی۔
اپنی بڑی کامیابیوں میں سے ایک کا حوالہ دیتے ہوئے گنڈا پور نے کہا کہ انہوں نے کرّم میں ایک صدی پرانا مسئلہ حل کیا جس کی وجہ سے قبائلی اور فرقہ ورانہ لڑائیاں ہوتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ کئی ماہ کی کوششوں سے حل کیا، اور میرے دورِ حکومت کے آخری سات ماہ میں کرّم میں ایک بھی گولی نہیں چلی۔ تاہم، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کرّم میں ایک مرتبہ پھر پرتشدد واقعات شروع ہوگئے ہیں اور ان کے عہدے چھوڑنے کے بعد چند ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر، باجوڑ اور چند دیگر علاقہ جات میں صورتحال خراب ہو رہی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا عمران خان کی جانب سے استعفیٰ طلب کیے جانے کے بعد انہیں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے طور پر برقرار رہنے کی کوئی پیشکش کی گئی تھی تو انہوں نے نہ اس کی تردید کی اور نہ تصدیق۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر بات کو عوام کے سامنے ظاہر کرنا اور اس پر گفتگو کرنا مناسب نہیں۔
گنڈاپور کے دورِ حکومت میں چار ڈرون حملے ہوئے جن پر پارٹی کے اندر اور اڈیالہ سے وزیر اعلیٰ پر سخت تنقید کی گئی۔ تاہم، ایک پی ٹی آئی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ سہیل آفریدی کے صرف 18 روزہ دور میں ہونے والے 6 ڈرون حملوں پر عمران خان اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا سمیت کسی نے ایک لفظ تک نہیں کہا۔