یوکرینی صدر کو روس میں خوش آمدید کہوں گا؛ پیوٹن بات چیت کیلیے تیار
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے یوکرینی ہم منصب ولوودیمیر زیلنسکی کی میزبانی کرنے اور جنگ کے خاتمے پر بات چیت پر مشروط آمادگی ظاہر کی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین تنازع کے سیاسی حل کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یوکرینی صدر روس آنے کے لیے تیار ہیں تو ملاقات ہوسکتی ہے۔
یوکرین تنازع پر بات کرتے ہوئے پیوٹن نے واضح کیا کہ روس کی جنگ زمینوں کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے۔
انہوں نے یوکرین کے نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام روس کی سلامتی کے لیے ناقابلِ قبول ہوگا۔
روسی صدر نے زیلنسکی سے براہِ راست مذاکرات کی خواہش ظاہر کی لیکن ساتھ ہی سوال اٹھایا کہ کیا اس ملاقات کا کوئی فائدہ بھی ہوگا؟
صدر پیوٹن کے بقول اگر اس ملاقات میں قابلِ قبول حل پر اتفاق نہ ہوا تو روس اس مسئلے کو فوجی طریقے سے نمٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
روسی صدر نے مزید دعویٰ کیا کہ یوکرین بڑے پیمانے پر جنگ لڑنے کی سکت کھو چکا ہے اور روسی افواج ہر محاذ پر پیش قدمی کر رہی ہیں۔
خیال رہے کہ روسی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب یوکرین جنگ تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہے اور سفارتی کوششیں اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
’ماشا اینڈ دی بیئر‘ اور روسی قدامت پسندوں کی بے چینی کا سبب کیوں بنا گیا؟
روسی کارٹون ’ماشا اینڈ دی بیئر‘ دنیا بھر میں بچوں کا پسندیدہ ہے، لیکن روس میں ایک سیاسی کارکن واڈیم پوپوف نے اس کے خلاف مہم شروع کر دی ہے۔
پوپوف کا کہنا ہے کہ یہ کارٹون روایتی روسی اقدار کے خلاف نقصان دہ پیغامات رکھتا ہے۔ اس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کارٹون کی نمائش محدود کی جائے۔
لیکن مصنف ویلری پانیوشکن کے مطابق پوپوف کی بات نئی نہیں۔ 1928 میں لینن کی بیوہ نادیژدا کروپسکایا نے بھی بچوں کے مشہور مصنف کورنی چوکووسکی کی نظموں پر اسی طرح کا اعتراض کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:دنیا بھر میں مقبول روسی کارٹون ’ماشا اینڈ دی بیئر‘ یوکرین کی برہمی کا باعث کیوں بنا؟
پوپوف کو اعتراض ہے کہ ماشا نامی بچی کارٹون میں اکیلی رہتی ہے۔ مصنف کے مطابق یہی بات کہانی کا حسن ہے، کیونکہ جب کوئی بچہ اکیلا ہوتا ہے تو کہانی میں جذبات، مزاح اور سبق پیدا ہوتا ہے، جیسے ہیکل بیری فن، پپی لانگ اسٹاکنگ یا اولیور ٹوسٹ کی کہانیوں میں۔
پوپوف یہ بھی کہتا ہے کہ کارٹون میں جانور ماشا سے ڈرتے ہیں، جو بچوں کے لیے غلط پیغام ہے۔ مصنف کا جواب ہے کہ یہی تو مزاح ہے کہ ایک چھوٹی سی بچی بڑے ریچھ کو نچا رہی ہے، جو معمول کی باتوں کا الٹ ہے، اور اسی میں کہانی کی مزاحیہ کشش ہے۔
مصنف نے مثال دی کہ لوک کہانیوں میں بچے ہمیشہ جانوروں سے بات کرتے دکھائے جاتے ہیں۔ نیلز (Nils) ایک ہنس کے ساتھ اڑتا ہے، موگلی (Mowgli) ریچھ، بھیڑیوں اور سانپوں کے ساتھ رہتا ہے۔ صدیوں سے بچے سمجھتے آئے ہیں کہ یہ سب فرضی کہانیاں ہیں، حقیقت نہیں۔
مصنف طنزیہ انداز میں کہتا ہے کہ دنیا میں تقریباً ہر صدی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب معاشرے عقل کھو بیٹھتے ہیں، کبھی شاعروں کو قید کرتے ہیں، کبھی کہانیاں بند کرتے ہیں، اور کبھی اپنے پڑوسی ملکوں سے جنگیں شروع کر دیتے ہیں۔ سب کچھ ’اخلاقیات‘ کے نام پر کیا جاتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ ہنسی سے ڈرتے ہیں، کیونکہ اگر وہ کسی چیز کا مزاح سمجھنے لگیں تو انہیں اپنی حماقت کا بھی احساس ہو جائے۔
آخر میں مصنف نے ہیری پوٹر کی مثال دی، جس میں خوف کو ختم کرنے کے لیے جادوئی لفظ Riddikulus استعمال ہوتا ہے، یعنی کسی خوفناک چیز کو مضحکہ خیز بنا دینا۔ اس کے مطابق ْشاید ایسے ہی لوگوں کے خوف کا علاج بھی یہی ہے کہ ان کی سنجیدہ حماقتوں پر ہنس لیا جائے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ ’ماشا اینڈ دی بیئر‘ جیسی کہانیاں بچوں کے تخیل کو جگاتی ہیں، مگر کچھ سخت گیر لوگ ان میں خطرہ دیکھتے ہیں۔ دراصل مسئلہ کارٹون میں نہیں بلکہ ان لوگوں کی عدم برداشت میں ہے جو ہنسی، کہانی اور تخیل کی طاقت کو نہیں سمجھتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پوپوف روس روسی اقدار لینن ماشا اینڈ دی بیئر واڈیم پوپوف