کیا سی ٹی اسکین کینسر کا خطرہ بڑھاتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
سی ٹی اسکین میں ایکس ریز استعمال ہوتی ہیں اور اس سے جسم میں آئیونائزنگ ریڈی ایشن داخل ہوتی ہے۔ یہ ریڈی ایشن ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور لمبے عرصے میں کینسر کے امکانات کو کچھ حد تک بڑھا سکتی ہے۔
تاہم چند اہم نکات یاد رکھنا ضروری ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
ایک عام سی ٹی اسکین میں ریڈی ایشن کی مقدار عام ایکس رے کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے، لیکن یہ مقدار اتنی زیادہ نہیں کہ فوراً کینسر پیدا کر دے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک سی ٹی اسکین سے کینسر کا خطرہ بہت معمولی حد تک بڑھتا ہے، خاص طور پر اگر زندگی میں بار بار اسکین نہ کرایا جائے۔
بچے اور کم عمر افراد ریڈی ایشن کے اثرات کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ بار بار یا غیر ضروری سی ٹی اسکین کروانے سے مجموعی طور پر خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
اکثر صورتوں میں سی ٹی اسکین سے حاصل ہونے والا نفع اتنا قیمتی اور جان بچانے والا ہوتا ہے کہ اس کا معمولی خطرہ قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ سی ٹی اسکین کینسر کے خطرے کو تھوڑا سا بڑھاتا ہے لیکن یہ خطرہ عام طور پر بہت کم ہوتا ہے، اور جب ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں تو اس کا فائدہ اکثر اس ممکنہ خطرے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سی ٹی اسکین ریڈی ایشن
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
ایک تازہ بین الاقوامی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) معطل کیے جانے کے بعد پاکستان کو پانی کی سنگین قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سڈنی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی ’اکولوجیکل تھریٹ رپورٹ 2025‘ کے مطابق اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت کو دریائے سندھ اور اس کی مغربی معاون ندیوں کے بہاؤ پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے، جو براہِ راست پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی نے یہ معاہدہ رواں سال اپریل میں پاہلگام حملے کے بعد جوابی اقدام کے طور پر معطل کیا تھا۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان کی زراعت کا تقریباً 80 فیصد انحصار دریائے سندھ کے نظام پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ معمولی رکاوٹیں بھی پاکستان کے زرعی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں کیونکہ ملک کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت ہے، موجودہ ڈیم صرف 30 دن کے بہاؤ تک پانی روک سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے بہاؤ میں تعطل پاکستان کی خوراکی سلامتی اور بالآخر اس کی قومی بقا کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔ اگر بھارت واقعی دریاؤں کے بہاؤ کو کم یا بند کرتا ہے، تو پاکستان کے ہرے بھرے میدانی علاقے خصوصاً خشک موسموں میں، شدید قلت کا سامنا کریں گے۔
مزید بتایا گیا کہ مئی 2025 میں بھارت نے چناب دریا پر سلال اور بگلیہار ڈیموں میں ’ریزروائر فلشنگ‘ آپریشن کیا جس کے دوران پاکستان کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔ اس عمل سے چند دن تک پنجاب کے کچھ علاقوں میں دریا کا بہاؤ خشک ہوگیا تھا۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا، جس کے تحت مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول بھارت کو اور مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا اختیار پاکستان کو دیا گیا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تین جنگوں کے باوجود برقرار رہا۔
تاہم رپورٹ کے مطابق، 2000 کی دہائی سے سیاسی کشیدگی کے باعث اس معاہدے پر عدم اعتماد بڑھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوران مشرقی دریاؤں کے مکمل استعمال کی کوششوں کے ساتھ، پاہلگام حملے کے بعد بھارت نے معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا۔
پاکستان کی جانب سے اس اقدام پر شدید ردِعمل دیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان کے پانیوں کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگی اقدام تصور کی جائے گی۔
جون 2025 میں بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے بیان دیا کہ سندھ طاس معاہدہ اب مستقل طور پر معطل رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں