اسلام آباد ہائی کورٹ میں اختلافات، نئے سروس رولز معمولی اکثریت سے منظور
اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں واضح اختلافات کے باوجودہائی کورٹ اسٹیبلشمنٹ (اپائنٹمنٹ اینڈ کنڈیشنز آف سروس) رولز 2025کو معمولی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں گیارہ میں سے چھ ججز نے رولز کے حق میں جبکہ پانچ نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ذرائع کے مطابق سینئر ججز نے مجوزہ رولز اور اجلاس کے طریقہ کار پر شدید اعتراضات اٹھائے اور مشاورت کے عمل کو رسمی قرار دیا۔
فل کورٹ اجلاس کا پس منظر
فل کورٹ اجلاس کا ایجنڈا تین نکات پر مشتمل تھا۔
1۔ تعددِ ازدواج سے متعلق قانونی ترمیم
2۔ ہائی کورٹ بلڈنگ میں ڈھانچہ جاتی نقائص
3۔ ہائی کورٹ سروس رولز 2025 کی منظوری
اجلاس میں تمام ججز شریک ہوئے، جن میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ثمن رفعت امتیاز سمیت دیگر شامل تھے۔
تعددِ ازدواج اور بلڈنگ مسائل پر اتفاق رائے
اجلاس میںتعدد ازدواج سے متعلق ترمیم کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا، جس کے تحت اب اس نوعیت کے مقدمات ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے بجائے فیملی کورٹس میں سنے جائیں گے۔اسی طرح، ہائی کورٹ بلڈنگ میں درپیش ڈھانچہ جاتی مسائل پر بھی اتفاق کیا گیا کہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجا جائے گا تاکہ انکوائری اور اصلاحی اقدامات عمل میں لائے جا سکیں۔ بلڈنگ میں لفٹس، کولنگ سسٹم، اور پارکنگ جیسے مسائل کی نشاندہی ہو چکی ہے، تاہم ابھی تک ناقص تنصیب کا ذمہ دار ادارہ واضح نہیں۔
سروس رولز پر عدالت منقسم
فل کورٹ اجلاس کا سب سے متنازعہ پہلو ہائی کورٹ اسٹیبلشمنٹ رولز 2025 کی منظوری تھی، جس پر عدالت واضح طور پر دو گروپوں میں تقسیم نظر آئی۔ چیف جسٹس اور 5 ججز نے رولز کی حمایت کی
جبکہ 5 سینئر ججز نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے ترامیم اور مزید وقت کا مطالبہ کیا۔ مخالف ججز کا مؤقف تھا کہ600 سے زائد صفحات پر مشتمل دستاویز محض ڈیڑھ دن پہلے فراہم کی گئی، جس سے بامعنی غور و فکر ممکن نہیں رہا۔ جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز نے ایک خط کے ذریعے اپنے خدشات تمام ججز کے ساتھ شیئر کیے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ انتظامی اختیارات اور کیس تقسیم کا نظام مخصوص ججز کو نوازنے اور ناقدین کو نظر انداز کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس کی جانب سے ووٹنگ، ایجنڈے میں ترمیم کی مخالفت
ذرائع کے مطابق، چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نےایجنڈے میں تبدیلی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے براہ راست ووٹنگ کرائی۔ رولز معمولی اکثریت (6 کے مقابلے 5) سے منظور ہوئے، تاہم مخالف ججز نے اپنےتحریری اختلافات ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کارروائی کے دوران بعض ججز نے سوال اٹھایا کہ کیا واقعی تمام حامی ججز نے دستاویز کا مطالعہ کیا تھا؟ جس کا مبینہ جواب نفی میں دیا گیا۔
اجلاس کے دوران شدید تحفظات
مخالف ججز نے اجلاس مؤخر کرنے کی تجویز بھی دی، جسے مسترد کر دیا گیا۔ جسٹس سردار اعجاز نے واضح کیا کہ یہ معاملہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوگا اور انہوں نے مزید نکات ایجنڈے میں شامل کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا، جنہیں مسترد کر دیا گیا۔
نتیجہ: سروس رولز منظور، لیکن عدالت میں دراڑ نمایاں
نئے رولز کی منظوری کے باوجود، اجلاس کے دوران سامنے آنے والے اختلافات نےاسلام آباد ہائی کورٹ کے اندرونی ماحول میں کشیدگی کو اجاگر کر دیا ہے۔ سینئر ججز کی جانب سے ادارے کے اندر شفافیت، خودمختاری، اور مشاورت کے فقدان پر تشویش عدالت کے مستقبل کے لیے چیلنج بن سکتی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فل کورٹ اجلاس اجلاس میں ہائی کورٹ سروس رولز چیف جسٹس
پڑھیں:
پارا چنار حملہ کیس: راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ کی جسٹس مسرت ہلالی نے پارا چنار حملہ کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، اپنا دشمن پہچانیں۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق پارا چنار قافلے پر حملے کے دوران گرفتار ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت سپریم کورٹ میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سماعت کی۔
دورانِ سماعت سی ٹی ڈی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ واقعے میں 37 افراد جاں بحق ، 88 افراد زخمی ہوئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اس واقعہ میں ایک ہی بندے کی شناخت ہوئی ہے کیا ؟ جو حملہ کرنے پہاڑوں سے آئے تھے، ان میں سے کوئی گرفتار نہیں ہوا؟
کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا، ڈی جی آئی ایس پی آر
وکیل نے جواب دیا کہ ان میں سے 9 لوگوں کی ضمانت سپریم کورٹ نے خارج کی ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ اب کیا صورت حال ہے، راستے کھل گئے ہیں ؟ ، جس پر وکیل نے بتایا کہ صبح 9 بجے سے دن 2 بجے تک راستے کھلے رہتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سی ٹی ڈی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، آپ اپنا دشمن پہچانیں، صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔
بعد ازاں عدالت نے ملزم کو وکیل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔