دفاعِ پاکستان میں پیش پیش رہنے والے مسیحی جانثار
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
تحریر:غزالہ فصیح
اے وطن تونے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
یہ سرشت میں شامل ہے کہ انسان جس سر زمین پر پیدا ہوتا ہے، دِل میں اُس کی محبت، جنم دینے والی ماں سے محبت کی طرح گہری ہوتی ہے۔ یہ ہی جذبہ مادرِ وطن کی خاطر ہر قُربانی کا محر٘ک ہوتا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے پاک سرزمین اپنے سینے پر افواجِ پاکستان کی صورت میں ایسے جانبازوں کا وجود رکھتی ہے جو اس کے چپے چپے کی حفاظت کے لیے اپنا لہو دینے پر یقین رکھتے ہیں۔
6 ستمبر یوم دفاع کے موقع پر جب وطن کے رکھوالوں کی تاریخ دہرائی جاتی ہے تو ہمیں پاکستان کی اقلیتیوں، خصوصاً مسیحی برادری کے نام بھی دفاع وطن کی صفِ اول میں جگمگاتے نظر آتے ہیں۔
مزید پڑھیں: مسیحی برادری کو کرسمس کی مبارکباد، پاکستان میں اقلیتوں کو برابر حقوق حاصل ہیں، نگراں وزیراعظم
انoیں بہادری کے تمغات سے بھی نوازا گیا ہے، یوم دفاع کے موقع پر افواجِ پاکستان کی جانب سے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم افواجِ پاکستان میں دادِ شجاعت دینے والے مسیحی جانثاروں کے کارہائے نمایاں سے عوام مکمل روشناس نہیں۔
کم لوگ جانتے ہیں کہ پاک بھارت جنگوں اور دہشتگردی کے خلاف معرکوں میں 100 سے زائد مسیحی سپاہی و افسران شہادت پا چُکے ہیں، بہادری کے کے اعلیٰ تمغات حاصل کرنے والے جانبازوں کی تعداد 35ہے۔
’میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی‘دو جنگوں کے ہیرو، اسکواڈرن لیڈر، پیٹر کرسٹی شہید نے 65 کی جنگ میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے تمغۂ ’بسالت‘ حاصل کیا اور 71 کی جنگ میں بمبار طیارہ لے کے دشمن کے علاقے میں جاکر بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے شہید ہوئے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: مسیحی برادری کی املاک جلانے کا کیس جلد سننے کے لیے درخواست دائر
انہیں ’ستارۂ جرأت‘ سے نوازا گیا جو ‘نشانِ حیدر’ کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا اعزاز ہے۔ وطن کی محبت پیٹر کرسٹی کے ایمان کا جزو تھی۔
وی نیوز نے یومِ دفاع کے موقع پراُن کے چھوٹے بھائی جان کرسٹی سے جو خود بھی 15 سال ایئرفورس کے سویلین شعبے سے وابستہ رہے ہیں خصوصی گفتگو کی ہے۔
پیٹر کرسٹی نے کراچی کے سینٹ پیٹرک اسکول و کالج سے تعلیم حاصل کی، ایئر فورس میں کمیشن حاصل کرکے انھوں نے پی۔اے۔ایف رسالپور اکیڈمی سے فلائنگ ٹریننگ مکمل کی۔
پیٹر کرسٹی نے بحیثیت ‘ویپن سسٹم افسر، بمبار پائلٹ اور بی۔57 کینبرا نیوی گیٹر، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 65 کی جنگ میں انھوں نے بحیثیت فلائٹ لیفٹیننٹ، پٹھان کوٹ اور جام نگر کے محاذ پر دلیرانہ کارنامے انجام دیے۔ انھیں ‘تمغۂ بسالت’ سے نوازاگیا۔
جان کرسٹی نے اپنے بھائی کے جذبۂ حب الوطنی کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ 65 کی جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے بعد بھائی کو پاکستان ایئر فورس اکیڈمی رسالپور میں تعینات کیا گیا تھا جہاں وہ پائلٹس کو تربیت دیتے تھے۔
مزید پڑھیں: فیس ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے، پہلی مسیحی رکن سندھ اسمبلی روما مشتاق
اس کے بعد وہ ڈیپوٹیشن پر پی۔آئی۔اے بھیجے گئے تھے۔ 71 کی جنگ شروع ہوئی تو انھیں ایئر فورس میں واپس بلا لیا گیا۔ جان کرسٹی نے کہا کہ ‘پی آئی اے میں بھائی ایک لارڈ جیسی زندگی گزار رہے تھے۔
انھیں شاندار بنگلہ، نوکر چاکر ملے ہوئے تھے لیکن جب انھیں جنگ کے لیے بلایا گیا تو اپنے گروپ کیپٹن نذیر لطیف کو فون کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سَر میں اسی دن کے انتظار میں جی رہا تھا، یہ ہمارا Do and Die مشن ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ بھائی جب مِشن پر گئے تو اُن کا بیٹا چند ماہ کا تھا، بڑی بیٹی 4 سال اور چھوٹی بیٹی 3 سال کی تھی۔
مزید پڑھیں: صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کی مسیحی برادری کو ایسٹر کی مبارکباد
’اماں سے کہنا، ناشتہ اکٹھے کریں گے‘جان کرسٹی اپنے بھائی سے آخری ملاقات کا ذکر کررہے تھے، اُن کی آواز آنسوؤں سے رندھ گئی، انھوں نے کہا 6 اور 7 دسمبر (71)کی درمیانی شب، 4 بجے بھائی کراچی کی ڈرگ روڈ بیس پہنچے، میں انھیں ائیرپورٹ چھوڑنے گیا تھا۔
بھائی نیوی گیٹر تھے، اس مشن میں ان کے ساتھی پائلٹ امیر خسرو تھے۔ ان کے پاس بمبار 57 Bطیارہ تھا۔ بھائی پرواز کے لیے رخصت ہورہے تھے، انھوں نے گاڑی کی چابی میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے، مُسکرا کر کہا ‘اماں سے کہنا ، ناشتہ ہم اکٹھے کریں گے’۔
وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے، اُن کا طیارہ میرے سامنے فضا میں بلند ہوا اور کچھ دیر بعد نظروں سے اوجھل ہوگیا، اس کے بعد میں اپنے بھائی کو کبھی نہ دیکھ پایا۔ 7 دسمبر کی صبح ہمیں اطلاع ملی کہ دشمن نے اُن کا طیارہ مار گرایا اور وہ لاپتا ہیں۔
مزید پڑھیں: حیدرآباد میں مسیحی برادری نے کرایا روزہ افطار
ہمارے ماں باپ اُن کی راہ تکتے قبر میں جا سوئے۔ اسکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی، اپنے ساتھی پائلٹ امیر خُسرو کے ہمراہ بمبار طیارہ لے کر بھارت، پٹھان کوٹ اور جام نگر کے محاذ پر گئے تھے ، وہ اپنا مشن مکمل کرکے واپس لوٹ رہے تھے کہ دشمن نے اُن کے طیارے کو میزائل مار کر گرا دیا۔
‘شہادت’ کی خوشیپیٹر کرسٹی شہید کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے بھائی کی آنکھیں نم تھیں مگر وہ پُرجوش لہجے میں کہہ رہے تھے کہ جب تک پاکستان کا جھنڈا لہراتا رہے گا، ہم اپنے بھائی کی شہادت کی خوشی مناتے رہیں گے۔
خداوند کا شُکر ہے کہ اس نے ہمیں شہید کی وراثت دی ہے۔ ہمارے بھائی نے پاک وطن کے لیے جان دے کر ہمارا سَر فخر سے بلند کردیا، ہمیں یہ بھی فخر ہے کہ مسیحی برادری سےکئی نام ایسے ہیں جنہوں نے پاک وطن کے لیے دادِ شجاعت دیتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی یا غازی کہلائے۔
مزید پڑھیں: یوم آزادی معرکۂ حق، شہداء کے اہلِخانہ کا وطن کے نام پیغام
میرے بھائی کے بیس کمانڈر نذیر لطیف، گروپ کیپٹن فیصل چوہدری بھی کرسچین تھے، جنہوں نے بے مثال دلیری کا مظاہرہ کیا، ان کے فائٹر جہازوں میں آگ لگ گئی تھی اس کے باوجود انہوں نے مِشن مکمل کیا۔
’5 سال آنکھیں دہلیز پر لگی رہیں‘جان کرسٹی نے بتایا کہ اُن کے بھائی کا طیارہ دشمن نے مار گرایا لیکن ان کا جسدِ خاکی نہیں ملا تھا۔ ایئر فورس نے پیٹر کرسٹی اور ان کے ساتھیوں کی تلاش کے لیے ‘مشن اِن ایکشن ‘ کا اعلان کردیا۔
ان کے جنگی قیدی ہونے، زندہ بچ جانے کے امکانات کا جائزہ لینے یا جسدِ خاکی کے حصول کے لیے 5 سال کوششیں کی گئیں۔ جان کرسٹی بتاتے ہیں کہ میرے والد صاحب خود بھی فوج میں رہ چکے تھے،انھوں نے انٹرنیشنل ریڈ کراس سے خط وکتابت بھی کی۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: جشنِ یوم آزادی پر شکرپڑیاں پریڈ گراؤنڈ میں رنگا رنگ تقریبات کا انعقاد
ہر اُس موقع پر جب جنگی قیدی ملک میں لائے جاتے تھے، ہم انھیں دیکھنے پہنچ جاتے، لسٹیں چھانتے تھے مگر پیٹر کرسٹی کا نام نظر نہیں آتا تھا۔ ہماری والدہ کی آنکھیں دہلیز پر لگی رہتی تھیں، والد چُھپ کر روتے تھے۔
بھائی کے بچے بھابھی اور ہم سے پوچھتے تھے کہ ‘پاپا کیوں واپس نہیں آرہے’ بالآخر 5 سال بعد فوج کی جانب سے انھیں شہید قرار دے دیا گیا۔ ماڑی پور میں نہایت باوقار تقریب میں ہمیں بُلایا گیا۔
اُن کے کمانڈنگ افسر نے ان کی بہادری پر شاندار خراجِ تحسین پیش کیا اور انھیں ‘ستارۂ جرأت’ سے نوازا گیا، ہم اُن کی شہادت پر نازاں ہیں تاہم ان کا جسدِ خاکی آنکھوں سے نہیں دیکھا تو آج بھی انتظار ختم نہیں ہوا۔
‘ پرواز سے پہلے وصیت ‘جان کرسٹی نے اپنے بھائی کی خاندان سے گہری محبت اور اُن کی ہردلعزیز شخصیت کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ پیٹر کرسٹی نہایت زندہ دل انسان تھے، ہر کوئی اُن کی صحبت میں خوش رہتا تھا۔
مزید پڑھیں: معرکہ حق کے بعد فضائی حدود کی بندش، پاکستان کو کتنا نقصان ہوا؟ وزیر دفاع نے تفصیلات پیش کردیں
وہ اپنے خاندان سے بے حد محبت کرتے تھے اور اُن کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے تھے ۔ہم 6 بھائی اور ایک بہن ہیں، ان کی جہاں بھی پوسٹنگ ہوتی، والدین اور ہم چھوٹے بہن بھائی ان کے ساتھ رہتے تھے، میرا ان سے 20 سال سے زائد ساتھ رہا۔
ہمارا آبائی گھر ڈرگ روڈ (کراچی) میں ہے، پیٹر کرسٹی یہیں پیدا ہوئے، وہ جب رسالپور میں ٹریننگ پر تھے تو جب بھی کراچی آتے، سی۔130 لے کر سیدھے ڈرگ روڈ بیس پر اُترتے، بعد میں بھی ان کا یہ ہی معمول رہا۔
بھائی نے آخری پرواز بھی ڈرگ روڈ بیس سے کی۔ (یہ بات کرتے ہوئے جان کرسٹی کی آواز پھر آنسوؤں سے بھرا گئی)۔ جان نے بتایا کہ جنگی مشن پر جانے سے پہلے پائلٹس اپنی وصیت لکھ کر جاتے ہیں، پیٹر کرسٹی نے لکھا کہ میری پنشن والدین اور بیگم کو دی جائے۔
’حقِ شہدا‘جان کرسٹی نے کہا کہ افواجِ پاکستان کی جانب سے شہدا کے خاندانوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہماری بھابی، پیٹر کرسٹی کی بیگم اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں، انھیں ایئر فورس کے کالج میں پرنسپل تعینات کیا گیا، رہائش اور بچوں کے تعلیمی اخراجات فراہم کیے جاتے تھے۔
مزید پڑھیں: نئی دہلی: پاکستانی ہائی کمیشن میں یوم آزادی کی تقریب، پرچم کشائی کی گئی
شہید کے بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ بچے شادی کے بعد اور کیرئیر کے سلسلے میں اپنی والدہ کے ساتھ بیرون ملک مقیم ہیں۔ جان کرسٹی نے کہا ہر سال ‘یومِ دفاع’ کے موقع پر اُن کا خاندان شہید کرسٹی کی وطن کے لیے قربانی کو فخر کے ساتھ یاد کرتا ہے۔
اُن کے دِلوں میں اپنے پیارے سے بچھڑ جانے کا غم تازہ ہوتا ہے لیکن ان کے لبوں پر پاکستان کی حفاظت و سلامتی کے لیے دعائیں ہوتی ہیں۔
65 کی جنگ میں افواجِ پاکستان کے مسیحی افسران نے مثالی بہادری کا مظاہرہ کرکے ایئر فورس میں 5 ‘ستارۂ جرأت’ اور ایک ‘تمغۂ جرأت’ حاصل کیا جبکہ پاک آرمی میں ایک مسیحی افسر نے ‘تمغۂ جرأت’ حاصل کیا۔ یہ واحد اعزاز میجر رامون رائے جوشوا نے حاصل کیا تھا۔
‘سیالکوٹ کا گرم محاذ اور 26 گھنٹے کا ٹاسک ‘91 سالہ میجر(ر) رامون رائے جوشوا، جنگِ ستمبر کی یادیں اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور انہیں اپنی زندگی کا قیمتی اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ میجر جوشوا 65 کی جنگ کے ایک اہم کردار ہیں، انہوں نے اپنے دلیرانہ کارنامے کی بدولت ‘تمغۂ بسالت’ حاصل کیا۔
مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کا یوم دفاع پاکستان کے موقع پر قوم کے نام پیغام
میجر صاحب کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ہمارے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ 65 میں وہ 6 آرمڈ ڈویژن میں 15 ملٹری پولیس یونٹ کو کمانڈ کر رہے تھے۔
اِن کی زمہ دار داریوں میں ڈویژن کی انفنٹری یونٹوں، توپ خانے کی توپوں، ٹینک دستوں اور دوسری مددگاری یونٹوں کو صحیح پوزیشنوں میں رکھنا شامل تھا۔
اس وقت ملٹری پولیس یونٹ کے مختلف سیکشنز میں کام تقسیم ہوتا تھا جو پورے ڈویژن کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کو سہل بناتے تھے۔
ایک خاص کام کی وجہ سے یونٹ کا ایک سیکشن علیحدہ کردیا گیا اور انھیں 2 سیکشنز کے ساتھ پوری ڈویژن کو 26 گھنٹوں میں لڑائی شروع ہونے کی جگہ پر پہنچانے کی ذمّہ داری سونپی گئی۔
مزید پڑھیں: ’اے وطن تیرے صدقے اتارے گئے‘، یوم دفاع پاکستان پر نیا ترانہ جاری
میجر جوشوا نے بتایا کہ سیالکوٹ سیکٹر پر محاذ بہت ‘گرم’ تھا۔ فضا میں گھن گرج، ہر جانب گولہ بارود کی بُو، کسی بھی وقت دشمن کے حملے کے خطرات کا سامنا کرتے ہوئے وہ محتاط انداز میں بروقت اپنی ڈویژن کو لے کر محاذ پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اس پر انھیں ‘تمغۂ بسالت’ سے نوازا گیا۔
میجر جوشوا کے مطابق 65 کی پاک بھارت جنگ میں ہر سپاہی سے لے کر افسر تک میں وطن کے لیے لڑنے کا مثالی جوش و جذبہ نظر آتا تھا۔ میجر رامون رائے جوشوا ریٹائرمنٹ کے بعد کینیڈا شفٹ ہوگئے تاہم پاک آرمی سے اُن کا دلی تعلق جڑا ہوا ہے۔
انہوں نے کینڈا میں پاکستانی مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسران کی ایسوسی ایشن قائم کی جس کے قریباً 600 ممبران ہیں جو کینیڈا کے طول و عرض میں ایک دوسرے سے پاکستان کے حوالے سے رابطے میں رہتے ہیں۔
‘سبز وسفید ہلالی پرچم اور چوبیس چراغ’مف٘کر، مصنف اور محقق، اعظم معراج گزشتہ 3 دہائیوں سے پاکستان کی غیر مسلم برادری میں شعور کے فروغ کا ‘مورچہ’ سنبھالے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ‘تحریک شناخت ‘ کے نام سے ایک غیر سیاسی، غیر مذہبی فکری پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی۔
مزید پڑھیں: سعودی وزیردفاع کی آرمی چیف سے ملاقات: یوم پاکستان پریڈ میں شرکت کے بعد واپس روانہ
وہ خود کو اور اس مقصد کے لیے کام کرنے والے ساتھیوں کو تحریک کا رضاکار کہتے ہیں۔ اعظم معراج اقلیتوں کو ‘انضمام بذریعہ شناخت برائے ترقی’ کا پیغام دیتے ہیں۔
اس ایک سطری پیغام میں معنی کا ایک جہاں آباد ہے، اُن کی فکری جدوجہد مذہب، قوم یا رنگ ونسل کی بنیاد پر قائم اقلیتوں کو ایک جانب یہ باور کرواتی ہے کہ معاشرتی رویّوں سے دلبرداشتہ ہونے کے بجائے اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔
دوسری جانب وہ اقلیتوں خصوصاً مسیحی برادری کے قیامِ پاکستان سے لے کر استحکام اور دفاعِ پاکستان میں مثالی کرداروں کو نمایاں کرتے ہوئے معاشرتی ہم آہنگی کے لیے کوشاں ہیں۔
اعظم معراج نے اس مقصد کے حصول کے لیے 17 کتب لکھی ہیں۔ ان میں سے 6 کتابیں دفاعِ پاکستان میں مسیحیوں کے کردار سے متعلق ہیں۔ نہایت عرق ریزی سے تخلیق کی گئی یہ کتب معاشرتی ہم آہنگی کے لیے بے مثال دستاویز ہیں۔
ملک کے معروف اہل قلم بشمول مستنصر حسین تارڑ نے انھیں پسندیدگی کی سند دی ہے۔ اعظم معراج کے مضامین افواجِ پاکستان کے میگزین ‘ہلال’ میں بھی شائع ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: یوم تکبیر ملک کے دفاع کو مضبوط تر بنانے کے لیے متحد ہونے کی یاد دلاتا ہے، شہباز شریف
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم معراج نے کہا کہ ‘دفاعِ پاکستان میں مسیحیوں کے کردار پر کتابیں لکھنے کے لیے میں نے آئی ایس پی آر اور دیگر مستند ذرائع سے اعدادوشمار جمع کیے۔
ان کتابوں کے لکھنے کا مقصد ایک طرف اقلیتی برادری کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے تحریک دینا اور دوسری جانب ان کرداروں کے ذریعے معاشرے میں اقلیتی برادری کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘شانِ سبزو سفید’، ‘شہدائے وطن’، ‘چوبیس چراغ’ اور ‘حیدران کے مسیحی ساتھی’ ان کتابوں میں مسیحی جانثاروں کے ولولہ انگیز کارناموں کا ذکر ہے۔
‘ اُڑی سیکٹر میں ہلالی پرچم لہرانے والا پہلا جانباز’پاکستان کی تاریخ میں 1948 کی کشمیر جنگ میں لانس نائیک یعقوب مسیح کو اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کیپٹن محمد سرور شہید نشان حیدر کے ہمراہ بھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر کے اڑی سیکٹر میں تلپترا پہاڑی کو فتح کرنے کے بعد سبز ہلالی پرچم لہرایا اور اس پرچم کے سائے میں اپنی جان قربان کردی۔
مزید پڑھیں: 6 ستمبر یوم دفاع پاکستان پر عام تعطیل؟ حکومت نے بالآخر اعلان کردیا
’دوبار نشانِ جرأت پانے والے محافظِ کراچی‘پاک ایئر فورس کے ونگ کمانڈر، فائٹر پائلٹ مارون لیزلے مڈل کوٹ کا نام دفاعی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے۔
ایئر فورس کی تاریخ میں صرف 2 جانبازوں کو ‘ستارۂ جرأت’ سے نوازا گیا، ایک ایم ایم عالم تھے جو غازی رہے، دوسرے مارون لیزلے مڈل کوٹ جنہوں نے شہادت پائی۔
لیزلے 1965 اور 1971 کی جنگ میں دفاع وطن میں پیش پیش رہے۔ 1971 کی جنگ میں ونگ کمانڈر مارون لیزلے کو ان کی بہادری اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے وجہ سے محافظ کراچی کا خطاب بھی دیا گیا۔
12 دسمبر 1971 میں کمانڈر مارون لیزلے کو امرتسر ریڈار تباہ کرنے کا ہدف دیا گیا جس کو مکمل کرکے لوٹتے ہوئے دشمن کی جانب سے فائر کیا گیا میزائل ان کے جہاز میں لگا۔
مزید پڑھیں: جب تک ہم متحد رہیں گے دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی، آرمی چیف کا یوم دفاع پر خصوصی پیغام
بھارتی فضائیہ کے مطابق وہ پیراشوٹ کے ذریعے جہاز سے سمندر میں آگرے اور تاحد نگاہ نظر آنے والی لہروں کو اپنی جان دیکر پاکستان پر قربان ہو گئے۔
’یہ گولیاں میری ماں کو دے دینا‘مسیحی برادری کے ایک اور دلیر سپاہی سکینڈ لیفٹیننٹ ڈینیل نے مشرقی پاکستان میں شجاعت کی داستان لکھی، سکینڈ لیفٹیننٹ ڈینیل کے سینے میں 3 گولیاں لگیں جنہیں آپریشن کے ذریعے نکالا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ گولیاں میری ماں کو یادگار کے طور پر دے دینا‘ اور پھر جان مادر وطن پر قربان کردی۔
‘یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی’اعظم معراج کہتے ہیں ’افواج پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل‘ کتاب میں نے چند سال قبل لکھی، اس وقت 29 جرنیل تھے جن میں پانچ 2 ستارے والے اور باقی ون اسٹارز تھے لیکن ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اور 34 کے قریب ہیں۔
مزید پڑھیں: یوم تکبیر: وطن کا دفاع ناقابل تسخیر ہونے پر پوری قوم کا سر فخر سے بُلند
اس کتاب لکھنے کا مقصد غیر مسلم نوجوانوں کو پیغام دینا کہ اگر مقامی مسیحی ون اسٹار اور ٹو اسٹار جرنیل بن سکتے ہیں تو ‘آپ’ کیوں نہیں بن سکتے۔ ایک اور کتاب جو شائع نہیں ہوئی لیکن ایمیزون پر موجود ہے Bill, the legend
راشد منہاس شہید کے بیس کمانڈر اور پاکستان ایئر فورس کے ایک لیجنڈری کردار ہیں، ستارہْ جرأت’ ‘تمغۂ بسالت ‘ کے حامل ایئر کموڈور نذیر لطیف کی وفات پر ان کے ساتھیوں کے آرٹیکلز اور مختلف ذرائع سے دستیاب اُن کے شخصی اور پیشہ ورانہ خاکے پر مشتمل ہے۔
یہ معلومات اگر اسکول و کالج کے نصاب اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اہل وطن تک پہنچائی جائیں، دیئے سے دئیے جلا کر روشنی کا سفر بڑھتا رہےگا۔
ہم رنگ سفید ہیں پرچم کااسلام آباد میں مقیم شہباز چوہان صاحبِ فکر شاعر ہیں، وطن سے محبت ان کی شاعری کا خاصا ہے۔ شہباز چوہان مسیحی برادری سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اقلیتوں کے درد کا ادراک رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: یوم آزادی پر شکر پڑیاں پریڈ گراؤنڈ میں دفاعی سازوسامان کی شاندار نمائش
‘تحریک شناخت ‘ کے رضاکار ہونے کی حیثیت میں شاعری کے ذریعے اقلیتی برادری کو معاشرے سے بیگانہ ہو کر یا فرار حاصل کرنے کے بجائے، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی تحریک دیتے ہیں۔
شہباز چوہان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں بحیثیت شاعر میں ‘انور مسعود ‘ جیسے معروف شعرا کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھتا ہوں تو خود کو ‘برابر کا پاکستانی’ محسوس کرتا ہوں۔
لیکن ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ اقلیت ہونے کی حیثیت میں ہمیں بہرحال مسائل کا سامنا ہے انہیں ہم سب نے مل جل کر حل کرنا ہے۔
شہباز چوہان نے وی نیوز کے گزشتہ سال یوم آزادی کے موقع پر اقلیتی برادری کے لیے خصوصی مشاعرے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کے اقدام معاشرے کی تمام اکائیوں میں اپنائیت بڑھانے کی سمت جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: 6 ستمبر کو دہری اہمیت: عید میلادالنبی اور یومِ دفاع پاکستان ایک ہی دن منائے جائیں گے
https://www.
شہباز چوہان نے اعظم معراج کی کتاب ‘حیدران کے مسیحی ساتھی’ کو منظوم کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں دفاعِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے مسیحی جانثاروں کو یہ خراجِ تحسین ہماری نسلوں میں حب الوطنی اور معاشرے میں اپنائیت کے جذبے کو فروغ دے گا۔
شہباز چوہان سے گفتگو کا اختتام ان کے اشعار پر ہوا:
ہم مڈل کوٹ کے وارث ہیں اور سچا بھید ہیں پرچم کا
ہم سرمس روف کی نسل میاں ہم رنگ سفید ہیں پرچم کا
یہ پرچم تھام کے رکھیں گے ہمیں فکر نہیں ہے جانوں کی
چلو بات کریں، چلو بات کریں دھرتی کے شیر جوانوں کی
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسکواڈرن لیڈر، پیٹر کرسٹی ایم ایم عالم پاک سرزمین دفاع پاکستان ستمبر یوم دفاع6 مسیحی جانثارذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایم ایم عالم پاک سرزمین دفاع پاکستان ستمبر یوم دفاع6 کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی برادری دفاع پاکستان سے نوازا گیا جان کرسٹی نے پاکستان میں مارون لیزلے شہباز چوہان نے بتایا کہ مزید پڑھیں پاکستان کی پاکستان کے پیٹر کرسٹی پاکستان پر ستارۂ جرأت اپنے بھائی تمغۂ بسالت ان کے ساتھ وطن کے لیے کے موقع پر کی جنگ میں کی جانب سے برادری کو ایئر فورس برادری کے یوم آزادی نے کہا کہ کے ذریعے انہوں نے انھوں نے حاصل کیا یوم دفاع رہے تھے ڈرگ روڈ فورس کے حاصل کی ہونے کی دیا گیا اور ان کے ایک کا ذکر ہوئے ا کے نام کے بعد
پڑھیں:
افغانستان کے موجودہ نظام میں کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ موجود ہیں، وزیرِ دفاع
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کے موجودہ نظام میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگ موجود ہیں، افغان طالبان نے ان کو پناہ دی ہوئی ہے۔
نجی ٹی وی پروگرام سے گفتگو کے دوران وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے لیے مانیٹرنگ کا میکنزم افغان طالبان کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مطالبہ بھی یہی ہے کہ جو لوگ افغانستان سے بارڈر کراس کرکے پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور تباہی پھیلاتے ہیں، ان لوگوں کو روکنے کے لیے ہمیں ایک میکنزم چاہیے یا افغان طالبان اپنے طور پر ان کو روکیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے کہنے پر دہشتگردی ہوئی تو پھر ’اینج تے اینج ہی سہی‘، خواجہ آصف
وزیرِ دفاع نے کہا کہ دہشتگردوں کو بارڈر کراس کرنے کے لیے فری ہینڈ دینا جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو مانیٹر نہیں کرتے اور ان کو نہیں روکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ان کی مرضی بھی شامل ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر دہشتگرد داخل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی اس حوالے سے مانیٹرنگ کے لیے ایک میکنزم بنائے گا تاکہ افغانستان سے دہشتگرد بارڈر کراس کرکے پاکستان میں داخل نہ ہوسکیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بارڈر کراس ہورہا ہے، افغانستان سے باڑ کاٹ کر دہشتگرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، ہم ان کو کاؤنٹر کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انکاؤنٹر کے دوران ہمارا بھی نقصان ہوتا ہے لیکن ان کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ مانیٹرنگ کے عمل میں ثالث ممالک کا کردار بھی کسی نہ کسی صورت میں ہوگا تاکہ کوئی خلاف ورزی نہ ہو اور پندرہ دن یا مہینے بعد دوبارہ امن خراب نہ ہو۔ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں معاملات کی نگرانی کریں گی۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے، خواجہ آصف نے تجویز دیدی
انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں خفیہ ایجنسیاں بھی شریک تھیں جن کے پاس جدید معلومات موجود ہیں کہ دہشتگردی کہاں سے ہورہی ہے، کون کررہا ہے، اس کے پیچھے کون ہے، بھارت کا اس میں کیا کردار ہے اور موجودہ افغان حکومت میں کون سے عسکری گروپس شامل ہیں۔ جس طرح خفیہ ایجنسیاں مذاکرات کررہی ہیں شاید اس طرح کوئی اور نہ کرسکے۔ مذاکرات کا اگلا دور 6 نومبر کو استنبول میں ہوگا جس میں یہ ساری چیزیں طے ہوں گی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ یہ دونوں نیٹو فورسز کے ساتھ مل کر لڑے ہیں۔ دونوں کے مشترکہ مفاد ایسے ہیں کہ افغان طالبان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے۔ ٹی ٹی پی کی لیڈرشپ کابل میں موجود ہے تو افغانستان کے نظام میں بھی ان کا عمل دخل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں نجی طور پر افغان حکومت ٹی ٹی پی کی موجودگی کا اعتراف کرتی ہے۔ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پناہ دی ہوئی ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی میں کمی ضرور ہوئی ہے مگر معاملات ختم نہیں ہوئے۔ جب سے مذاکرات چل رہے ہیں 3 سے 4 وارداتیں سرحد پار سے ہوئی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغانستان پاکستان ترکیہ جنگ بندی خواجہ آصف قطر وزیردفاع