دنیا ہر پانچ سے چھ صدی بعد رونما ہونے والی بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے، اور ایسا انسان کی معلوم تاریخ میں چوتھی بار ہو رہا ہے۔ پچھلی تین تبدلیوں میں قدر مشترک ہتھیار تھا۔ جبکہ اس بار یہ تبدیلی کم از کم لمحہ موجود تک کسی جنگ کے بغیر رونما ہورہی ہے۔ امریکا کی جانب سے جنگی ماحول بنانے کی کوشش تو پوری ہوئی ہے، مگر تاحال بات بس ماحول بنانے تک ہی ہے۔ جنگ لڑنے کی اس کی سکت افغانستان میں شادیوں کی تقریبات پر بمباریاں کرتے کرتے ختم ہوچکی۔ اگر یہ سکت اب بھی موجود ہوتی تو ایران میں فتح کے جھنڈے گاڑھنے کی بجائے وہ فرینڈلی بمباری کرکے پتلی گلی سے نہ نکلتا۔
تین سال قبل آکسفورڈ یونین کے چینل پر برطانوی رکن پارلیمان سر ونس کیبل اور امریکی تھنک ٹینک ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر مائیکل پلزبری کے بیچ ہونے والی وہ ڈیبیٹ دیکھی تھی، جس کا عنوان ’Dancing With The Dragon‘ تھا۔ اس ڈبیٹ کے دوران مائیکل پلزبری نے ایک ایسا جملہ کہا تھا جو کوئی امریکی ہی کہہ سکتا تھا۔
’ہم چائنا کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہماری طرح نیوکلیئر بمبار اڑاتا پھرے‘۔
اس جملے میں قابل توجہ لفظ ’اجازت‘ ہے، اگر آپ امریکی خارجہ پالیسی کی تاریخ دیکھیں تو پچھلے 80 برسوں میں ان کے ہاں دو لفظوں کا استعمال آپ کو تواتر سے ملے گا۔ ایک یہ کہ ہم فلاں ملک کو فلاں کام کی اجازت نہیں دیں گے اور دوسرا یہ کہ ہم فلاں ملک کو فلاں حرکت پر سزا دیں گے۔ یہ محض دو لفظ نہیں، امریکی خارجہ پالیسی کا مزاج ہیں۔ یہ رعونت ان کے سیاسی کلچر کا اس حد تک حصہ بن چکی کہ امریکا کے صحافی بھی ان الفاظ کا استعمال تواتر سے کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً امریکی صدر سے یہ سوال کرنا
’کیا آپ چائنا کو اس کی سزا، اجازت دیں گے؟‘
مائیکل پلزبری کے مذکورہ جملے پر سر ونس کیبل نے یہ کہہ کر گویا مائیک ہی ڈراپ کردیا تھا۔
’یہ وقت ہم پر بھی گزرا تھا، کیونکہ یہ ہم ہی تو تھے جن سے اختیار آپ کو منتقل ہوا تھا۔ میں جانتا ہوں یہ بہت تکلیف دہ وقت ہوتا ہے۔ مگر پھر ہم نے حقیقت سے سمجھوتہ کرلیا۔ اور یوں رفتہ رفتہ ہم نئی صورتحال کے عادی ہوگئے۔ یقین جانیے آپ بھی رفتہ رفتہ عادی ہوجائیں گے۔‘
طاقور ممالک کے صاحب اختیار، شہری اور دانشور کیا سوچتے ہیں، اس سے آگاہ رہنا شعور کی ضرورت ہے مگر اس تبدیلی کے حوالے سے ہم چھوٹے ممالک کے شہریوں کے لیے زیادہ اہم یہ سوال ہے کہ نیا عالمی تھانیدار ہمارے لیے کیسا ثابت ہوگا؟ ہمارا جو بازو 80 برس تک مسلسل مروڑا جاتا رہا ہے، اسے اب کچھ سکون نصیب ہوگا؟ یا تبدیلی بس اتنی ہی رونما ہوگی کہ بازو مروڑنے والے بدل جائیں گے؟ اور سب سے اہم یہ کہ مجموعی طور پر جیو پالیٹکس کا مزاج اس نئے دور میں کس طرح کا ہوگا؟
اس سوال کی جانب آنے سے قبل یہ گتھی سلجھانی ضروری ہے کہ اگر دنیا ملٹی پولر بن رہی ہے تو اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ دو سے زیادہ عالمی طاقتیں موجود ہوں گی۔ اور ان کا اپنا اپنا دائرہ اثر ہوگا۔ تو پھر چین کو نیا عالمی حکمران کیوں کہا جا رہا ہے؟ جواب بہت ہی سادہ ہے۔ چائنیز کیمپ کو گلوبل ساؤتھ کہا جاتا ہے۔ جو دنیا کے 80 فیصد ممالک پر مشتمل ہے۔ سو ہوں گی تو دنیا میں یقیناً تین طاقتیں مگر ان تین میں سے روس تو پہلے ہی چین کا ’بگ برادر‘ ہے۔ دوسری طرف صرف امریکا اور اس کے ڈھائی درجن پارٹنرز ہوں گے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ملٹی پولر ورلڈ کس قدر غیر متوازن ہوگا، اور طاقت کا ارتکاز کہاں ہوگا؟
مستقبل کی جیوپالیٹکس کا مزاج سمجھنے کے لیے تین باتوں کا جائزہ مدد فراہم کرسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو چائنیز اور امریکی انداز فکر کے جوہری فرق کو دیکھنا ہوگا۔ امریکا کی معاشی سوچ یہ تھی کہ وافر منافع تو اسلحے کے بزنس میں ہے۔ یوں اس نے صرف اپنی معیشت ہی ملٹری انڈسٹریل کملیکس پر استوار نہ کی بلکہ اسلحے کی تجارت کو فروغ دینے کے لیے اس نے مسلسل جنگیں بھی بھڑکائے رکھیں۔ اس کے برعکس چائنیز معاشی سوچ یہ ہے کہ دنیا میں 8 ارب انسان بستے ہیں۔ ان سب کو بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ 8 ارب گاہک بھی ہیں۔ لہٰذا ان کی ضرورت کی اشیا تیار کرکے فروخت کرنا بڑی معاشی ترقی کی ضمانت ہے۔ اس چینی سوچ کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ چائنیز سوچتے ہیں، 8 ارب انسانوں کا زندہ اور صحت مند رہنا ہی نہیں بلکہ خوشحال ہونا بھی ان کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اگر انسان صحتمند اور خوشحال نہ ہوا تو وہ چائنیز مال کیسے خریدے گا؟ یوں چائنا اپنی ترقی سے گاہک کی صحت مند اور خوشحال ترقی کو بھی جوڑ دیتا ہے۔
کوئی پچاس برس پیچھے جھانک کر دیکھیے تو چائنیز شہری فاقوں کا شکار، اور ان کا لیڈر ڈینگ ژیاؤ پنگ پریشان ملے گا۔ جب ہم بھٹو کی پھانسی پلان کررہے تھے عین انہی ایام میں چائنیز قیادت جدید چین کا مستقبل پلان کررہی تھی۔ یوں ہم میں سے جو پچاس سے اوپر کے ہیں۔ انہوں نے پلان سے عمل اور وہاں سے سپر طاقت بننے تک کے تمام چینی مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ چین نے جو عظیم الشان ترقی کی ہے، وہ اس نے جنگیں لڑ کر یا ہتھیار بیچ کر نہیں کی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ چین نے عام انسانوں کی ضرورت کی اشیا بنا اور بیچ کر ترقی کی ہے۔ یوں وہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا صنعتکار بھی ہے اور تاجر بھی۔ صنعتکار اور تاجر کی سب سے بڑی ضرورت امن ہے۔ وہ فطری طور پر جنگ سے نفرت کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے بدامنی کاروبار کو تباہ کرتی ہے۔
مستقبل کی جیو پالیٹکس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے جو دوسری چیز مدد فراہم کرتی ہے وہ ہے چائنا اور روس کی وہ خارجہ پالیسی جو ان دونوں ممالک کے دفتر خارجہ کی ویب سائٹس پر موجود ہے۔ ان دونوں ہی ممالک کی خارجہ پالیسی میں اس بات کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔
’ہم دوسرے ممالک کے داخلی امور میں دخل نہیں دیتے‘
یعنی ہم کسی ملک سے یہ نہیں کہتے کہ اپنا نصاب تعلیم ہماری منشا کے مطابق تشکیل دو، اسلامی جمہوریت نہیں بلکہ لبرل جمہوریت رائج کرو۔ تمہارے ملک میں شراب تک رسائی بہ آسانی کیوں میسر نہیں؟ تمہارے آئین میں فلاں فلاں دفعات کیوں ہیں؟ دنیا بھر کے ممالک کے داخلی امور میں یہ دخل امریکا کھلے عام دیتا رہا ہے۔ اور اس کے باوجود ہمارے منافق لبرل دانشور ہمیں یہ سودا بیچنے کی کوششیں بھی کرتے رہے ہیں کہ امریکا نے تو گویا ’حریت‘ کو کسی ناقابل یقین رفعت تک پہنچایا ہے۔ حالانکہ امریکا نے فرد کی بجائے قوموں کو غلام بنانے کی حکمت عملی متعارف کرائی۔ بین الاقوامی قانون کی بجائے ’رولز بیسڈ آڈر‘ کا آئیڈیا لے کر آیا۔
تیسری اور بے پناہ اہم چیز یہ کہ صدر شی جن پنگ نے انقلاب کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا تھا۔
’مختلف تہذیبوں کا ہونا اس گلدستے کی طرح ہے جس میں ہر رنگ و بو والے پھول ہوں۔ تنوع عیب نہیں خوبی ہے۔‘
صدر شی نے جو بات تھیوری کی شکل میں کہی تھی اس کی عملی تفسیر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کچھ ہی دن بعد یوں کردی تھی۔
’آنے والا دور تہذیبوں کی بقائے باہمی کا دور ہوگا، ہر تہذیب کسی بھی دباؤ سے آزاد ہوگی، اور ان میں کوئی ٹکراؤ نہ ہوگا۔‘
ان دونوں صدور نے جو بات کہی تھی اس کی اہمیت یہ ہے کہ سوویت زوال کے بعد سے امریکا گلوبلزم کے نام پر دنیا کے ہر ملک سے یہ تقاضا کررہا تھا کہ صرف لبرل جمہوریت اور لبرل کلچر ہی قابل قبول ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے ’رجیم چینج‘ نامی اسکیم بھی متعارف کرائی۔ سو صدر شی اور صدر پیوٹن درحقیقت دنیا کو یہی بتا رہے تھے کہ یہ تماشا اب زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ جلد وہ وقت آئے گا جب ہر تہذیب اور ملک خارجی دباؤ سے آزاد ہوگا۔
کہنے کو کہا جاسکتا ہے کہ جب ایک بار اختیار منتقل ہوگیا تو شاید چائنیز اور روسی لیڈرز بھی ہمارے لیڈرز کی طرح اپنا کہا بھول جائیں، لیکن ظاہری طور پر ایسا ممکن نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے اپنے داخلی امور میں دخل سب سے زیادہ چین اور روس نے ہی بھگت رکھا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ داخلی امور میں دخل کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے۔ امریکا انسانی تاریخ کا وہ واحد عقلمند ہے جس نے کبھی بھی اپنی غلطیوں سے خود کچھ نہیں سیکھا۔ اس کی غلطیوں سے سارے سبق روس اور چین نے ہی سیکھ رکھے ہیں۔ سو امید رکھنی چاہیے کہ یہ سبق ہمارے بھی کام آئیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا بڑی تبدیلیاں پاکستان چین رعایت اللہ فاروقی نئے تھانیدار وی نیوز داخلی امور میں خارجہ پالیسی کہ امریکا کی ضرورت ممالک کے یہ ہے کہ کا مزاج اور ان دیں گے رہا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا: وزیرِ دفاع خواجہ آصف
وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا، مسلم ممالک کو نیٹو کے طرز پر اتحاد بنانا چاہیے، مجھے مسلم ممالک کے اجلاس میں مایوسی نہیں ہوئی۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معرکۂ حق میں تو ہم نے ثابت کر دیا کہ بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔
قطر پر اسرائیلی حملہ: نیتن یاہو نے ٹرمپ کو پہلے سے آگاہ کیا یا نہیں؟ تضاد سامنے آ گیااسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات میں تضاد سامنے آ گیا ہے کہ آیا قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے سے متعلق واشنگٹن کو پیشگی اطلاع دی گئی تھی یا نہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، اسے سوڈان سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر لائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ حماس کی قیادت امریکا کی مرضی سے قطر میں بیٹھی تھی، غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے یہ سب کچھ امریکا کی مرضی کے ساتھ ہوا ہے، مسلم دنیا کو سمجھنا چاہیے اور اپنے دوست نما دشمن میں تفریق کر لیں، بڑا واقعہ ہے کچھ وقت لگے گا لیکن کچھ نہ کچھ ہو گا۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ شام میں امریکا کی مرضی سے حکومت آئی ہے، اسرائیل اس پر بھی حملے سے باز نہیں آ رہا، امریکا اور مغرب میں جو رائے عامہ بن رہی ہے یہ اسرائیل کے لیے زیادہ خطرناک ہے، امریکا اور باقی دنیا میں رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو رہی ہے۔