Express News:
2025-09-17@21:44:48 GMT

کال کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے !!!

اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT

آج کی جنریشن زیڈ یا جنریشن زی کیلئے یہ تصور کرنا محال ہوگا کہ کبھی پورے محلے کے ایک گھر میں فون ہوتا تھا جو پورے محلے کی ٹیلی فون کی ضروریات کیلئے کافی تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب ٹیلیفون تاروں سے بندھے ہوئے تھے اور لوگ آزاد تھے۔ آج ٹیلیفون متحرک ہے اور لوگ نہ نظر آنے والے تاروں سے اس آلے سے بندھے ہوئے ہیں۔ 

اے ذوق دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا 
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی 

جنریشن زی اس جنریشن کو کہتے ہیں کہ جو نوے کی دہائی کے آخر اور دوہزار دس کے درمیاں پیدا ہوئی ہے۔ یہ وہ نسل یے جو اپنے ابتدائی بچپن سے ہی انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ساتھ بڑی ہوئی ہے۔ یہ نسل ففٹی ففٹی کا وہ لطیفہ سمجھ ہی نہیں سکتی کہ دادا نے ٹیلیفون کے کنکشن کی درخواست دی تھی اور پوتے کی زندگی میں ٹیلیفون کا کنکشن ملتا ہے۔

آج جب گھر کے افراد سے زیادہ گھر میں ٹیلیفون موجود ہیں اور کال مختلف ایپ کے ذریعے تقریباً مفت ہوچکی ہے لیکن لوگ ایک دوسرے سے قریب ہونے کے بجائے مزید دور ہوگئے ہیں۔ عام طور پر جب بھی ٹیکنالوجی لوگوں کی زندگی میں آئی تو لوگوں نے پہلے اس کو سیکھا اور پھر استعمال کیا، مثال کے طور پر وی سی آر کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ شروع میں اس کو کرائے پر لینے کی صورت میں اس کے ساتھ اس کو چلانے والا بھی آتا تھا۔

ہم نے موبائل فونز صرف چلانا سیکھا لیکن اس کے ساتھ کے آداب و اطوار کو بالکل ہی نظر انداز کردیا حالانکہ اس کے آداب تو بہت ہی ضروری ہے۔ آج اس آلے کے آداب نہ سیکھنے کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کا کال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ اگر کال وصول کرنے والے کال کاٹ دی تو ایسا نہ ہوں کہ: 

گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے 

لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ ہم میٹنگ میں مصروف تھے، بالکل ٹھیک تو میٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی فون کو خاموش موڈ پر کر دیجئے تاکہ کوئی کال آپ کی میٹنگ میں مخل نہ ہوں اور آپ میٹنگ کے بعد جن کی کالز آئی تھی انھیں کال کر لیجئے لیکن اگر آپ اپنے اختیار اور قوت کا مظاہرہ کرکے کال کو کاٹتے ہے تو پھر اس صورت میں ابھی آپ کو اس آلے کے متعلق اور شاید اپنے متعلق بھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم پہلے آلے پر بات کر لیتے ہیں۔

اگر آلے کا اسکرین آپ کے چہرے کی طرف ہے تو اس کے دائیں جانب ایک بٹن ہے کہ جس کو دبانے سے بغیر کال کاٹے آتی کال کی گھنٹی یا بیل کو خاموش کیا جاسکتا ہے اور یوں آپ میٹنگ میں مخل ہونے سے بچ جائے گے لیکن اگر آپ نے اپنے اختیار اور قوت کا مظاہرہ کرنا ہے تو پھر کال کاٹنا ہی بہتر آپشن ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو بہت برملا دوسرے لوگوں کی کال کاٹتے ہیں وہ بھی اپنی کال کٹنے پر شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ لوگ خود دوسروں کی کالز کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ان کی کال فوراً وصول کی جائے بلکہ کثیر القومی اداروں کے طریقہ کار کے مطابق پہلی تین گھنٹیوں میں ہی وصول کی جائے۔ نہیں جناب ایسا نہیں ہوسکتا یہ دو رویہ راستہ ہے یہ صرف ایک صورت میں یک رویہ ہوسکتا ہے کہ جب آپ ایک بہت ہی کلیدی عہدے پر ہوں اور اپنی نوکری کے دوران آپ لوگوں کی ضرورت ہوں۔

آپ کو یہ خیال رکھنا ہوگا کہ یہ استحقاق آپ کے پاس صرف نوکری کے دنوں تک ہے اور نوکری ختم ہوتے ہی یہ سڑک خودبخود دو رویہ ہوجائے گی اور آپ کو کال کرنے سے پہلے سوچنے پر مجبور کرے گی۔ اگر آپ نے نوکری کے دنوں میں اپنے استحقاق کا کچھ زیادہ ہی استعمال کیا ہوگا تو پھر باقی عمر فون کو چیک کرنے میں ہی گزرے گی کہ کوئی خرابی تو نہیں ہوگئی کہ کوئی کال نہیں آرہی ہے۔

میں 1992 سے موبائل فون استعمال کررہا ہوں جو میرے اس وقت کے ادارے نے دیا تھا۔ اس دور میں پاکستان میں دو ہی ادارے یہ سہولت فراہم کرتے تھے۔ Patel اور Istaphone جب کہ موبی لنک بہت بعد میں آئی تھی۔

یہ وہ دور تھا کہ جب کال وصول کرنے کے بھی پیسے دینے پڑتے تھے اور موبائل فون ایک اسٹیٹس سمبل تھا اور لوگ بڑی شان سے اس کو لیکر چلتے تھے۔ عام ہونے کے بعد موبائل فون کی کوئی عزت نہیں رہی اور آج اسٹیٹس سمبل یہ ہے کہ کوئی اور آپ کا موبائل فون اٹھائے اور کال آنے پر آپ کو بتائیں کہ کس کا فون ہے اور یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ بات کرنا چاہے یا بات کرنے سے انکار کردے۔ 

اس تحریر کی تحریک یوں ملی کہ کسی کے فون پر ایک پیغام آیا۔ پیغام وصول کرنے والے کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے یہ پیغام کیوں بھیجا گیا ہے؟ پیغام میں ایک عام سی نصیحت آموز تحریر تھی۔ اس پر میں نے پیغام وصول کرنے والے فرد سے کہا کہ یہ آپ سے رابطے میں رہنا چاہتے ہیں لیکن کال نہیں کرنا چاہتے کیونکہ شاید وہ کال کے ممکنہ نتائج کیلئے خود کو تیار نہیں پاتے۔ میرے نزدیک کسی کی کال کاٹنا انتہائی درجے کی بدتمیزی اور بدتہذیبی ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ اگر آپ دوسروں کی کالز کاٹتے ہیں تو آپ کو اختلاف رائے کا حق بھی ہے اور یہ آپ کی  ضرورت بھی ہے۔ وہ لوگ جو اب فون کو بار بار اٹھا کر چیک کرتے ہے کہ کام بھی کررہا ہے یا نہیں ان کیلئے ایک کہانی اور اختتام۔ 

ایک بہت بڑے افسر (اپنے تئیں) ریٹائرمنٹ کے بعد کسی نئی رہائشی کالونی میں منتقل ہوئے۔ پہلے کچھ دن تک وہ کسی سے بات نہیں کرتے تھے۔ شام کو اکیلے ہی چہل قدمی کرکے گھر چلے جاتے تھے۔

ایک شام وہ کالونی کے پارک میں ایک صاحب کے ساتھ بیٹھے اور انھیں بتانے لگے کہ وہ کتنے بڑے افسر تھے۔ وہ صاحب پہلے تو خاموشی سے سنتے رہے جب وہ چپ ہوئے تو انھوں نے سوسائٹی کے دیگر لوگوں کا ان سے تعارف کروایا کہ باقی لوگ بھی بہت بڑے بڑے افسران تھے۔

اس کے بعد بولے کہ نوکری کے دوران آپ کتنے بڑے افسر تھے اس سے نوکری کے دوران تو فرق پڑتا ہے مگر ریٹائرمنٹ کے بعد ہم سب فیوز بلب ہے اور بلب کے فیوز ہونے کے بعد اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ سو واٹ کا تھا یا زیرو واٹ کا کیونکہ اب سب فیوز بلب ہے۔ پتہ نہیں اس قصے کے بعد وہ صاحب سمجھے یا نہیں لیکن آپ مجھے اجازت دیجئے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موبائل فون وصول کرنے نوکری کے کے ساتھ کہ کوئی کی کال ہے اور کال کر کے بعد اگر آپ ہیں کہ

پڑھیں:

سینئر اداکار محمد احمد بھائی کے انتقال کے لمحے کو یاد کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے

پاکستان شوبز کے سینئر اداکار اور مصنف محمد احمد انٹرویو کے دوران اپنے بڑے بھائی کے انتقال کے دلخراش واقعے کو یاد کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔ 

اداکار محمد احمد کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ فلم ’کیک‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔ ایک مارننگ شو میں گفتگو کرتے ہوئے محمد احمد نے بتایا کہ انہیں گھر سے بھائی کی موت کی خبر ملی جو سن کر وہ بلکل سُن ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں فلم کیک کی شوٹنگ کے دوران ایک مزاحیہ سین کر رہا تھا جب موبائل فون پر ایک پیغام آیا کہ ’بھائی جان انتقال کر گئے‘۔ یہ پڑھ کر میں سن ہو گیا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہدایتکار عاصم عباسی فوراً سمجھ گئے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ میں نے اُن سے چند منٹ بریک کی اجازت لی اور باہر جا کر بہت رویا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا میں شوٹنگ روکنا چاہتا ہوں، لیکن میں نے کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔‘

محمد احمد کے مطابق وہ بڑے بھائی کے جنازے میں شریک نہ ہو سکے اور ان کے انتقال کے صرف تیسرے دن اسلام آباد جا کر اسی دن واپس کراچی آ گئے۔ محمد احمد نے شیکسپیئر کے قول ’The show must go on‘ کو ایک تلخ حقیقت قرار دیا۔

یاد رہے کہ اداکار محمد احمد سبات، بیٹیاں، ہم تم، برات سیریز سمیت کئی مشہور ڈراموں کا حصہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں تاخیر سے ادائیگیوں کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ 

متعلقہ مضامین

  • پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹرکوسرکاری گاڑی میں سواریاں بٹھانا مہنگا پڑ گیا
  • سینئر اداکار محمد احمد بھائی کے انتقال کے لمحے کو یاد کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے
  • اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار
  • لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟
  • کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی
  • کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی کی درخواست پر سماعت
  • کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کی درخواست پر جواب طلب
  • وینزویلا میں امریکی فضائی حملے میں تین دہشت گرد ہلاک، صدر ٹرمپ
  • جماعتِ اسلامی کی ٹیم اختیار سے بڑھ کر کام کررہی ہے‘فرحان بیگ
  • جنگی جرائم پر اسرائیل کو کوئی رعایت نہں دی جائے؛ قطراجلاس میں مسلم ممالک کا مطالبہ