خیبرپختونخوا میں 8 ہزار سے زائد دہشتگردوں کی موجودگی کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
پشاور: سرکاری حکام نے انکشاف کیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں 8 ہزار سے زائد فتنہ الخوارج دہشتگرد موجود ہیں جو عام آبادی میں پناہ لے کر سکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں۔
ان دہشتگردوں کی بڑی تعداد پشاور، ٹانک، ڈی آئی خان، بنوں، لکی مروت، سوات، شانگلہ اور ضم اضلاع میں سرگرم ہے جب کہ صرف باجوڑ اور خیبر میں ہی 800 سے زیادہ دہشتگرد چھپے بیٹھے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ دہشتگرد غیر معروف راستوں کے ذریعے افغانستان سے پاکستان داخل ہوئے اور سی پیک روڈ، ڈی آئی خان تا بنوں اور ٹانک میں ناکے لگا کر نہ صرف نقل و حرکت متاثر کرتے ہیں بلکہ فورسز پر بھی حملے کرتے ہیں۔ دہشتگردوں کے عام آبادی میں چھپ جانے کے باعث جوابی کارروائی میں مشکلات بڑھ گئی ہیں اور فورسز کو جانی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت ہونے والے جرگوں میں قبائلی عمائدین نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور افغانستان سے ہونے والی دہشتگردوں کی دراندازی کا معاملہ افغان حکومت کے ساتھ اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران شمالی وزیرستان اور باجوڑ میں کارروائیوں کے نتیجے میں 80 دہشتگرد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔
اس حوالے سے آئی جی خیبرپختونخوا ذوالفقار حمید نے بتایا کہ فورسز کو صوبے میں فتنہ الخوارج کی موجودگی اور ان کی کارروائیوں سے مکمل آگاہی ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ ماہ مختلف اضلاع میں 190 آپریشنز کیے گئے جن میں 39 دہشتگرد مارے گئے اور 110 گرفتار ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خوارج کی جانب سے سڑکوں پر ناکے لگانے پر سختی سے نوٹس لیا گیا ہے اور سی پیک پر موٹروے پولیس کے ساتھ مل کر دن رات گشت جاری ہے۔
دوسری جانب مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے واضح کیا کہ دہشتگرد افغانستان سے آرہے ہیں اور ان کے خلاف ریاست بھرپور طاقت کے ساتھ کارروائی کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فتنہ الخوارج کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
سوڈان میں قیامت خیز جنگ, والدین کے سامنے سینکڑوں بچے قتل، ہزاروں افراد محصور
خرطوم: سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہونے والے عینی شاہدین نے انکشاف کیا ہے کہ نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے جنگجوؤں نے شہر پر قبضے کے دوران بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا، خاندانوں کو الگ کر دیا، اور شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے سے روک دیا۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق الفاشر میں اجتماعی قتل عام، جنسی تشدد، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ اب تک 65 ہزار سے زائد افراد شہر سے نکل چکے ہیں، لیکن دسیوں ہزار اب بھی محصور ہیں۔
جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے موجودہ صورتحال کو "قیامت خیز" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جا رہا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق جنگجوؤں نے عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کیا، کئی افراد کو تاوان کے بدلے حراست میں رکھا گیا۔ رپورٹس کے مطابق صرف پچھلے چند دنوں میں سینکڑوں شہری مارے گئے، جب کہ بعض اندازوں کے مطابق 2 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں دیکھی گئی ہیں۔ ییل یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق یہ قتل عام اب بھی جاری ہے۔
سوڈان میں جاری یہ خانہ جنگی اب ملک کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جنگ کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر اور دسیوں ہزار ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ خوراک اور ادویات کی شدید قلت نے انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔