Express News:
2025-09-18@14:34:36 GMT

دریا کی فریاد

اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT

پنجاب اس وقت سیلاب کے شکنجے میں ہے۔ بارشوں کا زور اور دریاؤں کی طغیانی نے ایسے منظر تخلیق کیے ہیں جو ہمارے اجتماعی لاپرواہی کے آئینے میں ہمیں جھانکنے پر مجبور کرتے ہیں۔

راوی کے کنارے پر کھڑی وہ پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں جہاں لوگ اپنی زندگی بھرکی جمع پونجی لگا کر اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتے تھے، وہ گھر آج پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ خواب جو کبھی روشن کھڑکیوں اور خوشبو بھرے صحن کے ساتھ جڑنے والے تھے، آج مایوسی اندیشوں اور بے بسی کے سیلاب میں بہہ رہے ہیں۔

 یہ المیہ کوئی اچانک اترنے والی آفت نہیں، اس کی جڑیں ہماری پالیسیوں ہمارے فیصلوں اور ہماری ترجیحات میں پنہاں ہیں۔ ہم نے دریاؤں کے کنارے کو صرف ایک خالی جگہ سمجھا جس پر تعمیرات کی جاسکتی ہیں۔ ہم نے ان کے راستے بند کیے، ان کے فطری بہاؤ کو روکا اور یہ بھول گئے کہ دریا زمین کے سب سے پرانے باشندے ہیں، ان کے راستے کو روکنا، ایسے ہی ہے جیسے انسان اپنی سانسوں کو روکنے کی کوشش کرے۔ دریا جب اپنا راستہ ڈھونڈتے ہیں تو پھر کوئی بند، کوئی دیوار اور کوئی خواب ان کے آگے ٹک نہیں پاتا۔

اقوامِ متحدہ کے ماہرین برسوں سے خبردار کرتے آئے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات صرف بارشوں یا درجہ حرارت کی تبدیلی تک محدود نہیں، یہ ہماری شہروں کی منصوبہ بندی، زرعی پیداوار اور سب سے بڑھ کر انسانی بقا پر اثر انداز ہوتے ہیں مگر ہم نے ہمیشہ وقتی مفاد کو ترجیح دی۔

ایک طرف سیاسی رہنماؤں کے بیانات اور زمینوں کی اسکیموں کے جھوٹے وعدے اور دوسری طرف عوام کی وہ مجبوریاں کہ جہاں رہنے کو کوئی اور جگہ نہیں وہاں وہ اپنی زندگی کی کمائی لگا دیتے ہیں، نتیجہ یہ کہ آج قصور،لاہور اور راوی کے کنارے آباد کئی بستیاں پانی میں ڈوبی کھڑی ہیں اور لوگ یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہیں، اس تباہی کا ذمے دار کون ہے؟

سیلاب کی ذمے داری صرف بارش یا فطرت پر ڈال دینا انصاف نہیں۔ یہ ہم سب کے اجتماعی جرم کا نتیجہ ہے۔ زمین کے لالچ میں زمیندار سیاسی اشرافیہ اور پرائیویٹ ڈویلپرز نے دریا کے قدرتی راستوں کو پلاٹوں میں بانٹ دیا۔ حکومت نے آنکھیں بند کیں، ادارے اپنی ذمے داریوں سے غافل رہے اور عوام نے خوابوں کی تعبیر کے لیے وہی زمین خرید لی جو کبھی دریا کے پانیوں کا گھر تھی، یوں انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے خطرہ مول لیا۔

دریا کا پیغام ہمیشہ ایک سا رہا ہے، مجھے بہنے دو۔ پانی کو جب راستہ ملتا ہے تو وہ زندگی بخشتا ہے، کھیت لہلہاتے ہیں، سبزہ اگتا ہے اور بستیوں میں خوشحالی آتی ہے مگر جب پانی کو روکا جاتا ہے تو وہ موت اور تباہی لے کر آتا ہے۔ یہ سبق ہمیں بار بار ملا مگر ہم نے کبھی اس پر غور نہ کیا۔ سندھ، بلوچستان، خیبر پختو نخوا ہر جگہ سیلاب نے بربادی کی داستانیں لکھی ہیں۔ پھر بھی ہم دریا کے کنارے بستیاں آباد کرتے ہیں، نہروں پر قبضے کرتے ہیں نالوں کو بند کردیتے ہیں اور جب پانی اپنے حق کے لیے اٹھتا ہے تو ہم اسے آفت کا نام دے کر خاموش ہو جاتے ہیں۔

اس منظر میں سب سے زیادہ دکھ ان معصوم لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے کبھی سیاست یا منصوبہ بندی کے فیصلے نہیں کیے۔ وہ صرف ایک گھر چاہتے تھے جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ سکون سے رہ سکیں۔ آج وہ بچے کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، عورتیں بے یار و مددگار اپنے سامان کی رکھوالی کر رہی ہیں اور مرد حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اپنے ضمیر سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے ان کے خواب لوٹ لیے؟

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ سیلاب صرف ایک قدرتی حادثہ نہیں بلکہ ایک سماجی المیہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زمین کو خرید کر ہم قدرت کے اصول نہیں بدل سکتے۔ ہمیں دریاؤں کو ان کے اصل راستے لوٹانے ہوں گے۔ ہمیں شہروں کی منصوبہ بندی میں پانی کے قدرتی بہاؤ کو شامل کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ فطرت کے خلاف کھڑے ہو کر انسان کبھی سرخرو نہیں ہو سکتا۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے رویے بدلیں، ترقی کا مطلب یہ نہیں کہ دریا کو کنکریٹ میں قید کر دیا جائے۔ ترقی کا مطلب یہ ہے کہ ہم فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھیں، اگر ہم نے اس سبق کو نظرانداز کیا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف راوی بلکہ جہلم اور ستلج بھی ہمیں وہی سبق یاد دلائیں گے۔

دریا کو بہنے دو یہ صرف ایک جملہ نہیں یہ ہمارے اجتماعی بقا کا نعرہ ہے۔ اگر ہم نے دریاؤں کو راستہ دیا تو وہ ہمیں زندگی دیں گے، اگر ہم نے ان کے راستے بند کیے تو وہ ہماری بستیوں ہمارے خوابوں اور ہماری نسلوں کو بہا لے جائیں گے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قدرت ہمیں صرف سزا نہیں دیتی بلکہ بار بار موقع بھی فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھیں، اپنے طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کریں اور مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ آج اگر ہم نے اپنی ترجیحات میں فطرت، ماحول اور انسانی زندگی کی قدر کو مرکزی حیثیت نہ دی تو کل ہمارے پاس نہ زمین ہوگی، نہ سر چھپانے کو چھت۔

سیلاب نے صرف مکانوں کو نہیں بہایا، بلکہ ہمارے نظام کو بھی چیلنج کیا وہ سوچ جو ترقی کو صرف عمارتوں کی اونچائی اور زمین کی خرید و فروخت سے جوڑتی ہے، کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ترقی کا مفہوم وہ سماج بھی ہوسکتا ہے جو محفوظ ہو پائیدار ہو اور سب سے اہم بات کہ وہ قدرت سے ہم آہنگ ہو۔

ہمارے میڈیا اور پالیسی سازوں کو اس طرف توجہ دینی ہوگی۔ ہمیں آنے والے وقت میں یہ سمجھنا ہوگا کہ دریا صرف پانی کی ایک لکیر نہیں بلکہ ایک مکمل ماحولیاتی نظام ہے اور ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔ ہمیں ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جو صرف تعمیرات کو ریگولیٹ نہ کرے بلکہ ماحولیاتی توازن کو تحفظ دے، عدلیہ مقامی حکومتیں اور سب کو ایک اجتماعی عزم کے ساتھ سامنے آنا ہوگا۔

آج دریا فریاد کر رہا ہے اور اگر ہم نے اب بھی نہ سنا تو آنے والا کل آج سے زیادہ تباہی اور بربادی لے کر آئے گا۔ اب بھی وقت ہے دریا کو بہنے دو تاکہ زندگی باقی رہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اگر ہم نے کے کنارے ہے کہ ہم صرف ایک کے ساتھ اور سب کے لیے ہے اور میں یہ

پڑھیں:

مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے،ترک صدر

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مشرقی یروشلم پر بطور مسلمان اپنے حقوق سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اردوان نے یہ بات دارالحکومت انقرہ میں ترکی کی وزارت خارجہ کی نئی عمارت کے سنگ بنیاد کی تقریب میں کہی۔
اردوان نے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ ترکی کی یکجہتی کا اعادہ کیا اور عہد کیا ہے کہ مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
ترک رہنما نے غزہ کے لیے اپنے ملک کی حمایت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ “ہمیں غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا جو اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم آج اور کل ان لوگوں کے خلاف ڈٹے رہیں گے جو ہمارے خطے کو خون کے سمندر میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور جو ہمارے جغرافیہ میں عدم استحکام کو ہوا دیتے ہیں۔
قطر میں ایک ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے بعد واپسی پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، اروان نے فلسطینی ریاست کا مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دوبارہ اٹھانے کا وعدہ کیا۔
دوحا میں عرب اسلامی کے ہنگامی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ اسرائیل پر معاشی دباؤ ڈالنا ہو گا ماضی نے ثابت کیا دباؤ مؤثر ہوتا ہے۔
صدر اردوان نے گذشتہ ہفتے قطر میں حماس کی مذاکراتی ٹیم پر اسرائیل کے حملے پر اسرائیلی وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ “نظریاتی طور پر نیتن یاہو ہٹلر کے رشتہ دار کی طرح ہیں”۔
اروان اس سے قبل نیتن یاہو کا ہٹلر سے موازنہ کر چکے ہیں اور اسرائیلی حکومت کو “قتل کا نیٹ ورک” کہہ چکے ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں “فرنٹ آف انسانیت” فلسطین کے لیے وسیع تر حمایت حاصل کرے گا۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • یوٹیوب پر نماز روزے کی بات کرتی ہوں تو لوگ حمائمہ کا نام لیتے ہیں، دعا ملک
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے،ترک صدر
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اپنے ہی ساتھیوں پر برس پڑے