وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسداد دہشتگردی کا قانون کسی بے گناہ شخص کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ گوادر میں مزدوروں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، جس سے دہشتگردوں کے عزائم واضح ہوتے ہیں۔ دہشتگردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے خصوصی قوانین کا نفاذ ناگزیر ہے۔

وزیراعلیٰ نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ فرانس میں دہشتگردی کے ایک واقعے کے بعد ایک ہی دن میں قانون تبدیل کیا گیا، جبکہ بلوچستان میں 8 اگست 2016 کو وکلا کے قتل کا ماسٹر مائنڈ گرفتار ہونے کے باوجود اس کا بروقت ٹرائل نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: قانون شکنی کا الزام: انسداد دہشتگردی عدالت نے پی ٹی آئی کے 7 قائدین کا جسمانی ریمانڈ منظور

ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے واقعات میں لاشیں اٹھانے والوں کی تکلیف ناقابلِ بیان ہے لیکن دہشتگردوں کے خلاف کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

میر سرفراز بگٹی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم نے تہیہ کر لیا ہے کہ دہشتگردوں کے سامنے کسی صورت نہیں جھکیں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ بلوچستان میں دہشتگردی اور بدامنی میں ملوث عناصر ریاست سے بچ نہیں سکتے اور ایسے تمام عناصر کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ریاست پوری طاقت کے ساتھ ان کی سرکوبی کرے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انسداد دہشتگردی کا قانون میر سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انسداد دہشتگردی کا قانون میر سرفراز بگٹی وزیراعلی بلوچستان انسداد دہشتگردی میر سرفراز بگٹی

پڑھیں:

قازقستان؛ زبردستی اور جبری شادیوں پر پابندی عائد؛ خلاف ورزی پر سنگین سزا

قازقستان میں کسی بھی لڑکی کو زبردستی شادی پر مجبور کرنے پر 10 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ قانون سازی ملک میں بڑھتی ہوئی جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا کے کیسز سامنے آنے پر کی گئی ہے۔

قانون ساز ارکان نے بل کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ملک کے کمزور ترین طبقے خاص طور پر خواتین کے تحفظ کا ضامن ثابت ہوگا۔

انھوں نے مزید کہا کہ لڑکیوں کو جبری اور زبردستی شادیوں اور دلہنوں کے طاقتور افراد کے ہاتھوں اغوا کے واقعات کی بھی سرکوبی ہوگی۔

یاد رہے کہ قازقستان میں 2023 میں ایک سابق وزیر نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا تھا جس کے بعد ملک میں خواتین کو درپیش مسائل پر بحث شروع ہوئی تھی۔

دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ زبردستی شادی پر مجبور کرنے پر 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

علاوہ ازیں دلہنوں کو اغوا کے بعد اپنی مرضی سے رہا کرنے والوں کو قانونی گرفت سے بچاؤ کی سہولت بھی ختم کردی گئی ہے۔

اب اغوا کار دلہن کو اپنی مرضی سے رہا بھی کردے تب اس پر قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جائے گا۔

خیال رہے کہ ایک اندازے کے مطابق پچھلے 3 برسوں میں پولیس کو زبردستی شادی یا دلہن کے شادی کی تقریب سے اغوا کے 214 شکایات موصول ہوئیں۔

تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیوں کہ قازقستان میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جہاں ایسے معاملات کا ریکارڈ رکھا جا سکتا ہو۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • 26نومبر احتجاج کیس میں 11 گرفتار ملزمان پر فرد جرم عائد
  • کراچی کی 8 انسداد دہشتگردی کی عدالتیں منشیات کی عدالتوں میں تبدیل
  • ایشیا کپ: پاک یو اے ای میچ ہوگا یا نہیں، ایشین کرکٹ کونسل بھی تذبذب کا شکار
  • اسلام آباد: 26 نومبر احتجاج کیس میں 11 گرفتار ملزمان پر فردِ جرم عائد
  • قازقستان؛ زبردستی اور جبری شادیوں پر پابندی عائد؛ خلاف ورزی پر سنگین سزا
  • وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے بلوچستان کے سرکاری دفاتر میں ای فانلنگ نظام کو افتتاح کردیا
  • امریکی کانگریس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار پاکستانی حکام پر پابندیوں کا بل
  • چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور
  • خاموشی ‘نہیں اتحاد کٹہرے میں لانا ہوگا : اسرائیل  کیخلاف اقدامات ورنہ تاریخ معاف نہیں کریگی : وزیراعظم 
  • افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان