سیلاب اور متاثرین کی فوری امداد
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
سندھ و پنجاب کی سرزمین پر ہزاروں سال سے بستیاں آباد تھیں، ان بستیوں میں دھوپ بھی تھی، موسم کی گرمی، جاڑوں کی نرمی، خوشبو والی مٹی، کسان کے بیلوں کی گھنٹیاں، ہر طرف فصلیں جب لہلہاتیں، کسان کی آنکھوں میں امید کے دیے روشن ہو جاتے۔
رات کو جا کر محبت کی نگاہ پانی پر ڈالتے اور پانی کی صحت افزا بوندوں کی بوچھاڑ اپنے کھیتوں پر چھوڑتا، تو زمین میں زندگی دوڑ جاتی۔ یہ پانی جو زندگی کی علامت تھا، ماہ ستمبر میں زندگی کو نگلنے سر پر آ پہنچا۔ بھارت نے اس پانی کے ریلے کو موت کا پیغام بنا کر بنا سوچے سمجھے، اس سے بچنے کی تدبیر کرنے سے پہلے ہی بھیج دیا۔ بھارت نے اپنے ڈیموں میں پانی کا سمندر قید کر رکھا تھا جو غصے سے سر پٹخ رہے تھے۔
اچانک اپنے ڈیموں کے سارے دروازے کھول دیے تو پانی دشمن کی فوج کی طرح پنجاب اور سندھ کے کھیتوں پر چڑھ دوڑا۔ آبادیوں کو روند ڈالا، گاؤں بستیوں کو بہا کر لے گیا۔ یہ پانی بچوں، عورتوں، مردوں کو اٹھا کر لے گیا۔ ایک ایک کسان کے کروڑوں کے مال مویشی اپنے ساتھ ہانک کر لے گیا۔ ایسا معلوم دے رہا تھا کہ اس پانی میں سازش کا زہرگھول دیا گیا ہے۔
اس زہر نے کھڑی فصلوں کو ڈھیر کردیا۔ ہزاروں افراد کی جانیں لے گیا، لاکھوں مویشی بہا کر لے گیا۔ وہ کسان جو غلے کے ڈھیر بانٹتا تھا، بیچتا بھی تھا، اگاتا بھی تھا، آج اس کا خاندان سڑک کنارے کھلے آسمان تلے بیٹھا ہے، خشک روٹی کے ایک ٹکڑے کو بھی ترس گیا ہے۔
چند ہزار کسان نہیں غیر حتمی تخمینے کے مطابق 25 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ اگست کے آخر تک رپورٹ آئی کہ تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی جن میں سے چند لاکھ ریلیف کیمپوں تک پہنچے، کہیں سے یہ اطلاع بھی ملی کہ یہ پانی ریلیف کیمپوں کے اندر بھی آ گیا۔ ظالم بھارت نے ان پانیوں میں زہریلے سانپ بھی چھوڑ دیے۔ کئی علاقوں میں بنائے گئے فش فارم بھی برباد ہو گئے۔ اب ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے۔ اربوں روپے کی مچھلیاں فروخت ہوتی تھیں، وہ ختم ہوکر رہ گیا۔
5سے6 ہزار دیہات سیلاب سے متاثر ہوئے۔ کہیں اعلانات ہوتے رہے ’’ نکلو، نکلو پانی آ رہا ہے‘‘ اور جب شہری باہر نکلے تو پانی اندر آ چکا تھا۔ اب جائیں تو کہاں جائیں۔ چھت پر چڑھ کر امداد کے لیے پکارتے رہے، لیکن کوئی شنوائی نہیں۔
بہت سے ریسکو اہلکار بڑھ چڑھ کر امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ صوبائی حکومتیں ایسے کارکنوں کے لیے انعامات کا اعلان کریں۔ ابھی تک معلوم ہوا کہ 390 ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔ کم ازکم 10 ہزار ریلیف کیمپس قائم کیے جائیں۔ صرف 15 سے 20 لاکھ مویشی محفوظ مقامات پر پہنچائے گئے۔ اکثریت اپنی خوراک سے محروم ہیں، کسان فریاد کر رہا ہے کہ میرے لیے کھانا نہیں ہے تو کوئی بات نہیں، ان جانوروں کو تو ان کی خوراک پہنچا دو۔ یہ بھوکے ہیں، ان کی ترستی ہوئی نگاہوں کو خود آ کر دیکھ لو۔
ایسا معلوم دے رہا ہے کہ پنجاب کی زمین پر جب بھارت نے ہر دریا پر اپنے سیلابی ریلے چھوڑ دیے تو وہ سب مل کر ایک ساتھ غضب ناک ہو کر بہنے لگے۔
انھوں نے تاریخ، سیاست اور معیشت سب کو بہا کر بحیرہ عرب کی نذر کر دیا۔ اب ان پانیوں کی وہ تاریخ لکھی جائے گی جو لاکھوں سال میں کبھی نہیں لکھی گئی، لیکن اب جو پانی آیا ہے ، یہ نئی تاریخ رقم کرے گا، یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہمیں اپنی سیاست، معیشت اور سماجی تضادات، غریب کا دکھ، غربت کی بھوک، کسان کا کرب، اشرافیہ کی بے رخی، حکومتی انتظامات میں کوتاہی، پالیسیوں کی خامی، ماحولیاتی غفلت اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سب کو عریاں کرکے رکھ دیا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ پوری قوم امداد کے لیے دوڑ پڑے، جہاں تک انتظامیہ اجازت دیتی ہے وہاں تک پہنچیں جہاں نہیں پہنچ سکتے۔ وہاں کے لیے فوری انتظامات کیے جائیں۔ بے شک یہ سیلاب تھا لیکن انسانی ڈھال، انسانی ہمدردیاں، اشرافیہ کا ایثار، حکومت کی ناقابل شکست انتظامی پالیسی، تمام سیاسی جماعتوں کی یکجہتی اگر ڈھال بن کر کھڑی ہو جاتی، تو بہت کچھ بچایا جا سکتا تھا۔ اس کالم کی اشاعت تک مزید بہت کچھ ڈوب کر تباہ و برباد ہو جائے گا۔
ہم سب اجتماعی طور پر سیاسی اختلافات بھلا کر کب آگے بڑھیں گے۔ جب بہت کچھ اور ڈوب جائے گا تو بھارت کا خواب پورا ہو جائے گا۔ کوئی شخص چاہے وہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں سیلاب سے متاثر ہو، اس تک امداد کون پہنچائے گا؟ آج مشکل کی اس گھڑی میں، مالی مشکلات میں گھرے ہوئے شخص کی مدد اپنے نہیں کریں گے تو آخر باہر والوں کو آنے میں معلوم نہیں کتنا عرصہ لگ جائے۔
حکومت ان کے مستقبل کی منصوبہ بندی کرے۔ ان کسانوں کو ٹوٹے مکانوں کی دوبارہ مرمت کے لیے بلا سود قرض، کھیتوں کے بیج، کھاد، زرعی ادویات کے اسپرے کے لیے بلاسود فوری رقوم کی فراہمی، جن کی دکانیں، بھینسوں کے باڑے، فش فارمز، مرغی خانوں، چھوٹے کارخانوں کو نقصان پہنچا ہے ان کی حکومت فوری تلافی کا بندوبست کرے۔ ورنہ یہ ایک ماہ کا سیلابی دھچکا معیشت کی ایک عشرے تک کمر توڑ کر رکھ دے گا۔
پھر خوراکی اشیا کی قیمت بڑھ جائے گی اور ملکی ترقی جو اب کم ہوگی وہ منفی ترقی کی طرف چلی جائے گی۔ اقوام عالم کو حکومت آگاہ کرے کہ بھارت نے کس طرح پاکستان کی معیشت کو ڈبو دیا ہے۔ آیندہ کے لیے اس کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔ سیلاب تو اپنا وار کر کے چلا جائے گا، لیکن بار بار ملکی معیشت ڈوبتی رہے گی۔ اس کے بارے میں فوری سوچ بچار کی ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کر لے گیا بھارت نے جائے گا کے لیے
پڑھیں:
سیلاب کی تباہ کاریاں‘ کاشتکاروں کو مالی امداد فراہم کی جائے‘سلیم میمن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-08-28
حیدرآباد (نمائندہ جسارت) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر سلیم میمن نے حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث سندھ اور ملک بھر میں اشیاء خورونوش و زرعی اجناس کی سپلائی لائن میں بے ترتیبی و رکاوٹ پر گہری تشویش کا اِظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس کے اَثرات عوام کے ساتھ ساتھ تاجر برادری کے لیے بھی ناقابلِ برداشت بنتے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ سبزیوں اور زرعی اَجناس کی سپلائی لائن بُری طرح متاثر ہونے کے باعث ٹماٹر، پیاز، آلو اور ہری سبزیوں کی قیمتوں میں کئی گنا اِضافہ ہو گیا ہے، جس کا براہِ راست اَثر عوام و تاجروںپر پڑ رہا ہے۔ چھوٹے تاجر جن کا روزانہ کا کاروبار محدود منافع پر چلتا ہے، بڑھتی ہوئی قیمتوں اور سپلائی میں رُکاوٹ کے باعث شدید نقصان اُٹھا رہے ہیں۔ ایک طرف خریدار مہنگائی سے پریشان ہیں تو دوسری جانب تاجر مناسب منافع کے بجائے نقصان کے ساتھ کاروبار چلانے پر مجبور ہیں۔ صدر چیمبر سلیم میمن نے اَفسوس کا اِظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود کوئی پیشگی اِقدامات نہیں کیے جاتے۔ دُنیا کے کئی ممالک نے کولڈ اسٹوریج مراکز، کسانوں کی اِنشورنس اسکیمیں، پرائس کنٹرول اور مضبوط انفراسٹرکچر کے ذریعے فوڈ چین کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے، جبکہ سندھ میں ایسے اِقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کے باعث ہر سال عوام اور تاجر برادری یکساں طور پر متاثر ہوتی ہے۔ صدر چیمبر سلیم میمن نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے فوری اور سنجیدہ اِقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ زرعی اجناس اور سبزیوں کے لیے محفوظ گودام اور کولڈ اسٹوریج مراکز قائم کیے جائیں تاکہ تاجروں کو ضیاع اور نقصان سے بچایا جاسکے۔ دیہی علاقوں اور منڈیوں تک پائیدار سڑکوں کی تعمیر کی جائے تاکہ ترسیلی نظام میں رُکاوٹ نہ آئے۔ اِسی طرح سبزیوں اور روزمرہ ضروریات کی اَشیاء کی بروقت درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ مقامی منڈیوں میں سپلائی بحال رہے اور قیمتوں میں استحکام پیدا ہو۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ کاشتکاروں کو مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ آئندہ فصل بروقت کاشت کرسکیں، جس سے عوام اور تاجروں دونوں کو ریلیف ملے گا۔ اِس کے ساتھ ساتھ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ عام آدمی اور تاجر برادری دونوں کو حقیقی معنوں میں سہولت حاصل ہوسکے۔ صدر چیمبر نے کہا کہ خوراک کی ترسیلی زنجیر کے استحکام کو قومی ترجیحات میں شامل کیا جانا لازمی ہے تاکہ عوام کو اشیائے خورونوش قابلِ برداشت قیمتوں پر دستیاب ہوں اور تاجروں کا کاروبار بھی بحال اور مستحکم رہے۔