Express News:
2025-11-03@06:20:48 GMT

عیاری

اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT

دیکھیے تو بیانات،اعلانات،اشتہارات اور روزانہ خوش خبریات،ہزاروں پہلی ترجیحات، تحفظات،تجزیات،دانا دانشوروں کے کلمات کے رنگین پردوں کے پیچھے ہمارے معاشرے کا جو اصل چہرہ ہے وہ بہت بدنما،داغ دار اور کریہہ المنظر ہے۔ کرپشن میں ٹاپ،جھوٹ میں ٹاپ، منافقت میں اے گریڈ اور جرائم ،بے راہرویوں اور ــ’’فروشیوں‘‘ میں عالمی نمبرون ہے۔یہ ایک ایسا خوش نما،خوش رنگ اور خوشبودار’’پھل‘‘ ہے جو بظاہر تو صحیح و سالم، تازہ بتازہ اور اشتہا انگیز نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر دنیا بھر کے کیڑے کلبلا رہے ہیں اسے کھا رہے ہیں سڑا رہے گلا رہے ہیں۔اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جو کسی سے بھی ڈھکی چھپی ہو یا جس کے لیے کسی دلیل کسی شہادت یا ثبوت کی ضرورت ہو سب کچھ عیاں ہے عریاں ہے اور برسرمیدان ہے۔

ایک معمولی چھابڑی فروش سے لے کر ٹاپ کے تاجروں اور صنعت کاروں تک ایک چپڑاسی سے لے کر افسر اعلیٰ تک،سپاہی سے لے کر جی جی اور پی پی تک ایک پارٹی کارکن سے لے کر سربراہ تک،گاؤں کے کونسلروں سے لے کر وزیروں مشیروں تک سب کے سب کرپٹ اور شارٹ کٹوں پر چل رہے ہیں۔ ہر کوئی جب صبح اٹھتا ہے تو یہ نہیں سوچتا کہ میں آج کیا ’’کام‘‘ کروں گا بلکہ یہ سوچ کر جاتا ہے کہ کیا کیا کام دکھاؤں گا اور کیا کیا کماکر لاؤں گا اور اس کے لیے ہمارے پاس جو دلیل ہے ثبوت ہے، شہادت ہے اسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔

یہ خطہ جہاں ہم رہ رہے ہیں وہی خطہ ہے نا جو دنیا میں سونے کی چڑیا کے طور پر مشہور تھا جس کی شہرت سن کر دنیا بھر کے شکاری اسے شکار کرنے آتے تھے۔خشکی کے راستے سے بھی اور پانی کے راستوں سے بھی۔اپنے سر ہتھیلی پر لے کر سرپر کفن باندھ کر لمبی لمبی مسافتیں طے کرکے خون بہاتے ہوئے اور خون میں نہاتے ہوئے آگ کے دریاؤں میں ڈوب کر پہنچتے تھے۔نہ دیس کی پروا نہ پردیس کا غم بلکہ اپنے دیسوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر یہیں کے ہوجاتے تھے۔لیکن آج ایسا کیا ہوا ہے سوچیے غور کیجیے کہ لوگ اس سے دور دور بھاگ رہے ہیں فرار ہورہے ہیں اپنی ماں کی آغوش سے بھی کوئی بھاگتا ہے؟سل روپئی پہ پور کا۔خپلہ شپہ پہ کور کا۔ ترجمہ۔ سو روپے ادھار لو۔ مگر رات اپنے گھر گزار لو۔لیکن وہ’’سو‘‘ روپے ادھار لے کر اپنے گھر سے بھاگ رہا ہے۔

پرانے زمانے میں بھی شاید ایسا ہوا ہوگا کہ جب جنت میں برتری اور قبضے کا ابلیس آیا، تو اس نے آدم کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔کیا عجیب سا اتفاق ہے کہ اس وقت بھی حضرت آدم ہندوستان کے پہاڑوں پر اترے تھے اور حضرت حوا سعودی عرب کے جدہ میں اتری تھیں۔ اور آج بھی آدم زاد ان پہاڑوں سے بھاگ کر جدہ وغیرہ بھاگ رہا ہے۔اس سلسلے میں جتنے بھی ’’کیوں‘‘ ہیں اور پھر اس ’’کیوں‘‘ کے اندر اور بے شمار کیوں ہیں ان سب کا جواب ایک ہی ہے۔

کہ جب کسی سرزمین کے وسائل پر چند لوگ قابض ہوجاتے ہیں توعام لوگ بھوک ننگ محرومی اور مجبوری کا شکار ہوجاتے ہیں، دس روٹیوں میں سے جو دس لوگوں کے لیے ہوتی ہیں، تین ہاتھ بڑھا کر دو دو روٹیاں اٹھالیتے ہیں تو باقی سات لوگ چار روٹیوں میں گزارا کیسے کریں گے، یقیناً کہیں اور جاکر اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کریں گے اور وہی کررہے ہیں۔ بھوک وہ ظالم ’’کمان‘‘ ہے جس کے آگے ’’تیر‘‘ بے بس ہوجاتا ہے۔یہ ایک کا ہوت نما محاورہ ہے۔ کہ کسی نے ’’تیر‘‘ سے پوچھا کہ تم اتنا تیز کیوں اڑ یا بھاگ رہے ہو۔ ’’تیر‘‘ نے کہا کیا کروں میرے پیچھے کمان کا زور ہے۔اور بھوک کی کمان کا تیر پھر یہ نہیں دیکھتا کہ کہاں جانا ہے، کہاں لگنا ہے کہاں گھسنا ہے اور کہاں ٹوٹنا ہے

ٹوٹے نہ یہ سانسوں کا تسلسل مرے ہمدم

یہ قافلہ ہائے عمر بہت تیز قدم ہے

ظاہر و باہر ہے سب کچھ سامنے ہے کھلا ڈلا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس ناہمواریت،ناانصافی اور استحصال کا بری طرح شکار ہے۔پندرہ فیصد اشراف جو کچھ نہیں کرتے۔یا لسی بھی دوسروں کے ہاتھوں سے پیتے ہیں جو صرف باتوں کے بتنگڑ بناتے ہیں صرف بیانات دیتے ہیں اور وسائل کا پچاسی فیصد ہڑپتے ہیں اور وہ جو پچاسی فیصد میں جو کماتے ہیں اگاتے ہیں لاتے ہیں پیدا کرتے ہیں ان کو اپنی ہی محنت کا پندرہ فیصد بھی نہیں ملتا وہ کیا کریں گے کہاں جائیں گے

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

کہ درویشی بھی عیاری سلطانی بھی عیاری

یہاں ہم نے اس’’درویشی‘‘ کا ذکر نہیں کیا جو اشرافیہ کی جدی پشتی ساجھے دار ہے۔جو ہمیں’’کل‘‘ کی خوشحالی کی امید پر ٹرخا کر ہمارا ’’آج‘‘ لوٹ رہے ہیں یا لٹوانے میں اشرافیہ کا ساجھے دار اور مددگار ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سے لے کر ہیں اور رہے ہیں سے بھی کے لیے

پڑھیں:

خطے کے استحکام کا سوال

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طورخم سرحد کو صرف افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دوبارہ کھولا ہے، جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آتی، سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے۔

اس وقت سیکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے ہیں اور امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انھیں افغانستان جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔

 ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں۔ جنگ کے حالات اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 6 نومبرکو جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے اپنی توقعات کا اظہارکیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان چند روز قبل ترکیہ میں امن مذاکرات ہوئے تھے، تاہم یہ مذاکرات طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث بری طرح ناکام رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں استنبول میں چار روزہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔

 بھارت کے بعد افغانستان نے جس طرح پاکستانی سرحدوں کو پامال کیا اور پاکستانی افواج نے جوابی حملہ کر کے طالبان اور فتنہ الخوارج اور ان کی سرحدی چوکیوں کو جس طرح تباہ کیا۔ اس سے انھیں حقیقت کا خاصا ادراک ہوگیا ہے لیکن بھارتی آشیر باد، فنڈنگ، سہولت کاری صورتحال کو نارمل ہونے میں حائل ہو رہی ہے۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ خطے میں امن کی بجائے بدامنی کا باعث بن رہا ہے، افغان ایک سیاہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ تاریخ اوراقوام عالم میں احسان فراموش محسن کش کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

پاکستان نے 40 سالوں تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کاروبار تعلیم صحت کے مواقعے فراہم کر کے انھیں اپنے شہریوں کے برابر حقوق و سہولیات مہیا کیں اور وطن عزیز میں بطور مہمان رکھا مگر ہماری مہمان نوازی کے جواب میں یہ لوگ واپس جاتے جاتے، اپنے گھروں خیموں یہاں تک مساجد کو بھی شہید کرکے جا رہے ہیں جو کہ اسلام دشمنی اور احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔

افغانوں کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو اس بات پر بھی خاص نظر رکھنی ہوگی یہ لوگ دوبارہ پاکستان واپس نہ آجائیں تو اس کے لیے ان کا ڈیجٹیل ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ اب افغانستان کا چترال سے نکلنے والے دریائے کنہڑکے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کرنا، بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا، ہندو بنیے سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا اور بھارت کے پیسوں سے پاکستان میں من پسند شریعت کے نفاذ کے دعوے، دین اسلام ،قرآن و سنت اور اللہ کے فرمان کے منافی سرگرمیاں ہیں۔

آج افغانوں کو اپنی منفی سرگرمیوں اور شرپسندی کے بھرپور جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ گو نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔

 سوویت افغان جنگ 1979سے لے کر 1989تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاکستان نے افغان فوج کا مکمل ساتھ دیا اور تعاون جاری رکھا جب کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بعد پاکستان پر دہشت گردانہ حملے اور دراندازیوں کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے جب کہ پاکستان نے سفارتی احتجاج کیے، دہشت گردی اور دراندازی کے ثبوت بھی فراہم کیے، وفود کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر افغانستان کی طرف سے ہمیشہ منفی رویہ اپنایا گیا۔

پاک افغان جنگ بندی اچھا عمل ہے مگر تاریخ کے مطابق افغان حکومت پر اعتبار کرنا کسی طور پر بھی خوشگوار نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت2.41 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے کوشاں ہے جب کہ یہی سی پیک دنیا کو 85.9 فیصد تجارتی راستوں سے جوڑتا ہے جو براہ راست چین، وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے، یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کے طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمیں دشمنوں کے بچھائے جال میں الجھنے اور پھنسنے کی بجائے اپنی اسٹرٹیجک صورتحال اور میلوں پر پھیلے قیمتی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں نئے دروازے کھولنے چاہیں اور پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، ماضی کے بوجھ تلے دبے رہ کر دونوں برادر ہمسایہ ممالک کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا دونوں کو بداعتمادی کی فضا ختم کرنا ہوگی۔ دانش مندانہ اور پائیدار حکمت عملی سے نئے، خود مختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

بھارت جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ماضی کی رنجشوں کو ابھارے گا، جب کہ وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ قونصل خانے بھی کھولنے جا رہا ہے، دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتی قربت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں، پاکستان کے افغانستان پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لیے اسے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتیت کی بجائے توازن کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ برادر ہمسایہ ملک جس کی غذائی ضروریات کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے، اسے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے سے ممکنہ حد تک روکا جا سکے تاکہ ملک کو جس دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کا سامنا ہے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔

 پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی اور انٹیلی جنس نمائندے ایک مشترکہ نظام کے تحت کارروائیوں کی نگرانی کریں تاکہ کسی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو، مگر افغان فریق نے اسے ’’ غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر تصدیق کے نظام سے خوف کیوں؟ دراصل طالبان حکومت داخلی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی شناخت چاہتی ہے، دوسری طرف ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے روابط توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکیہ اور قطر نے ثالثی کے طور پر ایک سمجھوتے کی صورت تجویز کیا کہ پہلے تکنیکی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں، بعد میں سیاسی معاملات طے کیے جائیں۔ یہ ایک قابل عمل تجویز تھی مگر کابل کے رویے نے اس کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔

مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دونوں فریقوں نے ’’تکنیکی سطح‘‘ پر رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یعنی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ مگر اعتماد کا فقدان اتنا گہرا ہے کہ کوئی پیش رفت تبھی ممکن ہے جب کابل اپنے وعدوں کو تحریری شکل دے۔ زبانی یقین دہانیوں اور مذہبی حوالوں سے اب کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ خود مختاری صرف ایک ملک کا حق نہیں، ایک ذمے داری بھی ہے۔ جب اس کے علاقوں سے پاکستان پر حملے ہوں تو وہ خودمختاری نہیں، لاپرواہی کہلاتی ہے۔

پاکستان نے اپنے عوام، فوج اور سفارت کاروں کی قربانیوں سے جو امن حاصل کیا ہے، اسے کسی دوسرے ملک کی کمزوریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازع میں ترکیہ اور قطرکا کردار امید کی کرن ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی برادری میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثالثی کا عملی تجربہ بھی ہے، اگر وہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیشن کے قیام میں کامیاب ہو گئے تو شاید مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ممکن ہو۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استنبول مذاکرات مشکلات کا شکار ضرور ہوئے مگر انھوں نے پاکستان کے اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف کو بین الاقوامی سطح پر واضح کر دیا۔ اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔

مگر ایسا امن جو احترامِ خود مختاری، تصدیق شدہ عمل اور دہشت گردی سے پاک ہمسائیگی پر مبنی ہو۔ افغانستان کے حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے خول میں بند رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔

پاکستان کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، مگر شرط وہی ہے ’’امن کے بدلے امن۔‘‘ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، پاک افغان جنگ بندی معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اگر اس معاہدے پر من و عن عملدرآمد ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امن و امان کے عوض سکھ کا سانس نصیب ہوگا اور خطے میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • امریکا اپنے نئے نیوکلئیر دھماکے کہاں کرے گا؟
  • تجدید وتجدّْد
  • سانحہ بھاگ میں شہید ایس ایچ او کے اہل خانہ سے وزیراعلیٰ بلوچستان کی تعزیت، اعزازات کا بھی اعلان